دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں ریاستی سطح پر نوجوانوں کی پیشہ ورانہ تربیت اور سماجی تہذیب کیلئے ہر نئے دن مختلف النوع پروگرام جاری رہتے ہیں جن میں نوجوانوں کی صلاحیتوں کو بڑھانے کیلئے تعلیم و تربیت کے مواقع فراہم کرنے اور انہیں سماجی و اقتصادی ترقی میں فعال بنانے کیلئے تیار کیا جاتا ہے۔ مختلف ممالک میں یوتھ ڈویلپمنٹ پروگرامز کے مختلف پہلو ہوتے ہیں جن میں تعلیم، صحت، مہارت کی تربیت، سماجی خدمات اور قیادت کی صلاحیت میں بہتری شامل ہیں۔
ملک کے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ماہرین کے ساتھ نوجوان طلباء و طالبات کا ملنا جلنا منزلوں کے سراغ کیلئے بہترین راہوں کے تعین کا باعث ہوتا ہے۔ ڈگری کے حصول سے پہلے تعلیمی اداروں سے نکل کر تاریخی سماجی اور پیشہ ورانہ اہمیت کے حامل مقامات اور اداروں کا وزٹ اور آوٹ آف باؤنڈ ایکسپوئیر عملی زندگی کو قریب سے دیکھنے کے مترادف ہوا کرتا ہے۔
میں ہمیشہ سوچتا تھا کہ کاش ایسے پروگرامز پاکستان میں بھی ہوا کرتے جیسے یورپ، برطانیہ، امریکہ اور آسٹریلیا جیسے ممالک میں ہوتے ہیں تو ہماری یوتھ کے لیے بھی گلوبل ویلیج کو سمجھنا اور نئے عہد کے تقاضوں کو جان کر آگے بڑھنا مربوط اور آسان ہوجاتا۔ ابھی پچھلے سال ہی مجھے پتہ چلا کہ افواج پاکستان کی طرف سے قومی سطح پر یوتھ ڈویلپمینٹ پروگرام کے تحت اور افواج پاکستان کے شعبہ تعلقات عامہ کے زیر انتظام ہر سال ایک نہایت معیاری انٹرنشپ پروگرام منعقد کیا جاتا ہے۔ اس سال بھی جنوری 2025ء میں صرف لاہور میں جاری پروگرام میں شہر کی مختلف یونیورسٹیز کے 450 سٹوڈنٹس شریک ہیں جن میں سے دوسو طالب علم اور 250 طالبات ہیں۔
مجھے یہ جان کر حقیقی مسرت ہوئی کہ اس پروگرام کا مقصد بھی ترقی یافتہ ممالک کی طرح خالصتا" قومی نظریے اور ریاستی فکرکے پیش نظر نوجوان نسل کو معاشرتی، تعلیمی اور پیشہ ورانہ میدان میں کامیابی کے لیے تیار کرنا ہے۔ اس پروگرام کے تحت لاہور میں مختلف تعلیمی اور تربیتی سرگرمیاں جاری ہیں، جہاں طلبہ کو نہ صرف مقامی بلکہ قومی سطح پر بھی مہارت حاصل کرنے کے بہترین مواقع فراہم کیے جا رہے ہیں۔ وہاں نوجوانوں کو ایک دوسرے سے مل کر اور خیالات کا تبادلہ کرکے مختلف تعلیمی اداروں کے انداز تعلیم کو بھی سمجھنے کا موقع مل رہا ہے جس سے وہ عملی طور پر مختلف شعبوں کی نوعیت سے بہرہ مند ہو رہے ہیں۔
حالیہ دنوں میں اسی جاری پروگرام کے تحت لاہور کے شرکاء نے ایوان قائد اعظم کا دورہ کیا اور وہاں پر منعقد ہونے والی ایجوکیشنل ایکسپو کا مشاہدہ کیا۔ اس دورے سے نوجوانوں کو نہ صرف تاریخی و ثقافتی اہمیت سے روشناسی حاصل ہوئی بلکہ ملکی تاریخ اور قیادت کے بارے میں بھی گہری بصیرت میسر آئی۔ ہر سال ہونیوالے اس پروگرام کی مدت چھ ہفتوں پر محیط ہے، جس کے دوران شرکاء کو مختلف موضوعات پر معلومات فراہم کی جاتی ہیں، جن میں میڈیا، معیشت اور سماجی موضوعات شامل ہیں۔ ان موضوعات پر انٹرایکٹو سیشنز، مباحثے اور مکالمے منعقد کیے جاتے ہیں، جن میں ملک کے ممتاز ماہرین پروگرام میں شریک نوجوانوں کیساتھ اپنے تجربات اور علم کا تبادلہ کرتے ہیں جس سے انکی ذہنی بالیدگی کے عمل کو تقویت ملتی ہے اور وہ بہتر فیصلہ سازی کے قابل ہوتے ہیں۔
اس پروگرام کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ نوجوانوں کو صرف کتابی علم فراہم نہیں کرتا، بلکہ عملی تجربات اور زندگی کے اصل حقائق سے بھی آگاہ کرتا ہے، جس کی بدولت وہ ایک ذمہ دار، تعلیم یافتہ اور باصلاحیت شہری کے طور پر ابھرتے ہیں۔ اس پروگرام کی کامیابی اور اسکے اثرات پورے ملک میں نوجوانوں کی تربیت اور رہنمائی کے حوالے سے ایک نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ سنو ایف ایم پنجاب کے نمائندے کے مطابق پروگرام بیک وقت راولپنڈی، پشاور، کوئٹہ، کراچی گوادر، تربت، گلگت بلتستان کشمیر، ملتان، بہاولپور سمیت ملک کے دور دراز علاقوں تک انعقاد پذیر ہے جس کے ایکسپوئیر وزٹس مقامی جبکہ اورئینٹیشن اور نالج شئیرنگ سیشنز جدید ترین ڈیجیٹل اپلیکیشنز کے زریعے قومی سطح پر منسلک کیے جا رہے ہیں۔
چھ ہفتوں پر محیط اس پروگرام پر اٹھنے والے اخراجات افواج پاکستان اپنے بجٹ سے ادا کرتی ہیں اور نوجوانوں پر یا انکے والدین پر اخراجات کا کوئی بوجھ نہیں ڈالا جاتا۔ اصولی طور پر تو ایسے پروگرام ضلعی حکومتوں سے لیکر صوبائی اور قومی حکومتوں تک کے ترقیاتی منصوبوں کا حصہ ہونے چاہئیں تاکہ سڑکوں اور پلوں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ ریاست کے حقیقی سرمائے یعنی ہیومن ریسورس، یعنی نوجوان نسل کی فکری تعمیر اور ترقی کا مسلسل عمل ہمارے سسٹم کا حصہ بن جائے- لیکن نجانے کیوں ہماری حکومتوں کا دھیان اس طرف کم کم ہی جاتا ہے۔ آج کل تو ویسے بھی بات ہاتھی کے دانتوں کی طرح ہو کر رہ گئی ہے جو کھانے کی بجائے صرف دکھانے کیلئے ہوتے ہیں۔ کوئی حکومت روزگار دینے کی بجائے لنگر خانے کھول کے چلی جاتی ہے اور دوسری آ کے لیپ ٹاپ تقسیم کرکے یہ تصور کرتی ہے کہ اس نے ملک کے نوجوانوں کو ترقی کی راہ پر ڈال دیا ہے۔
اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان جیسے معاشی چیلینجز کے شکار ملک کیلئے سب سے بڑا امتحان ہی کسی نئے وینچر کیلئے بجٹ نکالنا ہوتا ہے لیکن اس میں بھی کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں کہ حکومتیں اپنے ان کاموں کی تشہیری مہم پر کروڑوں لگا دیتی ہیں جو ان کا کوئی کارنامہ نہیں بلکہ ذمہ داری ہوتے ہیں۔ اگر ہر وزارت اپنے اپنے شعبوں میں آئی ایس پی آر کی طرح کے سالانہ یوتھ ڈویلپمینٹ پروگرام جاری کر لے تو ایک تو اس سے نوجوانوں کو سوشل میڈیا کی بے راہ روی سے بچایا جاسکتا ہے اور دوسرا انٹرپرینئور شپ کا شعور بخش کے خود انحصاری سوچ کے تحت چھوٹے چھوٹے بزنس شروع کروا کے نہ صرف بیروزگاری سے بچایا جا سکتا ہے بلکہ ملکی معیشت کے دھارے میں لا کر قومی اقتصادی ترقی کو سہارا دیا جاسکتا ہے۔