Friday, 15 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Kalam e Saeed, Mubarak Ho

Kalam e Saeed, Mubarak Ho

نہ صحافت شاعری پر غالب آسکی نہ زمانے کا چلن سعید آسی کی سیدھی، سادہ، شفاف اور اجلی شخصیت پر غالب آسکا۔ نذیر ناجی، منو بھائی، عباس اطہر تگڑے شاعر تھے لیکن صحافت غالب آ گئی، محمود شام شاعر کمزور تھے سو صحافت غالب آگئی، عطاء الحق قاسمی پر سیاست غالب آ گئی، لیکن سعید آسی کے بطور صحافی ایک جاندار اور شاندار کیریئر رکھنے کے باوجود شاعری نے ان کے باطن اور اردگرد کو اپنی گرفت سے کبھی نکلنے نہیں دیا۔

گزشتہ پچاس سال وقت کے تندوتیز اور بلاخیز ہلکوروں اور اچھالوں کے باوجود نہ شاعری نے سعید آسی کا دامن چھوڑا اور نہ سعید آسی نے شاعری کو خود سے جدا کیا۔ شاعری اور سعید آسی ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے دل سے دل ملا کے چلتے رہے اور بالآخر "کلام سعید" کی شکل میں ایک نہایت خالص، زورآور اور روشن تخلیقی سرمایہ اردو اور پنجابی دونوں زبانوں اور ان کے ادب کو ثروت مند بنانے میں کامیاب ہوا۔

سعید آسی کے شعری سفر کا باقاعدہ آغاز 1974ء میں ہوا جوآج تک جاری ہے۔ ان کی اب تک 12 کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن میں کالموں کے مجموعوں اور سفر نامے کے علاوہ، دو پنجابی شاعری کے مجموعے، " سوچ سمندر " اور " رمزاں" اور اردو شاعری کا ایک مجموعہ " تیرے دکھ بھی میرے دکھ ہیں" بھی شامل ہے۔ زیر نظر مجموعہ، " کلام سعید " کو ان کی اب تک کی شاعری کی کلیات کہا جا سکتا ہے کیونکہ اس میں شعری مجموعوں کے علاوہ کچھ دیگر تازہ کلام بھی شامل ہے۔ یوں انہوں نے اپنی شاعری کو ایک جگہ سمیٹ کر اردو شاعری کے سنجیدہ قاری، نقاد اور محقق کے لیے آسانی پیدا کردی ہے۔

بطور نقاد اگر میں سعید آسی کے شعری مزاج کو سمجھنے کے لیے ان کو ساحر لدھیانوی، ناصر کاظمی اور احمد ندیم قاسمی کے شعری مزاج سے مماثل قرار دوں تو کچھ ایسا غلط بھی نہیں ہوگا کیونکہ ظلم و جبر اور استحصال کے خلاف سعید آسی کی آواز بھی اسی طرح بلند اور لہجہ تلخ ہے جیسا کہ ساحر اور ندیم قاسمی کے ہاں ملتا ہے۔ ظاہر ہے ایسی مماثلتوں کے پیچھے پہلی اور آخری وجہ ہمیشہ یہی ہوتی ہے کہ آپ جن شعراء کو پسند کرتے ہیں ان کے لہجے کی خوشبو آپ کی شاعری کو بھی کہیں نہ کہیں سے مہکاتی ضرور ہے۔

زیر نظر غزل میں احمد ندیم قاسمی کے لب و لہجے کی مماثلت صاف محسوس کی جاسکتی ہے۔

پاؤں جمتے ہیں نہ دستار سنبھالی جائے
اب تو بس عزت سادات بچالی جائے

حبس ایسا ہے کہ دم گھٹتا نظر آتا ہے
کرکے تدبیر کوئی، تازہ ہوا لی جائے

کچھ تو اسباب ہیں اس بے سروسامانی کے
اپنے احباب کی تاریخ کھنگالی جائے

اب دعاؤں میں بھی تاثیر نہیں ہے شاید
کیسے بگڑی ہوئی تقدیر بنا لی جائے

ویسے تو دکھ ہیں کہ بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں
پھر بھی یہ عدل کی زنجیر ہلا لی جائے

بھوک بڑھنا ہی بغاوت کا سبب ہے آسی
یہ روائت میری سرکار نہ ڈالی جائے۔

اب کلام سعید پر ناصر کاظمی کا رنگ دیکھئیے

یہ کیسے حالات بنے ہیں
لفظ بھی ہم سے روٹھ گئے ہیں

دل تو ایک تھا سہنے والا
زخموں کے انبار لگے ہیں

دنیا کو اب کیا بتلائیں
ہم نے کیا کیا درد سہے ہیں

رونے کا ماحول تو نہ تھا
پھر بھی آنسو بھر آئے ہیں

تیری خاطر دنیا بھر کے
طعنے کتنی بار سُنے ہیں

اُلٹے سیدھے نقش بنا کر
جانے کس کو ڈھونڈ رہے ہیں

آسی جی آہستہ بولو
دیواروں کو کان لگے ہیں۔

اب سعید آسی کی زیرِ نظر نظم میں ساحر لدھیانوی کے لہجے کی کھنک دیکھئیے۔۔

" کون ہو تم؟"

میری مغموم جوانی کا سہارا بن کر

کون ہو تم جو مِرے پاس چلی آئی ہو

مجھ کو یہ فکر نہیں، حشر مِرا کیا ہوگا

ہاں مگر اپنے لئے باعث رسوائی ہو

مجھ کو تسلیم سہی تیری ہر اک مجبوری

یہ زمانہ ہے، اسے کس طرح سمجھاؤ گی

میرا کیا، میں تو ہر اک زخم چھپا لیتا ہوں

تم مگر دل کی چبھن کیسے چھپا پاؤ گی

مجھ سے اقرار ہے الفت کا، مگر سوچو تو

تیرے اقرار میں کچھ غرض تو پوشیدہ نہیں

تم نے اقرار حقیقت کا کیا ہے، لیکن

اس حقیقت میں کوئی "فرض" تو پوشیدہ نہیں

کس طرح تجھ کو بتاؤں، یہ تِرا عہدِ وفا

مجھ کو کچھ اور ہی بیچین کئے جاتا ہے

تیری ہر سوچ مجھے فکر لگا دیتی ہے

تیرا ہر رنگ مجھے زخم دیئے جاتا ہے۔

اس سے پہلے کہ مجھے تم سے محبت ہو جائے

تم ابھی سے ہی زمانے کی طرف دار بنو

اس سے پہلے کہ تمہیں میری ضرورت نہ رہے

آج ہی میرے لئے اجنبی سرکار بنو

میں کہ درماندہ ہوں، ٹھکرایا ہوا دنیا کا

مجھ کو مدہوش خیالات میں نہ الجھاؤ

جس کے انجام سے میں پہلے ہی شناسا ہوں میں

اس کہانی کو مِرے سامنے نہ دہراؤ

کون ہو تم کہ تِرا پیار میرے بس میں نہیں

ہاں گرا دوں میں یہ دیوار، میرے بس میں نہیں

میرے لیے بطور ادراکی نقاد جانچنے کی چیز یہ ہے کہ آخر وہ کیا محرکات، میلانات ہیں یا اسباب ہیں جو سعید آسی کو ناصر کاظمی، احمد ندیم قاسمی اور ساحر لدھیانوں کے اتنا قریب لے آئو کہ وہ ان تینوں کے رنگ میں شعر کہنے لگا؟ کیا صرف مطالعہ یا اس سے بڑھ کر کچھ اور بھی؟ اس لیے پہلے تو مجھے ان تینوں شاعروں میں مماثلت تلاش کرنی پڑی جو آشوب ذات، آشوبِ شہر اور نظریے کی صورت میں سامنے آئی۔ اگرچہ ناصر کاظمی کے ہاں احمد ندیم قاسمی اور ساحر لدھیانوی کی طرح نظریاتی شاعری نمایاں اور بلند آہنگ نہیں ہے لیکن آشوب شہر کے اظہار کے پیچھے سیاسی جبر کی روداد کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔

سعید آسی کے ہاں آشوب ذات اور سیاسی، سماجی، معاشی جبر و استحصال کے خلاف ایک پوری مربوط فکر نظر آتی ہے۔ بلکہ میں یہ کہنے میں خود کو حق بجانب سمجھتا ہوں کہ سعید آسی کرب ذات اور احساسِ جبر و استحصال کی چکی کے دوپاٹوں میں اس طرح پِستا دکھائی دیتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے، وہ اس عذابِ آگہی کی آگ میں تمام عمر جلتے رہنے کے باوجود آج تک کیسے پورے عزم و استقلال سے جم کر کھڑا ہے۔

مذکورہ بالا شعراء سے اسلوبیاتی مماثلت کے باوجود وہ خیال اور مضمون کی سطح پر کہیں بھی ان کے قریب بھی نہیں پھٹکا جس کی وجہ سعید آسی کی کیفیت، جذبے، سوچ اور نظریے کی زندگی سے براہ راست کشید اور ذاتی تجربے کی اوریجنیلٹی ہے اور شاید یہ ہی وجہ ہے کہ سعید آسی کہیں کہیں اپنے جداگانہ اسلوب کی چھب دکھاتا نظر آتا ہے۔

غزل دیکھئیے۔۔

زندگی روگ ہے
بس یہی روگ ہے

بات وہ کیا کریں
جو بنی روگ ہے

آدمی کے لئے
آدمی روگ ہے

غم کی بہتات میں
ہر خوشی روگ ہے

تیری چاہت میں یہ
مطلبی روگ ہے

عشق ہی کی طرح
دھرم بھی روگ ہے

اپنے دل کو لگا
اجنبی روگ ہے

اپنی تقدیر میں
روگ ہی روگ ہے

اور آسی بھلا
کیا کوئی روگ ہے

اتنی چھوٹی بحر میں ایسا وقیع و عمیق کلام پورے اردو ادب میں بہت کم ہی کہیں نظر آتا ہے۔ سعید آسی بابا فرید کی نگری پاکپتن کا رہنے والا ہے۔ اس کے ہاں جہاں بھی پنجابی صوفی شعراء کی پرچھائیں اس کے اردو شعری وجود سے مس ہوتی ہیں ایک نہایت لطیف اور منفرد شعری اسلوب پیدا ہوتا ہے جو خالصتاً سعید آسی کا اپنا اور منفرد رنگ ہے۔ " کلام سعید" کی اشاعت سے سعید آسی ایک نہایت خالص اور صاحب فکر و نظر شاعر کے طور پر اپنی حیثیت منوانے میں کامیاب ہوگیا ہے۔

عالمی سامراج دونمبر مقامی ادبی مافیا سے مل کر اجتماعی دکھوں کے موسموں میں فیسٹیولز منا منا کے ہماری اذیتوں پر جتنی دھمالیں ڈالتا رہے، صاحبِ احساس تخلیق کاروں کے قلم کو روند کر گزر نہیں سکتا۔ سعید آسی کی طرح ہر فقیر منش سچا قلم کار ہر جگہ اس کے مذموم ارادوں کو اپنی تخلیق کی ایڑیوں سے کچل کر اس کے جبر و استحصال کے خلاف آواز بھی بلند کرتا رہے گا اور انسانی مظلومیت پر نوحے بھی لکھتا رہے گا۔ پُرکشش سرورق اور جاذبِ نظر طباعت کے ساتھ یہ کتاب قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل روحِ رواں علامہ عبدالستار عاصم نے شائع کی ہے۔