اگرچہ ہمارا اردو زبان و ادب کا نصاب پچھلے پچاس سالوں سے کسی پرانے جوہڑ کے پانی کی طرح ایک ہی جگہ ٹھہر چکا ہے لیکن خوش قسمتی سے تمام تر نامساعد حالات کے باوجود جینوئن تخلیق کاروں نے اردو زبان و ادب کو ہر صنف میں اتنا ثروت مند بنایا ہے جس کی مثال دنیا کی کسی اور زبان کے ادب میں نظر نہیں آتی۔
اگرچہ جینوئن تخلیق کاروں کو جاہل، بدیانت مدرسین اور دونمبر شاعروں اور ادیبوں کی بہتات اور برسات ہر دو سطحوں پر چیلنجز کا سامنا ہے لیکن اس کے باوجود حقیقی لٹریچر مسلسل لکھا بھی جا رہا ہے اور پہلے لکھا گیا سامنے بھی آ رہا ہے۔ افلاطون سے لے کر ایمونئل کانٹ اور جارج برکلے تک سبھی یہی کہتے پائے گئے ہیں کہ کائنات ایک وہم کیسوا کچھ نہیں، اور مذاہب میں بدھ ازم سے لیکر تائوازم تک نے یہی کہا ہے کہ سب مایا ہے۔
ازمنہء قدیم سے یہ سوال اٹھایا جاتا رہا ہے کہ کیا واقعی دنیا ایک حقیقت ہے یا ہم محض کسی حقیقتِ مطلقہ کا خیال یا خواب ہیں۔ فلسفیوں نے اسے سوال کی شکل میں پیش کیا تو سائنسدانوں نے اس کا جواب دینے کی کوشش کی لیکن میر تقی میر نے سوال اور جواب دونوں کو اپنے احساس کی کِشت میں رکھ کے پیش کردیا۔
سب تواہم کا کارخانہ ہے
یاں وہی ہے جو اعتبار کیا
(میر)
ڈاکٹر ابرار عمر بھی احساس کی آنکھ سے جب کائنات اور اس میں جاری ساری انسانی سماجی تاریخی صورتحال دیکھتا ہے تو پکار اٹھتا ہے کہ روشنی فریب ہے۔ اس میں اہم بات یہ ہے کہ وہ براہ راست یہ نہیں کہہ رہا کہ زندگی فریب ہے یا کائنات دھوکہ ہے۔ وہ شاعر ہے اور جب ایک شاعر کسی مظہر پر سوال اٹھائے گا یا کسی سوال کا جواب دے گا یا تلاش کرنے کی کوشش کرے گا تو یقیناً وہ کسی فلسفی اور سائنسدان سے مختلف انداز اپنائے گا۔ اس کا طور اور طریقہ شاعرانہ ہوگا۔ یعنی اس کا سوال یا جواب اسکے کسی مطالعے یا فکری جستجو سے زیادہ اسکے احساس، جذبے اور کیفیت کے خمیر سے اٹھے گا۔
ڈاکٹر ابرار عمر کی نظم روشنی فریب ہے اسکی امید کے بار بار بندھنے اور بار بار ٹوٹنے کے عمل کے باعث کسی نتیجے پر پہنچ جانے کا اظہار ہے۔ وہ اپنے آپ کو ستاروں، سیاروں اور کہکشائوں کی معدوم ہوتی ہوئی روشنیوں اور دندناتے پھرتے اندھیروں کے سیاق و سباق میں دیکھنے پر مجبور پاتا ہے۔ بقاء پر فناء کی فوقیت اور ابدیت کا کرب اسے زندگی کی تمام تر خوشیوں کو خوش گمانیاں سمجھنے کا ثبوت فراہم کرتا ہے تو اسکے پاس فرار کا کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں رہتا۔
بادی النظر میں زندگی کی بے معنویت اور تمام دکھ ہے کے فلسفے اس کے غم کی انگلی تھام کر اپنا ہمنوا بنا لینے میں بظاہر تو کامیاب دکھائی دیتے ہیں لیکن نظم کی زیریں لہر میں گرتے پڑتے مگر مسلسل چلتے رہنے والے شکوے اور شکوے کے جواب کی متلاشی آنکھیں اسے اس سب مایوسی کے باوجود انتظار کی سنگھاسن پر فائز کیے رکھنے پر مصر دکھائی دیتی ہیں۔ نظم فکری بہائو، محسوساتی رچائو اور لسانی سبھائو کی شاندار مثال ہے۔
نظم کی ڈکشن اور اندرونی قوافی کا حسین استعمال اسے فنی سطح پر بھی ایک بڑی نظم بناتا ہے۔ نظم ابلاغ کی سطح پر اتنی طاقتور اور پراثر ہے کہ قاری کیلئے اس سے دل و دماغ بچا کر گزر جانا ممکن ہی نہیں رہتا۔ جدید ڈکشن کیفطری استعمال نے نظم کو بغیر کسی تردد یا شعوری کوشش کے آج کی جدید نظموں کی صف میں لاکھڑا کیا۔ پبلک ریلیشننگ سے نام بنانے کی کوشش کرنے والے کہانی گیر نظم خواں شعراء اور نرگسیت کے مریض مدرسین ایسی نظموں کی وجہ سے ڈاکٹر ابرار عمر سے خوف زدہ ہیں۔
نظم دیکھئے۔۔
" یہ روشنی فریب ہے "
فریب ہے
یہ روشنی فریب ہے
چراغ جل رہے ہیں جو
دھوئیں کی اک سبیل ہیں
یہ دشمنان زندگی ہیں
موت کے قبیل ہیں
ستاروں کے سبھی سراغ
موت ہی کا کھیل ہیں
کائناتی صحن میں
خوشی کے ہر سٹال پر بھی غم برائے سیل ہیں
فرار کا فرار سے کچھ اس طرح کا ربط ہے
کہ نارسائے ثبت ہے
دیار شوق کے سبھی محققوں کو خبط ہے تلاش کا
سفر کی دھڑکنوں میں پل رہی ہے موج پیاس کی
کہ یہ کہانی ہے کہانیوں کے مردہ ماس کی
اس آس کی
جو رائگانی کے مہیب پانیوں میں سو گء
جو گمشدہ سوال کی نشانیوں میں کھو گء
چلے چلو بصورت ہجوم یا کہ فرد فرد
گرد گرد ڈھوندتے رہو پرانی صورتیں
وہ مورتیں جو اپنے پورکھوں کو ڈھونڈھ ڈھونڈھ تھک گئیں، جو تھک گئیں تو سو گئیں
یہ سونا مرنا ایک ہے
فریب کے سفر پہ سب چلے چلو
کہ سونے مرنے کا مقام خاص سب کے پاس ہے
سبھی کی اپنی ہے شکنتلا
سبھی کا اپنا کالی داس ہے
فریب ہے یہ روشنی فریب ہے
" دھویں کی سبیل، موت کے قبیل، کائناتی صحن، خوشی کے سٹال، غم کی سیل، فرار کا فرار سے ربط، مردہ ماس، مہیب پانی، اپنی اپنی شکنتلا اور کالی داس "۔۔
ایک سے ایک ترکیب، ایک سے ایک استعارہ علامت اتنی نئی اور جداگانہ ہیں کہ نظم کی عظمت و انفرادیت کیلئے کہیں باہر سے دلیل لانے کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی۔
نظم کا کینوس ہی اتنا بڑا ہے کہ یوں لگتا ہے جیسے کائنات کے تمام تر فلسفوں کو انسانی آلام کی تاریخ کے کٹہرے میں لا کر کھڑا کردیا ہے۔ اردو کی بڑی نظم گردانی جانے والی ن م راشد کی نظم "حسن کوزہ گر" کو اس نظم کے حضورپیش کیے جانے کے تصور سے ہی ناقدین کی ٹانگیں کانپنا شروع ہوجائیں۔
یہ ہے وہ دھوکہ جو اردو زبان و ادب کے بظاہر بہت مہذب، بہت لائق اور بہت شفیق مدرسین اپنے طالب علموں کے ساتھ کرتے چلے آرہے ہیں اور یہی ہے وہ ظلم جو اردو زبان ادب پر یہ بتا کر ڈھایا جا رہا ہے کہ اب نہ تو بڑا ادب لکھا جا رہا ہے اور نہ کوئی بڑا ادیب باقی رہ گیا ہے۔ لیکن نظام فطرت کا ایک اپنا انداز ہے جس طرح آج ڈاکٹر ابرار عمر اور ان جیسے دوسرے جینوئن بڑے ادباء کا کام ان کی تمام تر علم و ادب دشمنی کو بینقاب کرکے چوراہے کے بیچ لا رہا ہے اس کی مثال بھی ادب کی کسی تاریخ میں کم کم ہی دکھائی دیتی ہے۔