ہم لوگ شاید اتنے پرانے نہیں جتنے پر زمانے کو لگ گئے ہیں، نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہ باتیں جو کچھ دن پہلے معمول تھیں، اب اجنبی لگتی ہیں مثلاً خط۔ اشفاق احمد کاشف کا تعلق فیصل آباد سے تھا اور میرا سرگودھا سے۔ یہ نظم اور نثر کا ملاپ تھا، کاشف کا میدان شاعری تھا، میری دلچسپی نثر میں تھی۔ ان ہی دنوں ایک شعر کان میں پڑا۔
خون بہا ہے پھر سڑکوں پر
کون ہیں جو دیوانے ہوئے ہیں
یہ شعر جانے کن ذریعوں سے سفر کرتا ہوا میرے کانوں کے راستے دل کے دروازے تک جا پہنچا اور پھر ہمیشہ کے لیے وہیں کا ہو کر رہ گیا۔ ہمارے دیس کی قسمت جانے کیسی ہے کہ نازک وقت کبھی جاتا ہی نہیں۔ وہ بھی ایک نازک وقت تھا، طلبہ تنظیموں میں کشیدگی ہوئی، کئی جوانان رعنا اپنی زندگی سے محروم ہو گئے، ان میں ایک عبد الشکور اعوان بھی تھا، زندہ دل، ہنسوڑ اور یاروں کا یار۔ یہ شعر اسی جواناں مرگ کے دکھ میں کہا گیااور زبان زد عام ہو گیا۔
اشفاق اور میری دوستی کی بنیاد بھی یہی شعر بنا۔ یہ دوستی شعر سے شروع ہوئی ضرور لیکن دوام اسے خط و کتابت نے بخشا، ہم لوگ باہم خط و کتابت کیا کرتے، گویا قلم کے ذریعے دل نکال کر قرطاس پر رکھ دیتے۔ اشفاق کا پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ ہوا تو وہ واصف علی واصف صاحب کے حلقہ ارادت میں داخل ہو گیا۔ اِس زمانے میں اس کے خطوط واصف صاحب کے اقوال سے بھرے ہوتے۔ ایک قول مجھے آج بھی یاد ہے:
"نفرت کبھی نہ کرو، حتیٰ کہ نفرت سے بھی نفرت نہ کرو"۔
مولانا وحیدالدین خان کا انتقال اہل ِدل، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے دلی صدمے کا باعث بنا جو برائی کے بجائے برے سے نفرت سے اٹا اٹ بھرے ہوئے ماحول میں سانس لینے میں دقت محسوس کرتے ہیں۔ مولانا مرحوم کے کردار کی دو خوبیاں ایسی ہیں جن کی وجہ سے انھیں مقبولیت عامہ ملی۔ پہلی خوبی یہ تھی کہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم، ہر دو تک دین کی دعوت پہنچانے کے لیے زمانہ حال کے مذہبی رویے یعنی مناظرے اور تکرار کے بجائے حکایات کا سہارا لیتے۔
ہماری روایت میں حکایت کی اہمیت غیر معمولی ہے۔ شیخ سعدی شیرازی اور مولانا روم کی حکایات میں اتنی طاقت اور تاثیر ہے کہ کم و بیش ہزار برس گزرنے کے باوجود ہماری زندگی میں آج بھی ان کی اہمیت ہے اور وعظ و نصیحت ان کے بغیر مکمل نہیں ہوتے۔ مولانا وحیدالدین خان بھی اسی مکتب کے طالب علم تھے لیکن ان کی انفرادیت یہ تھی کہ انھوں نے جانی بوجھی حکایات سے مدد لینے کے بجائے اس میدان میں تازگی پیدا کی۔
ان کی دوسری خوبی وہی ہے کہ ذکر مناظرانہ انداز سے نفور کی صورت میں کیا گیا۔ برصغیر ہی نہیں دنیا بھر کے مسلمان نفسیاتی طور پر ردعمل کی کیفیت کا شکار رہتے ہیں اور ان کا ہر عمل ردعمل میں ظہور پذیر ہوتا ہے، مثلاً بعض اہل مغرب نے ازراہ حقارت مسلمانوں کو بنیاد پرست قرار دیا تو ہمارے ہاں محض ضد میں اس مردود اصطلاح کو سر کا تاج بنا لیا گیا۔ مولانا وحیدالدین خان کی کوشش یہ تھی کہ مسلمان اس کیفیت سے نکل کر اپنی اصل راہ پر گامزن ہو جائیں جس کا تعلق علم اور نوع انسانی سے محبت میں ہے۔ ان کی اس حکمت عملی کے دوسرے پہلو کا تعلق اس قرینے سے ہے جسے ان کے خیال میں اختیار کر کے مسلمان ایک غیر مسلم اکثریتی ملک میں کامیابی سے پنپ سکیں۔
یہ وہی بحث جس کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو فکری طور پر تباہ کر دینا چاہتے تھے۔ مولانا وحیدالدین خان کی زندگی میں بھی اور ان کے بعد بھی یہ بات سامنے آئی کہ ان کا اثر و رسوخ مسلمانوں کے کام کبھی نہ آ سکا، یہ تاثر درست ہو سکتا ہے اور اس کے درست ہونے کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ اس کا پہلا سبب تو وہ ضد ہوسکتی ہے جس کا ان کے مزاج پر غلبہ دکھائی دیتا ہے، دوسری وجہ ان کا اندازفکر ہوسکتا ہے جس کے بارے میں اگر خوش گمانی سے کام لیا جائے تو اس کا مقصد یہ ہو ہے کہ وہ اپنی دانست میں ایک غلط طرز عمل کی حمایت کر کے کوئی غلط روایت قائم کرنے کا باعث نہ بن جائیں۔
مولاناوحیدالدین خان کی شخصیت سے اختلاف کی ایک وجہ وہ ہے جس کا تعلق مولانا مودودی پر تنقید سے ہے۔ مولانا وحیدالدین خان کو پڑھیں تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کا ذکر کرتے ہوئے عام طور پر شیریں رہنے والے ان کے لب و لہجے میں تلخی آ جاتی تھی۔ یہ ان کے مزاج کی ایک ایسی کمزوری تھی جو ان کی شخصیت کے کمزور اور زود رنج پہلو کو سامنے لاتی ہے۔
مولانا مودودی کے بارے میں ان کے اس رویے کی ابتدا شاید اس وقت ہوئی ہوگی جب تعبیر کی غلطی، نامی کتاب میں انھوں نے مولانا مودودی کی تعبیرات اسلام کو ہدف تنقید بنایا۔ علما کے درمیان اس قسم کے اختلافات تاریخ کا حصہ ہیں۔ اس طرح کے اختلافات کا مطلب یہ تو نہیں ہوتا کہ کسی شخص کو اس دنیا سے کوچ کر جانے کے بعد اچھے الفاظ سے یاد بھی نہ کیا جاسکے جو اسلامی تعلیمات کی بنیاد ہے۔
مولانا وحیدالدین خان مرحوم کے لیے انتہائی نازیبا گفتگو کی گئی، بجائے اس کے کہ ان کی فکر اور طرز عمل کے بارے دینی روایت پر عمل کرتے ہوئے بدگمانی کے بجائے خوش گمانی سے کام لیاجاتا اور ان کے انداز فکر کو بدنیتی پر مبنی قرار دینے کے بجائے ان کی ایمان دارانہ رائے قرار دیا جاتا، ان کے بارے میں ناروا رویہ اختیار کیا گیا۔ ان کی وفات پر ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی، اس تصویر میں مولانا مرحوم اور ایک بدھ راہب کے سر سے سر جوڑے دکھائی دیتے ہیں۔
ایک مہربان دوست نے جو دینی فکر علم بردار ہیں، تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ مولانا دراصل ان ہی کے تھے جن کے ساتھ سر جوڑے دکھائی دیتے ہیں یعنی ان کے دل و دماغ صرف غیر مسلموں کے لیے دھڑکتے تھے۔
یہی وہ انداز فکر ہے جو ان سطور کے لکھنے والے کے لیے روحانی صدمے کا باعث بنا۔ اس تبصرے پر کسی تبصرے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ یہ بجائے خود آشکار ہے کہ صاحب تبصرہ کے ذہن میں نفرت باطل یا گمراہی کے لیے نہیں، نفرت اس کے لیے ہے جو ان کے نزدیک گمراہ ہے۔ یہ ایک طرح سے انسانوں سے نفرت کا رویہ ہے جس کی اجازت کوئی تہذیب دیتی ہے اور نہ خود اسلام۔ بالکل سامنے کی بات ہے کہ آپ جس سے نفرت کرتے ہیں، اسے سیدھی راہ پر لانے کی دعوت کس طرح دے سکتے ہیں؟
مولانا وحیدالدین خان کی وفات کا واقعہ بھی ہمارے لیے تذکیر کا درجہ رکھتا ہے کہ اے مبلغین و شارحین اسلام! یہ نفرت ہی ہے جو دعوت کا راستہ روکتی ہے اور دلوں میں کدورتیں پیدا کرکے لوگوں کو ایک دوسرے سے دور کردیتی ہے، مسلم معاشرے، خاص طور پر پاکستان اسی مسئلے سے دوچار ہے اور اسی تنگ نظری کے باعث ہر آنے والا دن بد سے بد تر ہوتا چلا جاتا ہے، اللہ ہم سب کے حال پر رحم فرمائے۔