تحریک آزادی کشمیر کے ضمن میں نوے کی دہائی بنیاد کا درجہ رکھتی ہے۔ اس زمانے میں پاکستان میں عوامی سطح پر بھی بیداری پیدا ہوئی اور ذرائع ابلاغ سے وابستہ لوگوں میں۔ یہ جو تحریک آزادی کشمیر کے پس منظر میں نامور صحافی اور اینکر ناصر بیگ چغتائی کا ناول سلگتے چنار، ہے، اس کی بنیاد بھی ان ہی دنوں میں پڑی۔
صحافیوں کے کئی گروپ اُن دنوں ملک کے مختلف حصوں سے اکٹھے ہوئے اور انھوں نے لائن آف کنٹرول کے دورے کر کے بھارتی جارحیت کے مناظر اپنے آنکھوں سے دیکھے۔ بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر کے مختلف علاقوں سے جن سیکڑوں کشمیری خاندانوں کو لوٹ مار کر کے اور تشدد کا نشانہ بنا کر آزاد کشمیر کے علاقوں میں دھکیل دیا، ان سے ملاقاتیں کیں۔
یہ ملاقاتیں ایسی تھیں جن کی تفصیلات سننے والوں کے دلوں پر دستک دیتیں اور لوگ آنسو بہائے بغیر رہ نہ پاتے۔ اہل صحافت کی ذمے داریاں ایسی ہوتی اور ان کے علم میں انسانی المیوں کی ایسی کہانیاں ہوتی ہیں کہ وہ بڑے بڑے المیوں سے دل کڑا کر کے گزر جاتے ہیں لیکن آزاد کشمیر کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے ان مہاجرین کی حالت زار، بیمار عورتوں بچوں اور بوڑھوں کے علاوہ معذور کر دیے گئے نوجوانوں کی کیفیت کو کھلی آنکھوں سے دیکھنا بڑے ہی دل گردے کا کام تھا۔
اس پر مستزاد نوجوان خواتین اور بچیوں کی آبرو ریزی کے واقعات، یہ تفصیلات ایسی تھیں جنھیں لکھنے کے لیے شیر کاجگر چاہیے۔ یہی دورے تھے جن کے دوران میں قطرہ قطرہ کر کے جمع ہونے والی معلومات ہمارے ناصر بیگ چغتائی جیسے صاحب دل کو متاثر کرتی رہیں، ان کی یہ اسی رقت قلبی کا نتیجہ تھا کہ تحریک آزادی کے موضوع پر پہلا ادبی شاہ کار وجود میں آیا۔ یہ ان ہی دنوں کی بات ہے جب پاکستانی اہل صحافت کے تحریک آزادی کے بزرگ قائد سید علی گیلانی سے براہ راست رابطے استوار ہوئے۔
ہمارے ہاں ایک روایت ہے کہ کسی کی قربانیوں اور خدمات کے درست اندازے یا اسے سمجھنے کے لیے ان کا موازنہ کسی دوسرے شخصیت سے کر دیا جاتا ہے۔ ان دنوں یہ زبان زد عام تھا کہ سید علی گیلانی مقبوضہ کشمیر کے نیلسن منڈیلا ہیں۔ صحافیوں کے اس گروپ جس میں برادر محترم ناصر بیگ چغتائی، جناب عطا الرحمٰن، برادر ارشاد محمود، جناب صغیر قمر اور بہت سے دوسرے احباب شامل تھے، سید علی گیلانی صاحب سے ٹیلی فونک ملاقات کا اہتمام کرایا گیا تھا، اس موقع پر کسی صاحبِ نے گیلانی صاحب کا تعارف کراتے ہوئے جوش خطابت میں انھیں نیلسن منڈیلا قرار دیا تو موقع ملنے پر میں نے عرض کیا کہ نیلسن منڈیلا جنوبی افریقہ کی تحریک آزادی کے ایک اوالعزم قائد ہیں جن کی خدمات قربانیوں سے اور قربانیاں خدمت سے بڑھ کر ہیں۔
جدید تحاریک آزادی میں قیادت کا جو معیار نیلسن منڈیلا نے قائم کر دیا، تاریخ میں وہ منفرد رہے گا۔ تحریک آزادی کشمیر اگرچہ ایک پرانی تحریک ہے جس کی جڑیں صدیوں میں پیوست ہیں لیکن اس عہد میں زور پکڑنے والی اس تحریک کے حالات، آزادی کے پروانوں کو درپیش آزمائشیں اور قیادت کی طرف ذرا سا بھی ہچکچائے بغیر پیش کی جانے والی قربانیوں کی داستان بھی ایسی منفرد ہے جس کی کوئی مثال ماضی میں ملتی ہے اور نہ اس زمانے کی کوئی اور تحریک اس تحریک کے مثل ہے۔
جہاں تک معاملہ سید علی گیلانی صاحب کا ہے، جرات مندی، قربانی اور آزمائشوں کا سامنا کرنے کے ضمن میں وہ بذات خود ایک معیار ہیں، اس لیے ان کے مقام و مرتبے کے تعین کے لیے کسی دوسری مثال کی ضرورت نہیں۔ یہ کسی کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کا درست طریقہ بھی نہیں، یہ اس کے ساتھ بھی زیادتی ہے جس کا یہ ذکر ہے اور اس کے ساتھ بھی زیادتی ہے جس کی مثال دی جا رہی ہے لہذا یہ تسلیم کر کے کہ سید علی گیلانی جرات و بہادری اور عزیمت و قربانی کا خود ایک معیار ہیں، بات کی جائے۔
یہ گزارشات جب میں نے پیش کیں تو اس سے پہلے کہ سید علی گیلانی بات شروع کرتے، سید صاحب اور حاضرین سے معذرت کر کے مقبوضہ کشمیر سے (ٹیلی فونک رابطے پر ہی)ایک صاحب نے مداخلت کی اور کہا کہ میں اس انداز فکر کی تائید کرتا ہوں۔ گیلانی صاحب کی گفتگو شروع ہوئی تو اس سے پہلے کی جانے والی تمام باتیں پس منظر میں چلی گئیں اور آئی گئی ہو گئیں لیکن اس کے باوجود ذہن میں یہ اڑچن رہی کہ چلتی ہوئی رسموں پر آنکھ بند کر کے چلنے اور گھسی پٹی باتوں کو دہرائے چلے جانے کے عادی زمانے میں منفرد سوچ رکھنے والا یہ شخص کون ہے تو شاید برادرم ارشاد محمود نے بتایا کہ یہ اشرف صحرائی تھے۔
وہ زمانہ سید علی گیلانی کا تھا، یہ زمانہ بھی علی گیلانی کا ہے لیکن یہ بھی شاید انسانی کمزوری ہی ہے کہ اگر علی گیلانی جیسے ہمالیہ پہاڑ درمیان میں موجود ہوں تو اشرف صحرائی جیسی محبت کی ٹھنڈی میٹھی ندیوں اور حکمت و دانائی آبشاروں کی طرف توجہ جاتی ہی نہیں۔ ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ سید علی گیلانی اگر مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی میں قربانیوں اور استقامت کا ہمالیہ پہاڑ ہیں تو اشرف صحرائی گہرے پانیوں والا ایک ایسا سمندر تھے جس کے دامن میں صحراؤں جیسی وسعت اور دل میں سمندروں جیسی گہرائی ہوتی ہے۔
آزادی کی تحریکوں کی قیادتوں کے ضمن میں دیکھا گیا ہے کہ ان کے قائدین اپنے بچوں کو محفوظ و مامون رکھنے کے لیے ہر کوشش کر گزرتے ہیں لیکن مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی پنجرے میں لڑی جانے والی ایسی جنگ ہے جس میں ایسی کوئی گنجائش نہیں پائی جاتی۔ ایسے مشکل ماحول میں بھی آزمائش میں کمی کی کوئی نہ کوئی راہ ضرور ہوتی ہے لیکن اشرف صحرائی ایک ایسے صاحب کردار قائد تھے جنھوں نے آزادی کی اس منفرد جنگ میں اپنے چھوٹے لخت جگر جنید تک کو قربان کیا اور اف تک نہ کی۔ ایسے لوگ ہی انسانیت کی آبرو اور قوموں کے ماتھے کا جھومر ہوتے ہیں، ہمارے عہد میں انسانیت کے ماتھے کا یہ جھومر اس ادا کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوا ہے کہ دنیا اسے تادیر یاد رکھے اور اس کی عظمت کی مثالیں پیش کیا کرے گی۔
پس نوشت:
یہ کالم نگار، اس کی اہلیہ اور دو بیٹیاں دیگر ہزاروں اہل وطن کی طرح گزشتہ ایک ہفتے سے کورونا کی آزمائش میں مبتلا ہیں۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ جب آخری عشرے کی مبارک ساعتوں میں اس دنیا کو وبا کی آفت سے پاک کرنے کے لیے اللہ کے حضور گڑگڑائیں اور ان پاکیزہ لمحات میں دنیا بھر میں اس آزمائش سے سسکتی ہوئی انسانیت اور اپنے پاکستانی بھائی بہنوں کے ساتھ اس خادم اور اس کے اہل خانہ کو بھی یاد رکھیں کہ اللہ ہم سب کو صحت کاملہ عطا فرمائے۔ میری درخواست ہے کہ اس موقع پر ان لوگوں کو بھی اپنی دعاؤں میں بطور خاص یاد رکھا جائے جو انتہائی خلوص کے ساتھ وبا کے متاثرین کی خدمت میں مصروف ہیں۔