اقبال سے مجھے اس چھتنار درخت کی یاد آتی ہے جس کے سائے میں بیٹھ کر میں نے سلطنت افکار و خیال اِس بادشاہ کو پہچانا۔ اُس اقبالؒ سے تو میں واقف تھا جو کشمیری شال اوڑھے، مٹھی پر سر ٹکائے غور و فکر میں مصروف نظر آتے ہیں لیکن وہ اقبال جو میرے بوڑھے والد کے رگ وپے میں مشک بو تھا، اس سے میں نا واقف تھا۔
انھوں نے اقبال سے ہمارا تعلق ایک مذہبی عقیدے کی طرح کرایا جس میں یہ پوری کی پوری دنیا ہمارا وطن بھی تھی اور اس میں رہنے والے تلوار بکف لوگوں کا مزاج کچھ ایسا تھا کہ دنیا بنانے والے سے کوئی سرک ہو جائے اور بگڑا لازم تھا اور خنجر بھالا تو رہا ایک طرف، ہم توپ سے لڑ جانے کو تیار تھے کیوں کہ تیغوں کے سائے میں پل کر جوان ہوئے تھے اور خنجر ہو یا ہلال، ہر دو ہمارا قومی نشان تھے۔
بس ایسے ہی اشعار اور ایسی ہی باتیں تھیں جنھیں پڑھ اور سن کر ہوش کا دامن پکڑا۔ تھوڑا وقت اور گزرا تو جانا کہ ان ہی افکار کی روشنی میں تو ہمارا بیانیہ بھی ترتیب پایا ہے۔ قوم کا بیانیہ مصورِ قوم کی فکر سے مستعار لیا جائے تو یہ عین سعادت ہے مگر اس میں دو چار نازک مقام بھی آتے ہیں۔ وہ تو بھلا ہو پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقار کا، انھوں نے مجھے شاعر کبیر حضرت محمد عاکف ایر صوئے سے متعارف کرا دیا، اس کے بعد اقبالؒ کے بارے میں میرا تصور ہی بدل گیا۔
اقبال ؒکے بارے میں میرا تاثر وہی تھا جو ہم سب کا ہے کہ جیسے اقبالؒ امت ِ مرحوم کا غم کھاتے، مسلم دنیا کے مسائل سے پریشان ہوتے ہیں۔ ترک شاعر بھی اس سے مختلف نہیں۔ ان دونوں بزرگوں کے افکار میں مماثلت اتنی گہری ہے کہ بدگمانی کے عارضے میں مبتلا تھڑدلے اِن پر سرقے کا الزام تو فوراً ہی عائد کر دیتے۔" زبانِ یار من" کے مسائل نہ ہوتے تو بہت سے مہربان اب تک کئی انکشافات بھی کر چکے ہوتے۔ خیر یہ موضوع دوسرا ہے، اس وقت مجھے حضرت ایرصوئے کے مردِ مومن یعنی عاصم کے بارے میں کچھ کہنا ہے۔
رشحات ِ ایرصوئے سے گزرتے ہوئے جب میں اُس نصیحت تک پہنچا جس کا مخاطب عاصم ہے تو میرے ذہن میں اپنے دیس کے مختلف گوشوں حتیٰ کہ افغانستان سمیت عالم اسلام کے حالات کی وہ تصویر ابھر آئی جس میں کچھ مردانِ خدا خواتین کے پارلر تباہ کرتے، مخرب اخلاق سی ڈیز پائوں تلے کچلتے اور کفار کو زبر دستی مومن بناتے یا تہہ تیغ کرتے نظر آتے ہیں۔ ان ہی مجاہدوں کی طرح جناب عاصم بھی بنت انگور سے لطف اندوز ہو کر غل غپاڑہ مچانے والوں کی پٹائی کر ڈالتے ہیں تو ایرصوئے فوراً اس کی سرزنش فرماتے ہیں کہ بیٹا یہ کام کسی اور یعنی پولیس اور عدلیہ کے کرنے کا ہے۔ کلام عاکف کے اس حصے کو میرے دوست جنید آزر نے اس طرح موزوں کیا ہے۔
عاصم!
مری سن،
میری طرف دیکھ، مری مان
اس راہِ جنوں خیز سے بہتر ہے پلٹ آ
یہ کاوش بے سود ہے
اس کاوشِ بے سود سے حاصل نہیں کچھ بھی
یہ بند گلی ہے
دیوار سے ٹکرا کے نہ کر اپنی جبیں خوں!
اس وحشتِ خود سر سے یہ بہتر ہے کہ باز آ!
یہ اشعار پڑھتے ہوئے میرے ذہن میں کچھ اخباری بیانات کی یاد تازہ ہوگئی جن میں اکثر بتایا جاتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں جانوں کی قربانی دی گئی۔ یہ جان کر کہ میرے دل میں بسنے والے اقبالؒ کا ہم مشرب و ہم عصر قانون کو ہاتھ میں لینے کو کتنا مہلک خیال کرتا ہے؟ میں کسی قدر احساس کمتری میں مبتلا ہو گیا۔ اس صدمے نے مجھے نسبتاً آزادی کے ساتھ اقبالؒ کی ورق گردانی کی راہ دکھائی۔ اس طرح اقبالؒ کو میں نے ایک نئے زاویے سے دیکھا۔
ہمارا یہ دور اندیش بزرگ جب اپنے ایک پیشرو یعنی سرسید جیسے بزرگ کی لوح تربت سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوتا ہے تو اُسے آنے والے زمانے، اپنے خوابوں سے ابھرنے والے دیس میں حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ اور آئین سے کھلواڑ صاف نظر آتا ہے، فرماتے ہیں
دہر میں عیش و آرام، آئیں کی پابندی میں ہے
موج کو آزادیاں سامانِ شیون ہوگئیں
ایسا لگتا ہے کہ انھیں اپنی سرزمین پر فرقہ بندی کے جھگڑے، حتیٰ کہ اس بنیاد پر دیے جانے والے دھرنے بھی صاف نظر آتے تھے، اسی لیے فرمایا
وا نہ کرنا فرقہ بندی کے لیے اپنی زباں
چھپ کے ہے بیٹھا ہوا ہنگامہ محشر یہاں
وصل کے اسباب پیدا ہوں تری تحریر سے
دیکھ!کوئی دل نہ دکھ جائے تیری تقریر سے
اگر مجھے فلسفے میں کچھ درک ہوتی تو بالِ جبریل اور ضربِ کلیم سے بھی ضرور استفادہ کرتا۔ تیل بیچ کر فارسی جاننے کی مشقت اٹھائی ہوتی تو کھنگال کر بتا دیتا کہ انھوں نے اس زبان میں بھی بہت کچھ کہہ رکھا ہے، جیسے
حرفِ بد را برلبِ آوردن خطا است
کافرو مومن ہمہ خلقِ خدا است
اس مشق کے بعد جب میں سوچتا ہوں تو میری سمجھ میں آسانی سے آجاتا ہے کہ ہم اُس اقبالؒ کو دریافت کرنے میں کیوں ناکام رہے جس کے جلال میں بھی جمال کی کرنیں قلب وروح کو سرور بخشتی ہیں۔ اس کا ایک سبب تو شاید یہی رہا ہو گا کہ غیرملکی استعمار سے نبرد آزما قوم کو اقبالؒ کی صورت میں ایک ایسی آواز مل گئی جو اُن کے دکھوں کی ترجمانی اور دشمنوں کے خلاف اعلانِ جنگ کر کے اُن کے دلوں میں جذبۂ عمل بیدار کر رہی تھی۔ اس مرحلے کی تکمیل یعنی قیامِ پاکستان کے بعد وہ اقبالؒ دریافت ہو جانا چاہیے تھا جو محمد عاکف ایرصوئے کی طرح عاصم کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیتا۔
عہدِ غلامی میں اگر قوموں کی نفسیات میں بغاوت کے جذبات ابلتے ہیں اور سب کچھ فنا کر دینے کی خواہش جنم لیتی ہے تو یہ فطری بات ہے لیکن آزادی کے بعد تو زمین و آسمان اور اس کے درمیان سب کچھ اپنا ہو جاتا ہے، اس لیے جوشِ عمل کوبغاوت سے اپنے وطن کی حفاظت اور تعمیرکے جذبے میں منقلب ہو جانا چاہیے۔ ایسا لگتا ہے کہ جنگِ آزادی لڑنے والی نسل ماقبلِ آزادی والی ذہنی کیفیت سے نکل نہ پائی۔
ممکن ہے اس کا سبب مہم جوئی کے وہ واقعات رہے ہوں جن کے لیے فیض صاحب کو تخت اچھالنے اور تاج گرانے جیسی باتیں کرنی پڑیں۔ طرفہ یہ کہ ہمارے خطے میں اوّلاً سوویت یونین اور اس کے پیچھے امریکا بہادر نے قدم رنجا فرما کر جنگ و جدل کے میدان گرم کر دیے۔ ایسے ماحول میں کیسے ممکن تھا کہ لوگوں کو وہ اقبالؒ بھول جاتا جو پلٹ جھپٹ کر لہو گرم رکھنے کی تلقین کیا کرتا تھا۔
کوئی شبہ نہیں کہ زمانہ قیامت کی چال چل چکا مگر دیس تو آخر اپنا ہے، اس کے ساتھ جنگ و جدل کیسی؟ آئیے! اُس اقبال ؒ کو تلاش کریں جو حلقہ یاراں میں بریشم کی طرح نرمی کا درس دیتا ہے۔