"یہ وفاقی نظام ہے میرے پیارے، وفاقی نظام" یہ جملہ جس وقت کہا گہا، رات کے تین، چار بج رہے تھے اور ہم لوگ ایک ہوٹل کی لابی میں اپنی اپنی باری کے منتظرتھے اور خوش تھے۔
سبب اس خوشی کا یہ تھا کہ وہ سفر جو صبح کے اوقات میں شروع ہواتھا، اپنے اختتام کو پہنچا تو تاریخ بدل چکی تھی۔ گھڑی پر نگاہ گئی تو منیر نیازی یاد آگئے نیز ان کا شہرۂ آفاق مصرع کہ صبح کاذب کی ہوا میں درد تھاکتنا منیر، تو یہ صبح کاذب کا وقت تھا اور مسافر درد سے بے نیازہی نہیں بلکہ خوش تھے کہ تاریخ بدل چکی ہے، اس لیے ایک دن کے کرائے سے تو جان چھوٹی لیکن یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی اور ہم لوگوں کے لٹکے ہوئے چہرے دیکھ کر ای ایل او (انگلش لینگویج آفیسر جو یو ایس آئی ایس کے پروگراموں میں مہمانوں کی رہنمائی کے لیے ان کے ساتھ کیا جاتا ہے)نے مسکراتے ہوئے کہا: "It is federalism my dear، it is federalism"۔ اس جملے سے اس کی مراد کیا تھی، اس کی سمجھ نہ اس وقت آئی تھی اور نہ آج آئی ہے لیکن یہ خوب سمجھ میں آگیا کہ کرایہ ہمیں اُس رات کا بھی دینا ہے جو یہاں بسر نہیں کی۔
یہ سفر، اُس سفر کی یہ رات اور اس دوران میں ادا ہونے والا یہ جملہ، ایک زمانہ بیتا، یادداشت سے محو ہو کر پسِ یادداشت میں کہیں محو استراحت تھاکہ بیدار ہو کر یکایک سامنے آکھڑا ہوا۔ نہیں معلوم، ہمارے بچے مولوی اسمٰعیل میرٹھی کے نام سے بھی آگاہ ہیں کہ نہیں لیکن ہمارا بچپن تو لگتا ہے کہ ان ہی کی گود میں گزرا ہے۔ خدا کا شکر ادا کر بھائی جس نے ہماری گائے بنائی۔ یہ نظم ایک زمانے میں بچوں کا قومی ترانہ ہوا کرتی تھی۔
اس نظم کی یاد آتی ہے تو بچپن کے سہانے دن اب بھی یادآتے ہیں لیکن اِس وقت ان کا ایک اور شعرجادو کی طرح سر چڑھ کر بول رہا ہے کہ مئی کا آن پہنچا ہے مہینہ، بہا چوٹی سے ایڑی تک پسینہ۔ مئی کے مہینے کی گرم بازاری یکایک شروع نہیں ہو جاتی بلکہ اپریل میں ہی اپنی آمد کا اعلان کر دیتی ہے۔ تو بات یہ ہے کہ اپریل کا بھی اب چل چلاؤ ہے، لہٰذا مئی کے "مزے "آنے شروع ہو گئے تو شکایت کیسی؟
لیکن ایک شکایت ایسی ہے جس کا کوئی مداوا نہیں، اس کا تعلق اس قفل بندی سے ہے جو حکومت نے کر رکھی ہے یا ہمارے جیسے ڈرپوک لوگوں نے از خود طاری کر رکھی ہے۔ اس نظر بندی کا ایک نقصان یہ ہوا ہے کہ سر پر اگنے والی فصل اب کانوں سے ہوتی ہوئی نیچے تک جا پہنچی ہے اور دوپہر کے اوقات میں ٹیلی ویژن دیکھتے، لیٹ کر کتاب پڑھتے یا لیپ ٹاپ میں سر دے کر لکھتے ہوئے پسینہ چوٹی سے سفر کرتے ہوئے کان کی لوؤں تک پہنچتا ہے تو مولوی اسمٰعیل میرٹھی کی پریشانی بغیر بتائے سمجھ میں آجاتی ہے لیکن لگتا ہے کہ یہ پریشانی اب زیادہ دن کی نہیں۔
اس کے کئی اسباب ہیں۔ ایک تو یہ کہ اب حکومت ہی اس قفل بندی کی زیادہ حامی نہیں رہی، دوسرے وہ لوگ بھی جنھیں غالب اہل حرفہ(ہنرمند وغیرہ) کا نام دیتے ہیں، اس پابندی کو توڑنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟ ایک تو یہی ہوگا کہ وہ لوگ جو ہاتھ پاؤں توڑے گھروں میں مجبور بنے بیٹھے ہیں، مجبور نہیں رہیں گے اور ان کے گھر کا ٹھنڈا چولہا پھر سے گرم ہو جائے گا۔ اس گرما گرمی میں اگر ہم جیسے لوگوں نے ہمت کی تو ان کی زلفیں بھی سنور جائیں گی لیکن کیا خبر اس بناؤ کے ساتھ بگاڑ کی ایک صورت بھی گھر میں چلی آئے۔ ڈاکٹر عبدالباری اسی دن سے خوف زدہ ہیں اور کچھ ایسی باتیں کرتے ہیں کہ میر انیس یاد آجاتے ہیں ع
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے
گویا ہم اسمارٹ لاک ڈاؤن کریں یا کچھ اور، یہ آبیل مجھے مار والی بات ہے، اس کے بعد آپ نہیں ہوں گے، بیل ہوگا۔ یہ صرف پاکستان میں نہیں ہونے جا رہا۔ دنیا بھر میں ہونے جا رہا ہے۔ منہ میں آئی بات دھڑ سے کہہ دینے والے ڈونلڈ ٹرمپ کا ذہن یہ ہے کہ جتنا لاک ڈاؤن ہونا تھا، ہوگیا، اب اس سے زیادہ کاروبار بند نہیں رکھا جاسکتاجس کی زندگی ہوگی، جیتا رہے گا جس کے دن پورے ہوچکے، اسے جانے سے اب تک کون روک پایا جو اِس لاک ڈاؤن نے روک لینا ہے۔
ٹرمپ صاحب کی اقتدا میں دنیا کی ساری بڑی بڑی معیشتیں، یہاں تک کہ بھارت اور ہمارے جیسے ملک بھی اسی نتیجے پر پہنچ رہے ہیں۔ نرم لاک ڈاؤن، اسمارٹ لاک ڈاؤن یا اس تالے بندی کی اگر کوئی اور اصطلاح بھی متعارف ہونی ہے، اس سب کا تعلق اسی فکر سے ہے اور یہ فکر پھوٹی ہے، اُس سرمایہ دارانہ ذہن سے جس کے نزدیک سرمایہ انسان کے لیے نہیں، انسان سرمایے کے لیے بنا ہے۔
وبا کی تباہ کاری میں سرمائے اور سرمایہ دار کا یہی اتاولا پن تھا جس نے برسوں پرانے ایک فقرے کی گرہ کھول دی۔ ای ایل او جارج ایک بھلا آدمی تھا، کسی زمانے میں آسٹن کی سینیٹ کا رکن اور اس کی کسی قائمہ کمیٹی کا چیئرمین رہا تھا، چوں کہ سیاسی آدمی تھا، اس لیے وہ فیڈرل ازم کہہ بیٹھا، حالاں کہ اسے کہنا تو یہ چاہیے تھا کہ Its captalism my dear!۔
ڈاکٹر باری ہوں یا ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی، یہ بزرگ جو چاہے کہتے رہیں لیکن ہوگا تو وہی جو سرمایے کا بزرگ کہے گا، چلیے سرمائے ہی کی مان لیجیے لیکن اس آپا دھاپی میں اپنے خون کو تو نہ بھولیے جو بیرون ملک کس مپرسی کی حالت میں ہے۔
ڈاکٹر ابوبکر نے سرگودھا سے بتایا ہے کہ کرغستان کے دارالحکومت بشکیک میں اس وقت بھی ہزاروں پاکستانی طلبہ اور طالبات موجود ہیں جنھوں نے طب اور دیگر شعبوں میں تعلیم کے لیے انٹرنیشنل یونیورسٹی آف کرغستان میں داخلہ لیا تھا۔ وبا کے موسم میں یہ بچے اپنے ہاسٹلوں اور فلیٹوں میں قید پڑے ہیں، ان کے پاس اب کھانے پینے اور رہنے سہنے کے لیے کچھ نہیں بچا۔ گھروں سے نکلنا ویسے ہی ممکن نہیں لیکن اگر کسی افتاد میں باہر قدم نکالیں تو وہاں کی پولیس انھیں گھیرلیتی ہے اور مسائل کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔
اُدھردیار غیر میں یہ بچے آزمائش میں مبتلا ہیں اور یہاں اپنے گھروں میں ان کے والدین بچوں کے فراق میں دکھی ہیں۔ حکومت نے دنیا بھر میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو واپس لانے کے لیے بہت کچھ کیا ہے لیکن بشکیک والوں کی یاد کسی کو نہیں آئی۔ اللہ بھلاکرے، صدر عارف علوی نے ایک بار ان بچوں کا ذکر کیا تھا پھر لگتا ہے کہ معاملہ رفت گزشت ہوگیا۔ کیا یہ بچے رمضان کی مبارک ساعتیں اپنے گھر کی محفوظ چار دیواری میں گزار سکیں گے یا ان کی آزمائش ابھی طویل ہے؟