یار، تم دیو بندیوں میں بریلوی ہو،۔ قاری حامد محمود قادری سے میں اکثر کہا کرتا ہوں۔ کبھی کبھی لگتا ہے کہ فطرت نے انھیں بنایا ہی قرآت کے لیے ہو گا۔ وہ جب کلام ربانی کے ملکوتی ترانے کی تان اٹھاتے ہیں تو سننے والا اگر ذوق سلیم رکھتا ہو تو ممکن نہیں کہ رونگٹے نہ کھڑے ہو جائیں۔ انسان بارگاہ ربانی میں سجدہ ریز ہو اور ثنائے محمدﷺ بجا نہ لائے، یہ کہاں ممکن ہے؟ یہی احساس رہا ہو گا کہ ہمارا یہ بھائی تلاوت سے نعت خوانی کی طرف بھی آیا۔ ان کی پڑھی ہوئی نعت کا ایک شعر ہے ؎
یہ دنیا اک سمندرہے مگر ساحل مدینہ ہے
ہر اک موج بلا کی راہ میں حائل مدینہ ہے
اُس وقت اسی نعت کے الفاظ کان میں پڑ رہے تھے کہ فون کی گھنٹی بجی اور سوال ہواآپ کب تک پہنچ سکتے ہیں؟ عرض کیا کہ جب آپ کے ہاں فرصت ہو۔ مختصر سی گفتگو کے بعد وقت طے پا گیا اور ہم عازم سفر ہو گئے۔ کوئی ڈھائی تین مہینے ہوئے ہیں، مجھ سے پوچھا گیا تھا کہ کیا آپ مولانا طارق جمیل کا انٹرویو کر سکتے ہیں؟ نیکی اور پوچھ پوچھ، اپنے عہد کے سحر انگیز خطیب سے کون انٹرویو نہ کرنا چاہے گا؟ میں نے یہ عرض کیا اور رابطے کی کوشش شروع کر دی۔ یہ فون نتیجہ تھا اسی تگ و دو کا۔ دوسری طرف مولانا احتشام اللہ تھے۔ مولاناطارق جمیل فاؤنڈیشن کے چیف ایگزیکٹو آفیسر۔
مسلمانوں اور خاص طور پر ہمارے اس خطے کے لیے گزشتہ تین دہائیاں کسی آزمائش سے کم نہ تھیں۔ یہ آزمائش اب بھی برقرار ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس عہد میں ہونے والی کشمکش کے نتائج بھی سامنے آنے شروع ہو گئے ہیں۔ عہد وسطیٰ یعنی مغل عہد اور اس کے فوری بعد کے زمانے کی عبقری دینی شخصیات کو توچھوڑدیجئے، بعد کے گئے گزرے زمانے میں بھی دینی شخصیات کو ان کے مزاج میں پائی جانے والی وسعت، برداشت، لحاظ اورمروت سے پہچانا جاتا تھا۔
اعتدال کی ان مثالوں کو دیکھنا ہو تو گزشتہ صدی کے آخری عشروں میں اس کی بہت سی مثالیں آسانی سے مل جاتی ہیں لیکن سرد جنگ اور اس کے خاتمے کے بعد اس خطے میں جو کشمکش شروع ہوئی، اس میں بہت کچھ تباہ ہو گیا، خاص طور پر دلوں میں جگہ بنا لینے والی یہ قدریں۔ بے لحاظی اور بے مروتی جیسے جیسے فروغ پاتی گئی، ہمارا معاشرہ اعتدال سے دور ہوتاچلا گیا۔ نہ صرف دینی طبقات بلکہ ہماری سیاست میں بھی اس کے اثرات بڑھنے لگے، نتیجہ یہ نکلا کہ معاشرہ افراط و تفریط کا شکار ہو گیا اور اب کچھ بھی اعتدال پر دکھائی نہیں دیتا۔
اس آپا دھاپی میں جس کسی نے بھی اعتدال کا نام لیا، وہ دشمن، دشمن کا ایجنٹ، منافق، زمانہ ساز یا بے حمیت قرار پا کر راندہ درگاہ ہو گیا۔ پاکستانی معاشرے میں بہت سی دینی قوتیں ایسی بھی موجود رہی ہیں جنھوں نے مشرق و مغرب کی انتہاؤں میں اعتدال کی راہ تلاش کر کے سماج کو انتہاپسندی کی پستیوں میں گرنے سے روکنے کی کوشش کی لیکن یہ گزشتہ تین دہائیوں کی مارا ماری کا فیض، ہے کہ اب یہ معتدل قوتیں بھی جذبات کی رو میں بہہ کر اسی حمام جا پہنچی ہیں جہاں ان کے پیشرو براجتے تھے، انتہا پسندی اور تنگ نظری کی جوئے کم آب میں۔ ہمارے سماج کا یہی سب سے بڑا عارضہ تھا اور یہ عارضہ ایسا مہلک ہے کہ اوّل تو اس میں مبتلا لوگوں کو اس کااحساس ہی نہیں ہوتا اور جس مرض کااحساس ہی نہ ہو، اس کے علاج کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دوم، جن لوگوں نے کسی نہ کسی درجے احساس کیا، وہ اس جرم میں دھر لیے گئے، لہٰذا مایوس ہو کر وہ لاتعلق ہو گئے یا پھر وہ اسی کیفیت کا شکار ہو کر اپنی انفرادیت کھو بیٹھے۔ مولانا طارق جمیل اس ماحول میں امید کی کرن ہیں۔
بعض سلگتے ہوئے قومی مسائل پر ان کے فہم، انداز فکر بلکہ طرز عمل پر بہت سے تحفظات موجود ہیں، یہ بھی ممکن ہے کہ مولانا کے پاس ان سوالوں کے جواب بھی نہ ہوں لیکن اس کے باوجود ان کی شخصیت میں ایک ایسی خوبی ہے جس کا نہ صرف اعتراف ضروری ہے بلکہ اس کے فروغ کے لیے ان کا ہم آواز ہو جانا وقت کی ضرورت ہے۔ مولانا طارق جمیل صاحب کی انفرادیت اور خوبی یہی ہے جسے اعتدال، رواداری اور صلح کل سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے دینی طبقات میں بعض اہم قومی اور دینی شخصیات کے لیے تکدر کے جذبات پائے جاتے ہیں۔
ان میں سر سید احمد خان خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ہمارے دوست شاہ نواز فاروقی تو انھیں جھوٹے نبیوں سے بھی بدتر قرار دینے سے گریز نہیں کرتے۔ ایسا ہی معاملہ دینی طبقات کا بھی ہے۔ تنگ دلی کے اس ماحول میں مولانا طارق جمیل اس لیے غنیمت ہیں کہ وہ سرسید کا نام لیتے ہیں تو اہتمام سے علیہ رحمہ بھی کہتے ہیں۔ اسی طرح ٹھیٹ دینی حلقوں میں مولانا مودودی کی دینی حیثیت کو تسلیم نہ کرنے کی روش پائی جاتی تھی اور تکدر کے ساتھ انھیں مولانا کے بجائے مودودی صاحب کہہ کر پکارا جاتا تھا جیسے کانگریس نواز حلقے قائد اعظم کو آج بھی انھیں ان کے قومی اور سرکاری لقب سے یاد کرنے کے بجائے تکدر سے جناح صاحب کہا کرتے ہیں۔
بے مروتی کی اس فضا میں یہ مولانا طارق جمیل ہی ہیں جو جس احترام کے ساتھ مولانا حسین احمد مدنی کاذکر کرتے ہیں، ویسا ہی احترام ان کے ہاں اقبال اور مودودی کے لیے بھی ہے۔ ایک حدیث ہے کہ جو مجھ سے کٹے، میں اس سے جڑوں۔ مولانا طارق جمیل کے طرز عمل میں اس کا پرتو صاف دکھائی دیتا ہے اور یہی ہمارے آج کے کٹے پھٹے زخمی معاشرے کی ضرورت ہے۔
ہمارے دینی طبقات میں شدت کی ایک اور قسم بھی پائی جاتی ہے جس کی ہلاکت خیزی اس قدر زیادہ ہے کہ ان کی اولادیں بے بس ہو کر الحاد میں پناہ لینے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں اس دو ایک نہیں بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ مولانا طارق جمیل کے ہاں ایسا کوئی مسئلہ نہیں۔ مولانا کے صاحبزادے ان کی دینی سرگرمیوں میں ان کے ممد و معاون ہی نہیں بلکہ جانشین بھی ہیں، یہ کیسے ہوا ہوگا، اسے میں نے اپنے مشاہدے سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ مولانا کے پوتے پوتیاں اب گڈیاں پٹولے کھیلنے کی عمر سے نکل کر اسکلپچر بنانے یا ان سے لطف اندوز ہونے کی عمر کو پہنچ چکے ہیں۔
اپنی دلچسپی کے مطابق جب وہ کوئی فن پارا بنا لیتے ہیں یا حاصل کر لیتے ہیں تو انھیں اپنے مذہبی دادا سے خوفزدہ ہو کر چھپانے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ انھیں جو جگہ مناسب لگتی ہے، وہاں اس کی نمائش کرنے میں بھی آزادی محسوس کرتے ہیں۔ سیاسی میدان میں حریت فکر سے تعلق سے مولانا کا انداز فکر جو بھی ہو، انھوں نے اپنی اولاد کو اس سلسلے میں جو سہولت فراہم کی ہے، اس کی قدر کرنی چاہیے، مولانا طارق جمیل کی یہ خوبی انھیں اپنے ہم عصروں میں ممتاز کرتی ہے۔ یہ اولاد سے غیر معمولی محبت کا ایک مظاہرہ نہیں بلکہ ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کی کوشش ہے جو نہ اس عہد کی ضرورت ہے بلکہ فطرت کے تقاضے بھی پورے کرتی ہے۔ اس تناظر میں مولانا طارق جمیل کے اس پسندیدہ طرز عمل کی تائید ناگزیر ہے۔