شیخ التحریر مختار مسعود، اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتوں کی بارش برسائے رکھے، ایک روز ان کی طبیعت گھبرائی تو اس کے باوجود کہ ہنگامۂ دار و گیر بپا تھا، جوانان رعنا جلوس نکالتے تھے اور خون میں نہا کر گھروں کو لوٹتے یا وادی خموشاں میں جا سوتے، و ہ گھر سے نکلے اور تہران یونیورسٹی کے نواح میں پہنچے۔ شہر کا یہ کوچہ انقلابیوں کا مرکز تھا۔
انقلابی دن رات وہاں ڈیرے ڈالے رکھتے، خواب دیکھتے اور سوچتے کہ یہ جان اگر ایک بار داؤ پر لگا ہی دی ہے تو اب واپس پلٹنا نہیں ہے۔ تہران یونیورسٹی کے شبستانوں میں فقط انقلابیوں ہی کے ڈیرے نہ تھے، دہائیوں سے قید و بند میں پڑی ہوئی کتابیں بھی رسے تڑا کر وہاں آ پہنچی تھیں۔
اس کوچے میں کتابوں کی تین قسمیں پائی جاتی تھیں، اوّل، وہ لٹریچر جس کے چلمنوں میں سرخ سویرے کے خواب بسے تھے، دوم، ایران کے کوچہ و بازار میں کھیلی جانے والی خون کی ہولی پر آیت اللہ روح اللہ خمینی کا ردعمل۔ اس زمانے میں اخبارات عموماً بند کر دیے جاتے یا بند نہ ہوتے تو ان کی گردن کے گرد حلقہ اتنا تنگ ہوتا کہ کوئی انھیں شایع کرنے کی ہمت ہی نہ کرتا، اس لیے کوئی چھاپہ خانہ رات کے اندھیرے میں یہ بیانات شایع کر کے یہاں وہاں پھیلا دیتا۔ راتوں رات کھمبیوں کی طرح اُگ آنے والے ان کتاب گھروں میں جو تیسری چیز دست یاب ہوتی، وہ کتاب یا رسالے کی ایک ایسی قسم تھی، اہل ایران اسے دیکھتے اور سوچتے کہ بار الٰہا، کیا ایسا ایسا انکشاف بھی زیور طبع سے آراستہ ہو سکتا ہے؟
ایسے کتابچوں اور رسالوں میں ریاست کی طاقت ور شخصیات کی بدعنوانی، بدمعاشی، قانون شکنی اور کمزور شہریوں پر تشدد اور خون ریزی کی داستانیں رقم کی جاتیں۔ اہل ایران کانپتے ہاتھوں سے یہ کتابچے پکڑتے، ان کا مطالعہ کرتے اور سوچتے کہ جبر کی اس سیاہ رات میں کون ایسے سورما ہیں جو یہ سب کر گزرتے ہیں؟ اس دیس میں روحانیون یعنی طبقہ علما اور بائیں بازو کی تودہ پارٹی، اس کے قائدین اور متعلقین کے بارے میں ایسی جرأت مندی ممکن بلکہ عین ممکن تھی لیکن شاہ، اس کے حامیوں، حالیوں موالیوں اور دیگر طاقت ور طبقات کے بارے میں کوئی ایسا سوچ بھی سکے، یہ ممکن نہ تھا۔
کچھ ایسے ہی سوالات مختار مسعود صاحب کے ذہن میں بھی رہے ہوں گے کہ انھوں نے تہران یونیورسٹی سے دست یاب لٹریچر کو اکٹھا کیا اور اطمینان سے گھر بیٹھ کر اس کا مطالعہ شروع کر دیااور سوچاکہ ایران میں جب سے انقلاب کا غلغلہ ہوا ہے، اس ملک کے عوام و خواص میں کیا تبدیلی رونما ہوئی ہے اور قومی مسائل و آشوب کے ضمن میں ان میں کس قسم کے رجحانات پائے جاتے ہیں؟ اس سلسلے میں مختار مسعود صاحب کا مشاہدہ نہایت دلچسپ ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ جبر کے ڈھائی ہزار برس قدیم بوجھ تلے دبی ہوئی ایرانی قوم کے طرز عمل میں تبدیلی بتدریج آئی۔ وہ زمانہ جب احتجاج کی نوعیت ابتدائی تھی، احتجاجی یا انقلابی اپنے عزم میں یکسو تھے اور اپنے راستے پر ہر قسم کے دار و گیر کے باوجود پوری قوت سے جمے ہوئے تھے، ان ہی دنوں ایران کے کسی شہر میں ایک واقعہ رونما ہوا، کسی نے ایک سینما گھر کے دروازوں پر تالے اس طرح لگائے کہ تماش بینوں کے فرار کا ہر راستہ بند ہو گیا، اس کے بعد عمارت پر پیٹرول چھڑکا اور دیا سلائی دکھا دی۔ یہ ایک خوف ناک واقعہ تھا جس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔
عالمی ذرایع ابلاغ تادیر اس انسانیت کش واقعے پر تبادلہ خیال کرتے رہے اور صرف پڑوسی ملکوں میں ہی نہیں بلکہ پورے خطے میں انسانیت اس واقعے سے لرز کر رہ گئی لیکن ایران کے اندر عجب صورت حال تھی۔ لوگ اس واقعے کے ذکر سے اجتناب کرتے اور بفرضِ محال کہیں کوئی غیر ملکی اس پر بات شروع کر دیتا تو سنی ان سنی کر دیتے۔ علاقائی تعاون برائے ترقی کا ادارہ المعروف آرسی ڈی معروف معنوں میں ایک سفارتی ادارہ تھا۔
سفارت کاروں کی خوبی جیسا کہ دنیا جانتی ہے، یہ ہوتی ہے کہ لیے دیے رہو، آنکھیں کھلی رکھو اور زبان بند لیکن اس لکھے اور اَن لکھ ضابطے کی پابندی کی بھی آخر ایک حد ہوتی ہے۔ اگر آپ کے دائیں بائیں ہی چار سو زندہ جانیں دیکھتے ہی دیکھتے جلا کر کوئلہ بنا دی جائیں، ایسے مواقع پر سفارتی جکڑ بندیاں اور خود اختیاری ضابطے خود بخود نرم پڑ جاتے ہیں۔ آر سی ڈی کے صدر دفتر واقع تہران میں ایک سفارت کار سے رہا نہ گیا، ایک ایسی محفل میں جہاں تینوں ملکوں سے تعلق رکھنے والے سینئر عہدے دارموجود تھے، سوال اٹھایا کہ آخر اس واقعے کا ذمے دار کون ہے؟ سرکار کا الزام یہ تھا کہ اس کے ذمے دار مذہبی طبقات ہیں۔
اس کے برعکس عام لوگ متفق تھے کہ یہ کام حکومت کی سرپرستی میں کیا گیا، البتہ اِس معاملے میں اختلاف پایا جاتا تھا کہ یہ کس ادارے کی کارروائی ہے، فوج، ساواک(خفیہ ایجنسی) یا سول انتظامیہ۔ سہ ملکی ادارے کے دفتر میں زور شور سے یہ بحث جاری تھی کہ ایک ایرانی اہل کار نے کاغذوں میں سر دیے دیے بحث نمٹانے کے لیے بے زاری کے ساتھ کہا کہ حادثہ ہے، شارٹ سرکٹ کے سبب ہوگیا ہوگا۔ عمومی طور پر تبصروں میں محتاط ترک ساتھی سے رہا نہ گیا، چمک کر بولے کہ ہم اتنے سادہ بھی نہیں کہ حادثے اور سازش میں تمیز نہ کر سکیں۔ اس موقع پر پاکستانی اہل کار بھی خاموش نہ رہ سکے، کہا کہ ہم اتنے نا سمجھ بھی نہیں کہ بے رحم سیاست اور شارٹ سرکٹ میں فرق محسوس نہ کر سکیں۔ بحث ختم کرنے کی ا یرانی کوشش ناکام ہو گئی۔
اس کے بعد حالات بدل گئے۔ مختار مسعود کا تجزیہ ہے کہ ایرانیوں میں اس سلسلے میں چار ماہ کے دوران میں تین تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ حالات میں خرابی شروع ہوئی تو اوّل اوّل وہ اَن جان بن گئے کہ جیسے کچھ بھی نہیں ہو رہا۔ لوگوں کے سامنے اخبار اٹھاتے تو پہلا صفحہ پلٹ دیتے۔ شہنشاہ کے ذکر پر سنجیدہ ہو جاتے۔ اس پر بھی بات نہ بنتی تو اچانک انھیں کوئی کام یاد آجاتا اور وہ موقع سے غائب ہو جاتے۔ دوسرے دور میں محفل سے اٹھ جانے کا تکلف جاتا رہا لیکن چہرہ اسپاٹ رہتا، پتہ ہی نہ چلتا کہ کس بات کی تائید کررہے ہیں اور کس بات کی نہیں۔ کوئی براہ راست سوال پوچھ بیٹھتا تو طرح دے جاتے اور کہتے کہ مجھ سے کیا پوچھتے ہیں، آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ تیسرے دور میں حجاب اٹھ گئے۔
بحث میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے، شاہ پر نکتہ چینی کی جانے لگی اور اس کی خامیوں کاذکر علی الاعلان کیا جانے لگا۔ یہی وہ دور تھا جس کے لیے کہا جاسکتا ہے کہ انھیں اپنے ملک کے مستقبل کی فکر لاحق ہو گئی۔ الحمدللہ، ہمارے ہاں ایران جیسی کوئی ایک بات بھی نہیں۔ ملک ٹھیک چل رہا ہے، حالات پر سکون ہیں اور لوگ دن دونی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں، اسی اطمینان کے عالم میں ایک واقعہ ایسا رونما ہو گیا ہے جس کے سبب سے برے برے خیال آنے لگے ہیں۔ پھر جنت مکانی مختار مسعود صاحب کا خیال آیا کہ وہ اگرانقلابِ ایران جیسے پیچیدہ معاملے کا تجزیہ اتنے رسان سے کر سکتے تھے، یہ تومیری فکر مندی چٹکیوں میں حل کر دیتے، لگے ہاتھوں یہ بھی بتا دیتے کہ ان دنوں ہم کس دور سے گزر رہے ہیں، پہلے، دوسرے یا پھر تیسرے؟