Sunday, 29 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Roti Nahi To Sona Bhi Mitti

Roti Nahi To Sona Bhi Mitti

پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقار نے اردو سیکھی اور اس میں نام پیدا کیا لیکن نہیں معلوم یہ کیسے ہو گیا کہ اردو کے ساتھ ساتھ پاکستان کی دیگر قومی زبانوں سے بھی شناسائی پیدا ہوتی چلی گئی، ہندکو پر تو ایسی دسترس ہوئی کہ اس کی گرامر تک لکھ ڈالی:

ایسے کہتے ہیں سخن ور سہرا،۔

پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی ڈاکٹر آئی ایچ عثمانی یاد آگئے، مرحوم گفتگو کے دھنی تھے، کانوں میں رس گھولنے والی گفتگو کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ کہے اور سنا کرے کوئی لیکن ڈاکٹر صاحب کو صرف سننے سے بات نہیں بنتی تھی، انھیں بیک وقت سننا اور دیکھنا پڑتا تھا، بات کہتے ہوئے ان کے چہرے کے تاثرات اور ہاتھوں کی حرکت مل کر ایسی کیفیت پیدا کر دیتی کہ انسان ٹرانس میں چلا جاتا۔ وہ جنرل ضیا کا زمانہ تھا اور شاید کرکٹ ڈپلومیسی کا واقعہ تازہ تازہ گزرا تھا، یہی سبب رہا ہو گا کہ ایٹمی پروگرام ایک بار پھر زیر بحث آگیا۔ ڈاکٹر آئی ایچ عثمانی بھی ان ہی دنوں کہیں پاکستان تشریف لائے ہوئے تھے۔

مرزا سلیم بیگ مرحوم کہنے لگے کہ میاں، ان کا انٹرویو کر لاؤ تو جانیں۔ اور میاں، یہ انٹرویو کر لایا، ساتھ میں یہ مصرعہ بھی یادداشت کی پٹاری میں محفوظ کر لایا کہ ایسے کہتے ہیں سخن ور سہرا۔ ڈاکٹر صاحب اپنی مختصر گفتگو میں بھی کئی بار کسی نہ کسی کی تعریف کا موقع نکال لیا کرتے اور دل کھول کر داد دیتے، داد دیتے وقت ان کے چہرے پر ایک خوش گوار سی مسکراہٹ اور ہاتھوں میں حرکت پیدا ہوتی اور وہ آنکھیں نچا کر کہتے کہ ایسے کہتے ہیں سخن ور سہرا۔ ہمارے بھائی ڈاکٹر خلیل طوقار نے اردو کی جو خدمت کی ہے، وہ اپنی جگہ لیکن ہندکو گرامر والا کارنامہ واقعی ایسا ہے جس پر ان پر پیار آ جاتا ہے اور تعریف کے لیے ڈاکٹر عثمانی کا لہجہ، انداز اور الفاظ۔

سحری کے انتظار میں بیٹھا میں آ نکھیں مچمچا رہا تھا کہ ٹیلی گرام جاگا، میری سمجھ میں آیا کہ ہو نہ ہو یہ اپنے ڈاکٹر صاحب ہیں۔ واٹس ایپ والوں نے جب سے نخرے شروع کیے ہیں اور صارفین کی ذاتی زندگی میں مداخلت پر مصر ہوئے ہیں، ڈاکٹر صاحب واٹس ایپ سے ٹیلی گرام پر ہجرت کر چکے ہیں، ان کے ساتھ ان کے دوست احباب بھی۔ تو یہ واقعی ڈاکٹر صاحب تھے۔

پیلے سے حنائی کاغذ کا عکس تھا، بالکل ویسا ہی کاغذ جس پر ہمارے بزرگ مخطوطے لکھا کرتے تھے۔ یہ بھی ایک مخطوطے ہی کا عکس تھا، ایک محبت نامہ جو خرم سلطان المعروف حوریم سلطان نے سلطان بحر و بر سلیمان عالی شان کو لکھا تھا۔ خرم سلطان کے لیے کہا جاتا ہے کہ فرماں روائے سلطنت عثمانیہ یعنی سلیمان عالی شان جب جنگی مہمات پر نکلتا تو اس کے پیچھے خرم سلطان سلطنت کا انتظام سنبھالتی اور کسی انٹیلی جنس چیف کی طرح اپنی آنکھیں اور دیگر حواس چوکنے رکھ کر سلطنت کی ایک ایک بات پر نظر رکھتی اور اپنے مکتوبات کے ذریعے سلطان کو ان سے آگاہ کیا کرتی مگر یہ ایک مختلف خط تھا، ایک محبوب کی طرف سے اپنے دل کے سلطان کی طرف جس میں ہجر کی بے اندازہ تڑپ، وصال کی منھ زور آرزو اور سلطان کے حبالہ عقد میں آنے اور بے شمار نعمتوں سے فیض یاب ہونے کی خوشی جس سے چھلکتی تھی۔ اس عریضے میں خرم سلطان نے جس سب سے بڑی نعمت پرسپاس گزاری کا اظہار کیا ہے، یہ ہے کہ وہ تو دین حق کی نعمت سے محروم تھی لیکن سلطان عالی شان کی رفاقت نے اسے اس گراں قدر نعمت سے بھی مالا مال کر دیا۔

ہمارا ارادہ سلیمانیہ کی طرف جانے کا تھا اور ہم صدیوں اور قرنوں پرانے مناظر کا خاموشی سے نظارہ کرنے والی جامعہ استنبول کی چار دیواری کے ساتھ چلتے جاتے تھے۔ طالب علم بھی بادشاہوں کی طرح اپنے دل کے بادشاہ ہوتے ہیں اور دل میں آئی بات کو رقم کرنے سے کبھی نہیں چوکتے، چاہے وہ جامعہ استنبول کی تاریخی دیوار ہی کیوں نہ ہو۔ استنبول کے گلی کوچوں کی آوارہ گردی میں تھوڑی بہت ترکی کی سمجھ آنے لگی تھی، یہی سبب تھا کہ اس نوشتے کو دیکھ کر میں ٹھہر گیا، ایک مختصر سا جملہ لکھا تھا جس کے مرکزی لفظ ekmek، یعنی روٹی مجھے پکڑ لیا۔ میری دل چسپی دیکھ کر ڈاکٹر صاحب مسکرائے اور بتایا کہ یہ نعرہ رقم ہوئے کوئی پینتیس چالیس برس ہوتے ہیں۔ سیاسی و اقتصادی بے چینی کے زمانے میں کسی دل جلے نے حالات سے مجبور ہو کر لکھا تھا:

روٹی نہیں توسونا بھی مٹی،

حنائی کاغذ پر محبت نامے اور نظمیں لکھنے والی خرم سلطان تاریخ میں کچھ ایسی نیک نام بھی نہیں۔ مؤرخین نے اس کے بارے میں بہت اوٹ پٹانگ لکھ رکھا ہے کہ سازشی تھی، لوگوں کو حتیٰ کہ سلطان کے پیاروں تک کو مروا دیا کرتی تھی۔ بادشاہتوں اور راج واڑوں میں ایسا ہوا ہی کرتا ہے، کچھ بعید نہیں کہ خرم سلطان نے بھی یہ سب کیا ہو، کچھ ایسے ہی کارگزاریاں ہوتی ہیں جن کے ذکر کے لیے عام بول چال کے الفاظ بے بس ہو جاتے ہیں تو سمجھ دار لوگ طوائف الملوکی کی اصطلاح متعارف کرا دیتے ہیں جہاں ہر وقت اٹھا پٹخ رہتی ہے، کوئی سکون سے کہیں بیٹھ نہیں سکتا۔

اہل کو نااہل سمجھا جاتاہے اور نااہل کو اہل سمجھ کر اقتدار و اختیار میں شریک کیا جاتا ہے۔ سحری کا انتظار ابھی جاری تھا اور ٹیلی ویژن پر بھولے بھالے چہرے والی اینکر یہ جانے بغیر کھٹا کھٹ خبریں پڑھتی جاتی تھی اور آگے بڑھتی جاتی تھی، نہیں معلوم اسے خبر تھی کہ نہیں لیکن اسی نے بتایا کہ ہمارے کپتان نے ڈھائی برس میں چار وزرائے خزانہ بدلنے کا کارنامہ انجام دے ڈالا ہے۔ ایک زمانہ تھا فواد چوہدری کو نفس ناطقہ قرار دے کر داد دی پھر جانے کیوں نفس ناطقہ بدل ڈالا، اب ایک بار پھر اسی مشق کے دہرائے جانے کی اطلاع تھی۔

فواد چوہدری اس حکومت کے ترجمان بنیں یا شبلی فراز وینٹیلیٹر بنائیں اور بیچیں، مجھے اس سب سے زیادہ میاں اظہر کے نوجوان لخت جگر کی بے بسی پر رحم آیا، باقی تو سب کھیلے کھائے لوگ ہیں، کچھ کر کے یا کچھ کیے بغیر بھی گزارا کر لیں گے لیکن اسے تو کچھ کرنے کا موقع بھی نہیں ملا، ایک شعر زباں پر جاری ہو گیا ؎

یہ پھول اپنی لطافت کی داد پا نہ سکا

کھلا ضرور مگر کھل کر مسکرا نہ سکا

خرم سلطان نے بھی کچھ عرصے تک خوب اٹھا پٹخ کی، کسی کو یہاں پھینکا کسی کو وہاں لیکن جلد ہی اعتدال غالب آیا۔ اس کے اعتدال کے زمانے کو سنہری زمانے کا نام دیا جاتا ہے۔ ایک ایسا زمانہ جس میں سب کچھ اپنی جگہ پر تھا، محنت کی قدر تھی، مزدور کو معاوضہ ملتا تھا، وہ بھی اپنے وقت پر اور پورا۔ وہ شفا خانے بناتی، سرائیں تعمیر کراتی اور لوگ اسے دعائیں دیتے۔ میں نے بے زار ہو کر ٹیلی ویژن کا گلا دبایا اور سوچااعتدال اور سکون کی یہ نعمت ہمارے حصے میں جانے کب آئے گی؟ ہمارا یہ انتظار کچھ زیادہ ہی طویل ہو گیا ہے، شاید یہی سبب ہے کہ ہمارے دل کی دیواروں بھی ایسے نعروں سے بھر گئی ہیں:

روٹی نہیں تو سونا بھی مٹی،۔