Saturday, 28 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Wo Aziz e Jahan

Wo Aziz e Jahan

الطاف گوہرنے لکھا ہے کہ وہ مولانا سید ابو الاعلی مودودی کے جنازے سے لوٹے تو ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ٹیکسی ڈرائیور نے پلٹ کر ان کی طرف دیکھا اور سوال کیا:

"آپ کا کوئی عزیز تھا؟ ،۔"

الطاف گوہر نے آنسو پونچھے اور کہا:

"عزیز جہاں تھا۔"

ڈرائیور کچھ سمجھا، کچھ نہ سمجھا اور پلٹ کر ایک اور سوال کیا:

"جوان تھا؟ "الطاف گوہر بولے جواں فکر تھا۔

الطاف گوہر کا دکھ اپنی جگہ لیکن پاکستانی قوم آج جس دکھ میں مبتلا ہے، اس کا اظہار اس مکالمے کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان کو رخصت ہوئے کئی روز ہوئے ہیں لیکن ہمارا دکھ ابھی تک تازہ ہے۔ ایک ایسا شخص ہم سے جدا ہو چکا ہے جس سے ہمارا کوئی رشتہ ناتا نہیں تھا لیکن وہ ہمارے گھر کا فرد تھا، ہمارے دلوں میں بستا تھا، آج وہ رخصت ہوا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے گھر خالی ہو گیا، ایک عزیز از جان کیا رخصت ہوا، ہمارے دل و جان بھی ساتھ لے گیا۔ کسی مرثیے کا ابتدائی مصرعہ ہے۔

دل پگھل پگھل گیا، جان نکل نکل گئی

ڈاکٹر صاحب کی رخصت پر قلب و روح سے نکلے ہوئے مرثیے کے یہی الفاظ اس صدمے کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ہماری قومی زندگی میں ایک اسرار کی طرح داخل ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے گھروں، خاندانوں کا فرد بن گئے پھر وہ اس سے بھی اوپر اٹھے اور ایک ایسی لوک کہانی بن گئے جو قوم کے حافظے کا اس طرح حصہ بن جاتی ہے جیسے جسم میں روح۔ 1974 میں بھارت کے ایٹمی دھماکے کے بعد بھٹو صاحب مرحوم نے ایٹمی پروگرام کو متحرک کیا تو اس کے ساتھ ہی ذرائع ابلاغ میں ایک نام آنا شروع ہو گیا۔

شروع میں عبدالقادر خان، رفتہ رفتہ جس کی تصحیح ہوتی گئی اور ہم جانتے چلے گئے کہ وہ شخص کسی اجنبی اسرار کی طرح ہمارے اجتماعی حافظے کا حصہ بنا تھا، دراصل ڈاکٹر عبد القدیر خان ہے، بھوپال کا مہاجر اور ڈائریکٹوریٹ اوزان و پیمانہ جات کراچی کا سابق کلرک۔ ڈاکٹر صاحب سے پہلی ملاقات 1991یا 1992 میں سائنٹفک سوسائٹی آف پاکستان کے سالانہ توسیعی لیکچر کے بعد ہوئی۔

یہ سوسائٹی پاکستان میں سائنس کے فروغ، خاص طور پر قومی زبان میں اس کے فروغ کے لیے کام کیا کرتی تھی۔ سوسائٹی کا یہ شاید آخری توسیعی لیکچر تھا جس میں ڈاکٹر عبد القدیر خان شریک ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب لکھا ہو ایک مقالہ ساتھ لائے تھے جس میں پاکستان میں سائنسی تعلیم و ترقی اور ضرورت کی اہمیت پر تفصیل سے اظہار خیال کیا گیا تھا۔ اپنے توسیعی لیکچر کے لیے انھیں جب اسٹیج پر مدعو کیا گیا تو وہ اپنے لیکچر کے ساتھ روسٹرم تک پہنچے، فائل کھولا، شاید ابتدائی کلمات بھی پڑھے، پھر سر اٹھایا، یہ لیکچر شائع ہو چکا ہے اور آپ سب کے پاس اس کی کاپی بھی موجود ہے، اسے آپ پڑھ بھی لیں گے تو پھر کیوں نہ کچھ دل کی باتیں کر جائیں۔

آڈیٹوریم میں حاضرین کی بہت بڑی تعداد موجود تھی، سب نے بیک آواز اس کی تائید کی اور ڈاکٹر صاحب نے اپنی دھیمی مگر پرکشش آواز میں اپنی یادیں دہرانی شروع کر دیں۔ ان کی شاید یہی تقریر تھی جس میں انھوں نے بتایا کہ جنرل ضیا کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری میں پہنچے اور اس کے بڑے بڑے ہال دیکھ کر حیرت سے کہا کہ کیا آپ یہاں فٹ بال کھیلتے ہیں؟ لیکچر کے بعد رات کا کھانا تھا، یہ کھانا مجھے ان کے ساتھ ٹیبل پر بیٹھ کر کھانے کا اعزاز حاصل ہوا۔ تقریب میں صحافیوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔

سب ہی بے چین تھے اور چاہتے تھے کہ ڈاکٹر صاحب کوئی ایسی بات کہہ دیں تاکہ ایک بڑی خبر ہاتھ آ جائے لیکن ڈاکٹر صاحب کے احترام اور معاملے کی نزاکت کے پیش نظر پہل کرنے میں متامل تھے۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت میرے ساتھ بچل لغاری کھڑے تھے، انھوں نے ہمت کی اور کوئی سوال کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے دھیرے سے سراٹھا کر ہم لوگوں کی طرف دیکھا اور نہایت سنجیدگی کے ساتھ کہا کہ "بھائی، مجھے ان موضوعات پر بات کرنے کی اجازت نہیں "۔

ان یادوں میں ایک یاد ہمارے قبلہ شاہ جی سید سعود ساحر کے لخت جگر عمر فاروق کی شادی کی ایک تقریب بھی ہے۔ تقریب مختصر نہ تھی اور اس میں موجود ہر شخص ان کا چاہنے والا تھا یعنی ہر شخص ان کے ساتھ تصویر بنوانے کا خواہش مند تھا اور اس صورت حال سے وہ کچھ کبیدہ خاطر دکھائی دیے تو اس خیال میں کہ انھیں تکلیف دینا مناسب نہیں، میں نے اس روز آسان موقع ہونے کے باوجود تصویر نہ بنوائی۔ ڈاکٹر صاحب کی تصویر اہل وطن کو کتنی عزیز تھی، اس کی ایک مثال پی ٹی وی کے ایم ڈی اختر وقار عظیم کی صورت میں سامنے آئی۔ قبلہ شاہ جی کے ہمراہ ایک بار ان سے ملاقات ہوئی۔

یہ اس زمانے کی بات ہے جب جنرل مشرف انھیں نظر بند کر چکے تھے۔ اختر صاحب نے اپنی ڈائری کھولی اور اس میں سے ڈاکٹر صاحب کی تصویر نکال کر دکھائی اور کہا کہ اس ڈائری کے ساتھ ہی میں جنرل مشرف سے ملنے ایوان صدر بھی جاتا ہوں لیکن یہ تصویر ہمیشہ میرے ساتھ ہوتی ہے۔

اختر صاحب نے اس زمانے کا ایک دل دکھانے والاواقعہ بھی سنایا۔ جناح آڈیٹوریم میں شاید وہ پی ٹی وی ایوارڈ کی تقریب تھی یا کوئی اور۔ تقریب میں ڈاکٹر صاحب کو بھی مدعو کیا گیا تھا لیکن جنرل مشرف کی ناراضی کے خوف سے ان کے لیے نشست مخصوص نہ کی گئی۔ اختر صاحب کہتے ہیں کہ اپنی اہلیہ کے ساتھ وہ بھی تقریب میں موجود تھے، یہ صورت حال دیکھ کر اپنی نشست ان کے لیے خالی کر دی۔

ڈاکٹر صاحب صرف سائنس دان نہ تھے، نہایت نفیس ذوق رکھنے والے شعر پسند تھے بلکہ شعر بھی کہہ لیا کرتے تھے۔ صدر ممنون حسین صاحب کے دورہ کوئٹہ کے موقع پر میرا گورنر ہاس جانا ہوا۔ ملٹری سیکریٹری کے دفتر میں بوریت مٹانے کے لیے میں نے اٹھ کر تصویریں دیکھنی شروع کردیں۔ اسی دوران میری نگاہ صوفے کے پیچھے خالی جگہ پر کچھ کتابیں دکھائی دے گئیں۔ تجسس کے مارے ہاتھ ڈال کر میں نے ایک کتاب نکالی تو وہ کلاسیکی اساتذہ کی شاعری کا انتخاب نوادرات، تھا جس کے مرتب ڈاکٹر عبد القدیر خان تھے۔

ڈاکٹر صاحب نے یہ مجموعہ اپنے دستخط کے ساتھ گورنر صاحب کو پیش کیا تھا جو اب گورنر ہاؤس کے اس تاریک گوشے میں پڑا روشنی کا منتظر تھا، میں نے یہ مجموعہ اٹھایا اور نوادرات کے اپنے مختصر سے ذخیرے میں محفوظ کر لیا۔ ڈاکٹر صاحب کی یہی یادیں میری زندگی کا اثاثہ ہیں۔ آج وہ ہمیں اداس چھوڑ کر اللہ کی رحمتوں اور جنتوں میں جابسے ہیں تو موسلا دھار بارش میں انھیں رخصت کرنے والوں نے اس خراج عقیدت کی یاد تازہ کردی ہے، الطاف گوہر نے جو سید ابوالاعلی مودودی کو اپنے مخصوص انداز میں پیش کیا تھا۔