Monday, 18 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Aghaz Se Anjam Tak

Aghaz Se Anjam Tak

صفدر جاوید سیّد میرے سینئر کولیگ رہے ہیں۔ نہایت مشفق، قابل اور ایماندار افسر جو مرکزی سیکریٹری اور کئی اہم عہدوں پر کام کرنے کے بعد ریٹائر ہوئے تو لاہور میں مستقل سکونت اختیار کرکے جمخانہ میں دوستوں کے ساتھ ہر شام گزارتے۔

صفدر صاحب سے میری پہلی ملاقات 1980 میں ہوئی۔ اُسی سال پاکستان اور انڈیا کا ون ڈے کرکٹ میچ ساہیوال میں ہونا تھا۔ مجھے صفدر جاوید کا پیغام آیا کہ وہ یہ میچ دیکھنے آئیں گے۔ ساہیوال میں کوئی اتنا اچھا ہوٹل یا ریسٹ ہائوس نہ تھا کہ دونوں ٹیموں اور اسٹاف کو وہاں ٹھہرا یا جاتا۔

میں نے چند اچھے گھرانوں کے مالکان سے درخواست کر کے ان کے کمروں کو اس قابل بنوایا کہ یہ اہم کام ٹیموں کی ضرورت اور اہمیت کے مطابق ہو۔ انڈین ٹیم کے کیپٹن بشن سنگھ بیدی تھے۔ دو دن بعد انڈین کرکٹ ٹیم میچ کھیل کر رخصت ہوئی۔

پاک و ہند کبھی یکجا تھے۔ حکومتیں بدلتی رہیں۔ کبھی جنگیں بھی ہوئیں، پھر دوستی نہ سہی، حالات کافی حد تک نارمل ہو گئے اور ویزے کی بنیاد پر آنا جانا رہا۔ انڈین اور پاکستانی وفد اور کھلاڑی ایک دوسرے کے ملک میں کھیل اور علمی، ادبی مقاصد کے لیے آنے جانے لگے۔ قتیل شفائی کو فلمی گیت لکھنے کے لیے دو تین ماہ کی دعوت آنے لگی۔ حالات میں کمی بیشی ہوتی رہی۔

سن 2014 میں اپنی بیگم کے ہمراہ ایک ہفتے کے لیے گورداسپور جانے کا موقع ملا۔ پرویز بھنڈارہ کے بہت سے سکھ دوست ہیں جو آتے ہیں تو لاہور جمخانہ کلب میں ٹھہرائے جاتے ہیں۔ میرا انڈیا جانا ہوا تو بھنڈارہ نے مجھے چار ڈبے ختائیوں کے دیے کہ یہ ترپت سنگھ باجوہ کو تحفے کے طور پر دے دینا۔ یوں میری ملاقات باجوہ سے ہوئی اور اس نے ہماری خوب خاطر تواضع کی۔

ابھی چند روز قبل پرویز بھنڈارہ نے امریکا سے ٹیلیفون کر کے بتایا ہے کہ ترپت سنگھ پھر پنجاب کا منسٹر بن گیا ہے۔ اگرچہ میری ملاقات ہندوئوں کے مقابلے میں سکھ مذہب کے پیروکاروں سے زیادہ رہی ہے لیکن سکھ برادری میں دوسروں کے مقابلے میں زیادہ خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً سکھ بے حد مہمان نواز واقع ہوئے ہیں۔ آپ کو کوئی سکھ فقیر نظر نہیں آئے گا۔ وہ اپنی ماں جائی زبان پنجابی سے اس قدر محبت کرتے ہیں کہ دل عش عش کر اُٹھتا ہے۔

میری آج ہی اجے کھنّہ سے فون پر بات ہوئی جو لاہور جمخانہ میں گولف کھیلنے کے لیے بیتاب تھا۔ جب چند سال قبل مودی دَور سے پہلے میرا انڈیا جانا ہوا تو امرتسر میں ایک گالف کلب میں دس بارہ گولفرز سے ملاقات ہو گئی۔ ان سب کو ایک بار لاہور میں گالف کھیلنے کے لیے بُلایا گیا تھا۔ جب وہ پندرہ دن بعد واپس جانے لگے تو میں نے پوچھا کیا آپ نے آمد پر پولیس کے پاس اندراج کروایا تھا؟ ان کی لاعلمی اور انکار پر میں انھیں پولیس لائن پولیس اسٹیشن لے گیا اور پرانی تاریخوں پر Entries کروا کے ان کو مشکل سے نکالا۔ ان گولفرز میں دو سکھ کھلاڑی بھی تھے۔

پاکستان گورنمنٹ نے جب 2018 میں نوجوت سنگھ سدُھو معروف کرکٹر کی آمد پر کرتار پور Corridor کھولنے کا اہتمام کیا تو وہ دن بابا گورونانک کی یاد کا سال تھا۔ اب ہر سال تین ہزار سکھ انڈیا سے اور اتنے ہی دیگر ممالک سے سالانہ برسی پر دُنیا کے بڑے گوردوارہ کرتار پور آتے ہیں۔ پاکستان نے اس کی بے حد اچھی تزئین و آرائش کی ہے۔ اِسی جگہ سولہویں صدی میں نانک صاحب کا انتقال ہوا تھا۔ یہ جگہ شکر گڑھ نارووال ضلع میں ہے۔

گورونانک 22 ستمبر 1539کو فوت بھی کرتار پور میں ہوئے۔ سکھوں کے گرو کی یادگاروں کی زیارت کرنے دنیا کے بہت سے ممالک کے علاوہ واہگہ کے رستے انڈیا سے آتے ہیں۔ دو بار میں نے پاکستان کی طرف سے واہگہ پر استقبال کیا اور ان کی واپسی تک ساتھ دیا۔

سکھوں کے بارے میں یہ سب لکھنے کا مقصد وزیر ِ اعظم مودی کو شرم دلانا تھا کہ وہ کشمیریوں پر ظلم ڈھانا بند کردے۔ دن ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے۔ ایک گیراج میں آخری دن گزارنے والے مغل بادشاہ کا شعر یاد رکھے:۔

کتنا ہے بد نصیب ظفر ؔ دفن کے لیے

دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں