Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Aqwam Muttahida Ka Test

Aqwam Muttahida Ka Test

آپ کسی ملک کے ایک صوبے میں مذہبی لحاظ سے تعدادی اکثریت رکھتے ہوں اور وہاں صدیوں سے آباد چلے آ رہے ہوں لیکن کچھ ناروا قسم کی بندشوں کو بھی برداشت کرتے چلے آ رہے ہوں۔ پھر ایسا ہو کہ 72 سال کے بعد اچانک اپنی محدود آزادی سے بھی نہ صرف محروم کر دیے جائیں بلکہ ایک جنونی اور شدت پسند سیاسی پارٹی کے لیڈر کے ہاتھوں مارشل لائی حالات کا کچھ یوں شکار ہو جائیں کہ اپنے ہی گھروں میں قید کر دیے جائیں۔

آپ خوراک، دوا، اسکول، بازار، دفتر، نقل و حرکت، کاروبار تک سے محروم ہو جائیں اور اوپر سے مسلح افواج کے محاصرے میں دے دیے جائیں تو ہم اس قسم کی صورت حال کو بیسویں صدی میں کیا نام دیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان مختلف قسم کی محرومیوں کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن اگر اس کے بنیادی انسانی حقوق پر پہرے بٹھا دیے جائیں۔

انھیں خوراک، نقل و حرکت کی آزادی، علاج اور دوا سے محروم رکھنے کے لیے قید و بند اور قتل و غارت کے ذریعے محکوم رکھنے کی کوشش کی جائے تو دُنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ حربہ کبھی کامیاب نہیں ہوا ہے بلکہ اس کا رد ِ عمل کئی گنا مزید اُبھرتا ہے اور پھر شدت اختیار کر کے مظلوم، محکوم، مجبوراور بے بس کو زندان کے دروازے توڑ کر مقابل ہی نہیں لا کھڑا کرتا ہے بلکہ مقابلے کے بعد کامیابی اور فتح سے بھی ہمکنار کرتا ہے۔

دنیا کی تاریخ میں کئی قومیں موجود ہیں جنہوں نے ظلم وجبر کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی اور اس میں کامیاب ہوئے حالانکہ جس قوت کے خلاف وہ جنگ لڑ رہے تھے، اس وقت بظاہر یہی لگتا تھا کہ کمزور اور محکوم اس جابر قوت کو شکست نہیں دے سکیں گی لیکن پھر دنیا نے دیکھا کہ کمزوروں اور مظلوموں نے طاقتوروں کو شکست سے دوچار کر دیا۔ الجزائر کی مثال سب کے سامنے ہے۔ الجزائر کے باشندوں نے فرانسیسی استعماری قوت کو کمزور ہونے کے باوجود شکست سے دوچار کیا اور آزادی حاصل کی۔

الجزائر آج دنیا کے نقشے پر آزاد ملک کے طور پر دیکھا ج اسکتا ہے۔ فلسطینی بھی جدوجہد کر رہے ہیں اور کشمیری بھی۔ آخری فتح کبھی شدت پسند اور ظالم کی نہیں ہوتی۔ کشمیری سست اور کمزور دکھائی دے رہے تھے۔ ان کی جدوجہد ِ آزادی ماند پڑ رہی تھی۔ مارشل لائی حالات پیلٹ گنوں، گولیوں، گرفتاریوں، قتل کی وارداتوں نے سست اور سوئے پڑے کشمیریوں کو نریندر مودی کے خود کشُ حملے نے جگا دیا ہے اور وہ سڑکوں پر آ گئے ہیں۔ اب ان پر نیند حرام ہو جائے گی تا آنکہ وہ اپنا مقصد ِ حیات نہ پا لیں۔ یہ معاملہ کفر و اسلام سے بڑھ کر انسانیت کا ہے جس کا اظہار گزشتہ دنوں عمران خان نے نیویارک میں ببانگ ِ دُہل کیا۔

ہمارے بعض دوست دن رات اپنے موبائل فون سے کھیلتے رہتے ہیں۔ ان کے فون پر اچھی بُری، پاکیزہ اور فحش ویڈیوز کے انبار لگے ہوتے ہیں البتہ ایک دوست ڈاکٹر مشتاق دنیا بھر کی اہم خبروں کا ذخیرہ جمع کرتے اور قابل ِ ذکر ویڈیوز مجھے بھی بھیجتے رہتے ہیں۔ 23 ستمبر کو ہیوسٹن میں جو وزیر ِ اعظم مودی نے صدر ٹرمپ کو ہمراہ لے کر انڈین ہجوم سے خطاب کیا اس کے اختتام پذیر ہونے کے کچھ ہی دیر بعد ڈاکٹر مشتاق نے اس جلسے کی سات عدد ویڈیوز مجھے ارسال کر دیں۔

پورے امریکا میں مقیم انڈین اس جلسہ میں آئے اور بلائے گئے تھے تا کہ صدر ٹرمپ آیندہ الیکشن کے وقت اپنے انڈین ووٹرز کی تعداد دیکھ کر اسی حساب سے مودی کی تعریف کرے اور اس کی دہشتگرد کاروائیوں کو غیر اہم ایشو سمجھ کر Ignore کرے۔ مودی کا یہ جلسہ واقعی بھرپور اور کامیاب تھا۔ یہاں ٹرمپ اور مودی دونوں اپنے اپنے مقصد میں کامیاب نظر آئے لیکن ٹرمپ چائے والا یا رہڑی بان نہیں۔

گھاگ بزنس مین اور کھچرا آدمی ہے اس نے جو کچھ 23 ستمبر کے جلسے میں مودی اور اپنے متوقع ووٹرز کی خوشنودی کے لیے کہا اور صدر امریکا کے منصب کو بالائے طاق رکھ کر مودی کی نقل کرتے ہوئے کیا اسے ساری دنیا نے دیکھا اور میری اطلاع کے مطابق پڑھے لکھے گورے امریکی بھی اس پر شرمسار تھے لیکن اس سے اگلے ہی دن حسب توقع ٹرمپ نے وزیر ِ اعظم عمران خان کو اپنا دوست کہنے کے علاوہ بارہ دفعہ عظیم لیڈر کہہ کر بلایا جب کہ عمران خان نے دنیا کے تمام حکمرانوں کو انصاف، امن اور انسانیت کا حوالہ دے کر کشمیر کے اسی لاکھ افراد جن میں بچے، بوڑھے، جوان، خواتین بیمار لوگ اور فوری علاج کے متقاضی افراد شامل ہیں بتایا کہ یہ لوگ 55 دن سے House Arrest زندگی گزار رہے ہیں۔

انڈین قابض فوج نے کشمیر کو جسے جنت نظیر کہا جاتا تھا، دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کرنے کے علاوہ بربریت کا بھی بد ترین نمونہ بنا دیا ہے۔ وزیر ِ اعظم پاکستان جو کئی دن سے اپنے انٹرویوز، ملاقاتوں اور تقاریر کے ذریعے اقوام ِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر اکٹھے ہوئے دنیا بھر کے لیڈروں کے سامنے انڈین مودی کی حیوانی حرکت کا پردہ چاک کرنے میں مصروف ہے، اگرچہ کامیاب جا رہا ہے اور عالمی سطح پر پزیرائی بھی پا رہا ہے، لیکن انڈیا ایک بڑا ملک ہے جس کے ساتھ اکثر طاقتور اور بڑے ملکوں کے معاشی مفادات وابستہ ہونے کے سبب ابھی متوقع کامیابی سے کچھ فاصلے پر ہے۔

دراصل سابق کئی پاکستانی حکمران بشمول بینظیر بھٹو اور پرویز مشرف اقوام ِ متحدہ میں کشمیر ایشو سے متعلق اپنی شاندار تقاریر اور شمولیت کے باوجود ملک کی اشرافیہ اور ملاّ ازم سے سرزد ہونے والی منفی حرکات اور کرپشن کی بھرمار کی وجہ سے ناکام رہے ہیں۔ عمران خان جو نیویارک میں ہر قابل ذکر شخصیت سے مل رہا ہے اور گزشتہ دنوں ملائشیا کے مہا تیر محمد اور ترکی کے اردوان سے میٹنگ میں اسلام کا حقیقی پیغام دنیا تک پہنچانے کے لیے ایک مشترکہ TV چینل بھی لانچ کرنے کا پلان بنا چکا ہے، وزیر ِاعظم کا منصب سنبھالنے سے بھی پہلے وہ ایک Celebrity کی حیثیت رکھتا بلکہ ویلفیئر، تعلیم اور اسپورٹس کے حوالے سے بھی اپنی پہچان رکھتا تھا، دنیا کے لیڈروں سے ملاقاتوں میں موقف بتانے اور کشمیر ایشو کو اجاگر کرنے میں ناکام نہیں ہو گا۔

پاکستان کے وقت کے مطابق رات آٹھ بجے وزیر ِ اعظم عمران خان نے اقوام ِ متحدہ میں اپنی چار نکاتی فی البدیہہ تقریر میں مختصراً دنیا میں موسمی تبدیلیوں کے منفی اور مضر اثرات، غریب ملکوں کے کرپٹ حکمرانوں کی لوٹی ہوئی دولت دنیا کے امیر ملکوں میں منتقل کرنے کی عادت قبیح کا ذکر کرنے، پھر آنحضرتؐ کے عمل، ارشادات اور طریق کا حوالہ دے کر حقیقی اسلام کا چہرہ سامعین اور دنیا کو دکھانے کے بعد کشمیر کے 80 لاکھ انسانوں کا فسانۂ غم اقوام ِ متحدہ کے فورم سے دنیا کے ایک کونے سے دوسرے تک کے لوگوں کو جس انداز سے سنایا شاید اس سے پہلے نہ کسی نے اس درد اور تفصیل کے ساتھ گزشتہ بہتر سال میں نہ کسی فورم پر بیان ہوا نہ اس توجہ سے سنا گیا کہ اقوام ِ متحدہ کے ہال میں بیٹھے سامعین ہر دو تین منٹ کے بعد اپنی تالیوں کی گونج دنیا کے ہر کونے میں ٹیلیویژن کے سامنے بیٹھے لوگوں تک پہنچاتے رہے۔

وزیرِ اعظم سے ہندوستان کے صوبہ کشمیر میں 55 دن سے 80 لاکھ انسانوں کی جبری قید اور فوج کے بے گناہوں پر توڑے جانے والے ظلم و ستم کی داستان سن کر UNO عمارت کے در و دیوار بھی پھوٹ پھوٹ کر روئے ہوں گے۔ عمران خان کی تقریر کو ضبط ِ تحریر میں لانا تو ممکن نہیں لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اس تقریر کو سننے کے بعد ہندوستان کا کوئی بھی شہری جو انسان کہلانے کے لائق ہے، نریندر مودی پر تنقید پر تیار نہ ہو تو وہ بھی انسان کہلانے کا حقدار نہ ہو گا لیکن یہ بات یقینی ہے کہ آج کے بعد دنیا کا ضمیر ضرور جاگے گا۔ عمران کی تقریر اقوام ِ متحدہ کا ٹیسٹ کیس ٹھہرے گی۔