زمانہ طالب علمی میں دہلی سے شایع ہونے والا بچوں کا ماہنامہ "کھلونا" میرا پسندیدہ رسالہ تھا۔ شروع شروع میں اس کے لیے بچوں کی کہانیاں لکھیں، "علم وادب" اور "تعلیم وتربیت" سیالکوٹ اور لاہور سے ماہانہ شایع ہوتے تھے۔ یہ تینوں اس دور کے بچوں کے مقبول رسائل تھے۔ وقت گزرنے پر "شمع" اور "بیسویں صدی" نے ان کی جگہ لے لی۔ یہ بڑی عمر کے لوگوں کے پسندیدہ رسائل تھے۔
ان رسائل کی مقبولیت کے بعد پاک وہند میں بہت سے نئے میگزینز کی اشاعت شروع ہوئی جو اردو اور انگریزی زبانوں میں تھے۔ بچوں کے رسائل کا دور ختم ہونے پر ایک طویل وقفے کے بعد میں نے اردو اخباروں میں کالم نویسی شروع کی۔ ایک وقفہ اس لیے آیا کہ میرے چیف سیکریٹری محترم پرویز مسعود نے میری Explanation کال کر لی کہ تم سرکاری ملازم ہوتے ہوئے بلااجازت اخبار میں مضامین نہیں لکھ سکتے۔ یہ مشکل مرحلہ طے ہونے میں کچھ وقت لگا۔
کئی سال بعد میں اپنے اسکول فیلو فاروق شاہ سے ملنے فلیٹیز ہوٹل گیا۔ فاروق وہاں منیجر تھا اور ہوٹل میں رہائش پذیر تھا۔ اس نے بتایا اس کے برابر والے کمرے میں جسٹس کارنیلیس رہائش رکھتے ہیں۔ اس کمرے میں وہ مدت سے رہائش پذیر تھے۔ وہیں یہ معلوم ہوا کہ وہ مجرد زندگی گزار رہے تھے، ان کی قابلیت مسلمہ اور شہرت قابل تقلید تھی۔ ان سے فاروق شاہ کے توسط سے نہایت مختصر ملاقات ہوئی لیکن دوسری بار انھیں ڈان باسکو ہائی اسکول راولپنڈی کے لان میں دیکھا ہی نہیں، ایک گھنٹہ تک سنا بھی لیکن اس کا ذکر آگے آئیگا کیونکہ یہاں مجھے جسٹس دراب پٹیل کی یاد آ گئی ہے کہ اگر وہ ازخود مستعفی نہ ہوتے تو چیف جسٹس دراب پٹیل کہلاتے۔
ہوا یوں کہ میں ایک دیہاتی ٹور سے واپس آ رہا تھا، میری جیپ جی ٹی روڈ پر پہنچی تو ایک موٹرکار اور بھینس میں ٹکراؤ ہوتے دیکھا۔ کار کسی جج کی تھی۔ وہاں موجود لوگوں نے بتایا کہ جج صاحب کو ایک کار والا تحصیل اسپتال لے گیا ہے۔ میں تحصیل اسپتال پہنچا۔ وہاں جج صاحب اور ان کا ڈرائیور ڈاکٹر کے پاس بیٹھے کولڈ ڈرنک پی رہے تھے۔ ایکسیڈنٹ کی وجہ سے وہ کچھ پریشان تھے۔ میرا تعارف ہونے پر اس میں کچھ کمی آئی تھی۔ اب ان کو اپنے ہمراہ لے کر جیپ میں خود چلا رہا تھا۔
ہمارے ڈرائیور پچھلی سیٹ پر بیٹھے تھے "اسسٹنٹ کمشنر ہاؤس" کا بورڈ نظر آیا تو مجھے اندازہ ہوا کہ جسٹس دراب پٹیل مزید Relax ہو گئے ہیں۔ وہ اس وقت چیف جسٹس کے بعد سینئر ترین جج تھے اور بہت اچھی شہرت کے حامل تھے۔ گھر پہنچ کر وہ واش روم سے فارغ ہوئے تو میں نے انھیں کچھ دیر کے لیے اکیلا چھوڑ کر ٹیلی فون ان کے پاس رکھ دیا۔ میرے پوچھنے پر انھوں نے کافی کی فرمائش کی۔
مجھے معلوم تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی اپیل انھی کی عدالت میں لگی تھی۔ آہستہ آہستہ میں نے اس کا ذکر چھیڑا لیکن احتیاط کے ساتھ تاکہ میری بات میں جو عدالتی معاملے پر ہو گی اس میں کوئی گستاخی یا Contempt کا پہلو نہ ہو۔ اس موضوع پر بات سے بات بڑھی اور چونکہ مجھے اندازہ تھا کہ وہ بھٹو کو مجرم نہیں سمجھتے تھے۔ میں نے انھیں بتایا کہ لاہور تعیناتی کے دنوں دو بار میری ڈیوٹی لگی کہ عدالت کے دن جب پولیس صبح بھٹو کو لے کر عدالت کے بیرونی لان میں کار کھڑی کرے تو میں انھیں مسٹر عقیل کے کمرے تک لے جاؤں جہاں وہ کافی کا کپ پی کر جسٹس مشتاق کی عدالت میں حاضر ہوتے تھے اور پھر ان کو واپس جیل جانے کے لیے بغیر ان سے کوئی بات کیے روانہ کروں۔ یہ دونوں دن میرے ذہن پر نقش ہیں۔
میں نے جسٹس دراب پٹیل کو بتایا کہ بھٹو صاحب کو نہایت گھٹیا کار میں لایا اور واپس لے جایا جاتا تھا۔ جسٹس پٹیل جنھوں نے اپیل سنی تھی، مجھ سے متفق تھے۔ جج صاحب قریباً ایک گھنٹہ میرے گھر رکے اور ان سے بھٹو ٹرائل کے انسپکٹر ارشد کے معافی نامہ سے لے کر دیگر معاملات تک کی باتیں ہوئیں۔ جج صاحب سے تمام وقت انگریزی میں گفتگو ہوئی۔ انھوں نے اسلام آباد واپسی کا کہا تو میں نے کہا کہ سر آپ کی کار تو Damaged ہے۔
اس پر وہ چونکے تو میں نے کہا "سر جیسے ہی میں گھر پہنچا تو اسی وقت ASP کو ایک کار اور ٹرک بھجوانے کا کہہ دیا تھا" جس پر وہ خوش ہوئے اور روانگی پر مجھے اسلام آباد گھر پر چائے پینے کی دعوت دے دی۔ تین دن بعد مجھے شام 4 بجے اسلام آباد ان کی رہائش گاہ پر چائے کی ٹیلی فون پر دعوت ملی۔ کمرے میں مکمل خاموشی پر پوچھنے پر بتایا گیا کہ وہ مجرد ہیں۔ اگر وہ ازخود ملازمت سے دستبردار نہ ہوتے تو چیف جسٹس پاکستان کے عہدے سے ریٹائر ہوتے۔
چیف جسٹس کارنیلیس صاحب سے میری دوسری ملاقات راولپنڈی کے ڈان باسکو ہائی اسکول میں جہاں وہ ایک تقریب میں Constitutional Muslim کے موضوع پر پیپر پڑھنے آئے تھے، میں نے بحیثیت ڈیوٹی مجسٹریٹ انھیں وہاں خوش آمدید کہا۔ ان کی تقریر کے بعد سوال کرنے کے لیے کہا گیا تو میرے برابر بیٹھی وائس چانسلر ڈاکٹر کنیز یوسف نے ایک کاغذ پر سوال لکھ کر مجھے دیا تو میں نے معذرت کر لی کہ اگر جج صاحب نے مزید وضاحت مانگ لی تو شاید میں اس قابل نہ ہوں کہ سوال وجواب کر سکوں۔ اس کے بعد چند لوگوں کے سوال جواب کے بعد میٹنگ برخواست ہوئی تو میں نے اے آر کارنیلیس صاحب کو ان کی کار تک چھوڑا۔ یہاں میں ڈاکٹر کنیز یوسف کے کاغذ پر لکھ کر مجھے دیے سوال کا ذکر کر دوں۔
چند روز قبل ملک کے قابل ترین، دیانت وامانت میں یکتا عدلیہ کے دو ججز سے ملاقاتوں کی یاد آئی تو میرے قلم نے کہا چل مرے خامے بسم اللہ۔