جعلی پولیس مقابلے ساری دُنیا میں ہوتے ہیں البتہ ہمارے ملک میں بعض پولیس افسر اور حکمران اس فعل ِ بد کی خاص شہرت و مہارت رکھتے ہیں۔ چند روز قبل اخبار اور ٹیلیویژن نے خبر دی کہ 2 دسمبر2019 کو محمد خاں محسود طویل علالت اور کینسر کے مرض کے باعث CMH راولپنڈی میں انتقال کر گیا ہے۔
زندگی اور موت تو ایک حقیقت ہے اس لیے محمد خاں محسود کی موت بھی حکم ِ الٰہی کے نتیجے میں ہو گئی جس میں کوئی غیر معمولی بات نہیں لیکن ملک کے چیف آف آرمی اسٹاف نے محسود کی رحلت پر جو بطور ِ خاص اظہار ِ افسوس کیا اور اس کے لیے جنت الفردوس کی دُعا کی اس کی خاص وجہ تھی۔
محمد خاں محسود کابیٹا نقیب اللہ محسود جس کی عمر 27 سال تھی، اپنے گاؤں سے کراچی آ کر مزدوری کر رہا تھا۔ اس کی دو بیٹیاں تھیں اور ایک بیٹا جو گاؤں ہی میں ماں کے پاس رہتے تھے۔ نقیب اللہ کئی خوبیوں کا مالک تھا۔ خوش شکل تھا، اور اس کی وڈیو فوٹوز اور چہرے کے پوز بتاتے ہیں کہ اس میں ایک کامیاب ایکٹر بننے اورکیریکٹر رول کرنے کی صلاحیت تھی۔ کراچی میں اُس نے کپڑے کا بزنس پلان بنا رکھا تھا جس کے لیے سُہراب گوٹھ میں ایک دکان بھی کرائے پر لی ہوئی تھی۔
تین جنوری2018 کو سفید کپڑوں میں ملبوس افراد نے نقیب ُاللہ اور اُس کے دو دوستوں حضرت علی اور محمد قاسم کو سُہراب گوٹھ کے ایک ہوٹل سے اغوا کر لیا۔ اغوا کرنے والوں کے بارے میں یہ باتیں پھیلیں کہ وہ اس وقت کے ایک پولیس افسر راؤ انوار کے آدمی تھے۔ نقیب کے دونوں دوستوں کو تو چھوڑ دیا گیا لیکن 13 جنوری کو اُسے حراست میں رکھنے اور تشدد کرنے کے بعد تین دوسرے افراد صابر، اسحٰق اور نذر جان سمیت جعلی (Fake) پولیس مقابلے میں مار دیا گیا۔
نقیب اللہ کے قتل کو اب دو سال کا عرصہ ہونے کو ہے۔ اس ظالمانہ قتل کا محرک کیا تھا، ایک بات تو تفتیش سے پتہ چل چکی کہ وہ نہ کسی دہشت گرد تنظیم کا رُکن تھا نہ کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوّث تھا۔ نقیب کا ملزم گرفتار بھی ہوا لیکن اب آزاد ہے۔ اس کی حرکات اور روپوشی کی رپورٹنگ اخبارات کرتے رہے ہیں۔ قتل کے بعد احتجاج اور ہنگامے ہوتے رہے۔ صاحبان ِ اقتدار و اختیار انصاف دلانے کے وعدے کرتے رہے، اب بدنصیب نقیب اللہ کا والد خود مٹی تلے دفن ہے جب کہ مقتول کی بیوہ یتیم بچوں کے ساتھ چُپ ہے۔
انصاف دلانے کا وعدہ کرنے والے بھی اب خاموش ہیں۔ ہیومن رائٹس کے علمبرداروں کے جھنڈے بھی سرنگوں ہیں۔ اس جعلی پولیس مقابلے میں نقیب سمیت چار نوجوان قتل ہوئے تھے۔ پولیس نے ان چاروں کے خلاف دہشتگردی کے مقدمات قائم کر کے اپنی بریت کا جواز پیدا کیا ہوا تھا لیکن انسداد ِ دہشت گردی کی عدالت نے پولیس کا مقدمہ خارج کر کے چاروں کو بے گناہ ڈکلیئرکر دیا ہوا ہے۔
معلوم نہیں کہ اب تک مذکورہ چار قتلوں کے حوالے سے کیا کارروائی ہوئی ہے۔ جس با اختیار انکوائری کمیٹی نے نقیب ُ اللہ اور اس کے ساتھ مارے جانے والے تین نوجوانوں کو بے قصور قرار دیا، اس نے قصور وار پولیس افسر اور دوسرے قاتلوں کے بارے میں بھی تو کوئی Recommendation دی ہو گی۔ اس پر عمل درآمد ہوا یا وہ ابھی تک سرد خانے میں پڑی ہے۔
جعلی پولیس مقابلے تو ایک طرف جھوٹے اور جعلی مقدمات میں بھی ہم کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ عدالتوں میں زیر ِ سماعت نصف سے زیادہ مقدمات تو دوران ِ تحقیق و تفتیش ہی فریقین کی قوت ِ بازو کا شکار ہو جاتے ہیں اور جو بچ کر جج یا مجسٹریٹ صاحب کے اسٹاف یا خود عدالت کے نرغے میں آ جائیں وہ Adjournments کی مار کھا کھا کر مہینوں اور سالوں کی گنتی تک بھول جاتے ہیں اور جو فریق حق سچ پر ہو، وہ سجدے میں چلا جاتا یا ذہنی مریض ہو جاتا ہے۔
سول فوجداری اور ریونیو کے بعد اب NAB تفتیش اور اکاؤنٹبلٹی عدالتوں نے مقدمات کا بوجھ خود پر لے لیا ہے اور نیب تو ٹھہری بے عیب کیونکہ اس کی عدالت بے قصور کو بھی چھوڑ دینا گناہ ِ کبیرہ گردانتی ہے۔ نیب کی گرفت میں آ جانے والے کیس مہینوں، سالوں تک Remands کی مار کھا کھا کر اگر تفتیش کے بعد عدالت میں ٹرائیل کے لیے پہنچ جائیں تو بھی معزز جج اپنی تین تین سال کی معیاد پوری کر کے ٹرانسفر ہوتے رہیں گے لیکن مقدمے کو فیصلے کا دن دیکھنا نصیب نہیں ہو گا۔ اس کی ایک وجہ Evidence مکمل نہ ہونا ہوتا ہے۔ ان عدالتوں میں گواہوں کا کئی کئی سال تک پیش نہ ہو سکنا، بیان کیا جاتا ہے جب کہ کوئی عدالت زیر ِدفعہ 265K ملزم کو بوجہ عدم ثبوت بھی Acquit کرنے پر تیار نہیں ہوتی۔ اگر کوئی اعلیٰ عدالت کا جج نیب کے ججز کی ماہانہ کارکردگی ملاحظہ کرے تو اس پر حیرت انگیز انکشاف ہوں گے کہ فیصلوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ملے گی۔
دو سال کا عرصہ گزر چکا۔ کیس ہر لحاظ سے واضح اور مکمل ہے، لیکن نقیب اور اس کے تین ساتھیوں کا مقدمہ منتظر ِ فیصلہ ہے۔ نقیب کا والد تو فیصلے کا انتظار کرتے کرتے خود ہی راہی ملک ِ عدم ہو گیا۔ معاملہ صرف ایک نقیب اللہ کا نہیں الحمد للہ ہمارا نظام فوری انصاف کی اصطلاح کے نام اور اصول ہی سے اتفاق نہیں کرتا۔