سیاست کا انگریزی ترجمہ ہے، کسی ملک کے حکومتی معاملات سے متعلق امُور اور اُن سے نمٹنے کے طریقہ ہائے کار اور اصول۔ لیکن ہمارے ملک میں اب Politics گھس گئی ہے، گھروں، دفتروں، ذاتی تعلقات، کاروبار، تعلیمی اداروں اور دینی مُعاملات میں بلکہ اسپورٹس میں بھی۔ ایک میاں بیوی اپنے ذاتی تعلقات میں بھی ہیرا پھیری کی سیاست کرنے کا کھیل کھیلتے رہتے تھے۔
ایک شام میاں بن ٹھن کر گھر سے نکلنے لگا تو بیوی نے پوچھا "کدھر چلے" وہ کاروباری آدمی تھا، کہنے لگا بیرون ِ ملک سے بزنس پارٹی آئی ہے، ان کے ساتھ میٹنگ ہے، کم از کم تین گھنٹے لگیں گے۔ وہ صاحب چلے گئے چار گھنٹے کے بعد بیگم نے فون کیا اور صاحب سے کافی دیر کے بعد کال ملی تو پوچھا "واپسی کب ہو گی اب تو تین گھنٹے سے بھی زیادہ وقت ہو گیا"۔
انھوں نے گھبراہٹ میں جواب دیا یہاں شدید قسم کا ٹریفک جام ہے، مزید دو گھنٹے لگ سکتے ہیں۔ بیگم نے کہا "ذرا گاڑی کا ہارن تو بجائیے"۔ اُدھر سے ٹیلیفون بند ہو گیا۔ بیگم نے دوبارہ فون ملایا تو جواب آیا کہ " اس وقت فون بند ہے"۔ صاحب اگر کار میں ہوتے تو تبھی ہارن بجاتے۔ دراصل یہ سیاست نہیں تھی خباثت تھی۔ ہمارے ہاں سیاست کی یہ قسم رواج پاتی جا رہی ہے اور پھر اس کی بھی کئی قسمیں ہیں جن کا انگریزی زبان کی Politics سے دور کا بھی تعلق نہیں۔
ہمارے ہاں بھی آزادی کے بعد 73 سال سے ملکی سیاست زبردست بلکہ بد بخت اُتار چڑھائو کا شکار ہے۔ کبھی سول تو کبھی آرمی سیاست کے ایوانوں میں دیکھی جاتی ہے۔ ایک سے ملکی حالات نہیں سنبھلتے، تو دوسرا ملکی باگ ڈور کی باری لینے آ جاتا ہے اس طرح یہ حالات ڈانواں ڈول چلے جا رہے ہیں۔ یعنی ہمارے مقدر کی کشتی کبھی طوفانوں، کبھی سوکھے دریائوں، کبھی بگولوں، کبھی ہموار تیز رفتار لہروں کبھی خوش نما ساحلوں، کبھی گہری دلدلوں سے گزر کر بہر حال چلے جا رہی ہے اور ہم اُمید کا دامن تھامے کنارے لگنے کے لیے کسی سہانی صبح کے منتظر ہیں۔
عجب اتفاق کہ ہم قدم اُٹھائے بغیر منزل پا لینے کے امیدوار اور اس سے زیادہ خوش فہمی میں مبتلا ہیں۔ بات سیاست سے چلی تھی جو سیاست دانوں کے روز مرہ اور پھر فطرت میں داخل ہو کر ہمیں اشرف المخلوق کے منصب سے گرا کر بد کرداروں میں شامل کرنے کے درپے ہے۔ یہاں سے میں تحریر کا رُخ مطلوبہ موضوع کی طرف موڑتا ہوں۔ انسان تنہائی پسند نہیں Social Animal ہے۔ گھروں، گلی، محلوں میں رہتے ہوئے دوستوں، ساتھیوں، ہم نفسوں، ہم خیالوں اور گروہوں میں زندگی گزارتا ہے۔ دیہات میں ان کا اکٹھ ڈیروں پر ہوتا ہے۔
لوگوں کے مکانوں کا ایک کمرہ کبھی بیٹھک کہلاتا تھا، پھر گھروں سے باہر ہمارا انگریز حکمران ہمیں ایک کلب نامی بیٹھک سے مُتعارف کرا گیا۔ ہندوستان آ کر حکمرانی کی تو ولایت سے آئے ساتھیوں سے مل بیٹھنے کے لیے انگریز نے یہاں کے بڑے اور اہم شہروں میں مرکزی جگہ پر ایک عمارت میں سوشل لائف کی غرض سے Club بنائیں۔ ان میں ملنے، بیٹھنے، کھانے، پینے، انڈور اور آئوٹ ڈور Sports یعنی ٹینس، سوئمنگ پول، بلیئرڈ اور لکھنے پڑھنے کے لیے لائبریری کا اہتمام کیا۔
پاکستان کے حصے میں آئے بڑے شہروں کے ڈیرے جمخانہ کلب کہلائے۔ کراچی اور لاہور کے کلب یعنی جمخانے رات دیر تک آبار دہتے ہیں۔ لاہور، کراچی، اسلام آباد کے کلبوں کا انتظام اُن کے منتخب کمیٹی ممبران کرتے ہیں۔ لاہور جمخانہ کلب جس کا آیندہ الیکشن یکم فروری 2020 کو ہو گا 1941 کو موجودہ جناح پارک کی عمارت میں قائم ہوا۔ اس کے پہلے چیئرمین جسٹس منرو اور جسٹس بلیکر تھے۔ جب کہ پاکستان کے قیام کے بعد پہلے جج یعقوب علی خاں 1954میں چیئرمین منتخب ہوئے۔ میرے کئی سینئر کو لیگ بھی چیئرمین رہے۔ گزشتہ دو ٹرمز سے قبل اس کی کمیٹی آف مینجمنٹ کا الیکشن ایک سال کے لیے ہوتا رہا۔ اگر کلب سیاست سے پاک ہو گئی تو COM کا دورانیہ پھر ایک سال ہو جائے گا۔
موجودہ مستقل ممبرز کی تعداد ساڑھے پانچ ہزار ہے، اس لیے الیکشن میں کامیاب ہونے کے لیے ہر ممبر کو ایک ہزار سے زیادہ ووٹوں کی ضرورت ہو گی۔ اس وقت میٹنگز، ہائی ٹی، لنچ اور ڈنرز کے علاوہ Messages کی بھر مار ہے۔ اسی شاہ خرچی سے بچنے کے لیے میں، جاوید اقبال، ڈاکٹر جواد اور مصباح الرحمٰن کے اصرار پر اس بار امیدواری سے دستبردار ہو گیا ہوں۔ اگرچہ 13 سال قبل بغیر خرچ کیے مجھے ساڑھے چھ سو ووٹ مل گئے تھے۔ اُس الیکشن میں مجھے ایک دوست کا ٹیلیفون آیا کہ کہاں ہو، میں نے جواب دیا گولف کھیل رہا ہوں۔ وہ غصے سے بولا "پرسوں الیکشن ہے اور تم اتنے Non-serious ہو کہ دوستوں سے ووٹ کا کہنے کے بجائے گولف کھیل رہے ہو "۔ اس وقت جواد، مصباح اور لاشاری گروپ برسر ِ پیکار ہیں۔ ڈاکٹر جواد، مصباح الرحمن، پرویز بھنڈارہ اور کامران لاشاری نے گزشتہ الیکشن میں بھی بہت ووٹ لیے تھے۔
آج گولف کورس کے برآمدے میں ایک جج صاحب سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے کہا دیکھو کلب کی شکل ہی بدل گئی ہے۔ کلب میں داخل ہوں تو معلوم ہوتا ہے کسی فائیواسٹار ہوٹل کے سامنے کھڑے ہیں۔ Shoppe اب لندن کی بیکری ہے۔ ٹینس کورٹ کے برابر بار بی کیو نیا بنا ہے۔ داخل ہوں تو دائیں بائیں مہمانوں کے لیے شاندار صوفہ سیٹ، آگے بڑھیں تو کارڈ روم پھر Royal Banquet Hall، بائیں Rest Room، ، آگے بائیں Thai Chin پھر Veranda اوپر Candni Cafe اور Chandni Lounge، آگے Sunset Terrace پھر Cafe9 پرانا Hole19 اب Bunker ۔ یہ تمام کمرے اب Re Do کیے گئے ہیں اور جس نے یہ جمخانہ تین سال پہلے دیکھا اس کی موجودہ شان و شوکت دیکھ کر ششدر رہ جاتا ہے۔ کمروں کے داخلوں پر تمام بورڈ نئے اور انگریزی میں ہیں۔ اس کلب کا Gym۔ گولف کورس، گیسٹ رومز، سوئمنگ پول، لائبریری اور ان ڈور گیمز کے اندرون حصوں پر بھی آرکیٹکٹ نے خاص توجہ دی ہے۔ غرضیکہ تین سال میں کلب کے اندر اب متعدد Eaterees ہیں جو ممبرز سے زیادہ مہمانوں سے بھری رہتی ہیں۔