اذان نمازیوں کو آواز دیتی ہے کہ وقت نماز شروع ہونے کو ہے، سننے والو جہاں بھی ہو آ جائو۔ ہمارے ملک میں ان گنت مساجد ہیں لیکن استنبول کی دو سال کے دوران چار Visits کبھی نہیں بھلائی جا سکتیں جب کہ وہاں کے موذنوں کی آواز آج بھی حس سماعت سے ٹکرا کر پورے بدن میں اتر جاتی ہے۔ ہمارے یہاں کے موذن بھی یقیناً اپنی طرف سے دل کی گہرائیوں سے ادائیگی کرتے ہوں گے لیکن اچھی آواز بھی خدائی نعمت ہے جس کا مسجد میں استعمال استنبول کے علاوہ بہت کم جگہوں پر اس قدر مسحور کن پایا۔
کچھ عرصہ سے ترکی کے ٹیلیویژن ڈرامے پوری اسلامی دنیا میں بے حد مقبول ہیں۔ یہ ڈرامے ترکی کی تاریخ اورثقافت کا شاہکار ہیں۔ پاکستان کے آرٹسٹوں نے ان کی بہت اچھی Dubbing کی ہے۔ ڈائیلاگ اور گفتگو میں چہرے اور ہونٹوں کا بڑی محنت سے استعمال ہونے کی وجہ سے بہترین جاذبیت پیدا ہو جاتی ہے۔
کچھ روز قبل ان کے ایک ٹی وی ڈرامے "ارتغرل غازی" کا ہیرو پاکستان آیا تو اس کی بے حد پذیرائی ہوئی، ایک وقت تھا جب سینما ہائو سزاور ٹیلیویژن کی اسکرین آن رہتی تھیں جب کہ سینما ہائوس بھرے ملتے بلکہ میں نے خود فلم کے پہلے دن ٹکٹ Black میں فروخت ہوتے دیکھے اور اکثر سنا کہ ہمارے TV ڈرامے دیکھنے کے لیے انڈیا کے اسٹور رات جلد بند ہو جاتے تھے اور اب ہمارے سینما ہائوس سنسان رہتے ہیں اور ٹی وی چینل PDMاورPTI کی سیاسی گالم گلوچ اور الزام تراشیوں کے مقابلوں اور ہنگاموں کی نشریات دکھا سنا کر ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ میں شامل ہیں۔
عمران خان اور ان کے ترجمانوں کی وہی گردان کہ این آر او نہیں دوں گا جب کہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن ٰکے بے معنی خطبات، مریم نواز کی دھمکیوں اور ممبرانِ اسمبلی کے استعفوں کی تکرار اور بلاول زرداری کے گھسے پٹے جملوں کی گونج ناظرین و سامعین کی کورونا وائرس خوفزدگی میں اضافہ کرتے رہتے ہیں جب کہ دوسری طرف PTI کے پانچ چھ جو ان اپنے سر براہ کی غلطیوں کی پردہ پوشی میں مصروف اور PDMکے اصل پس پردہ سربراہان کے سچے جھوٹے کرپشن کے بھانڈے پھوڑتے سنے جا سکتے ہیں۔
اس موضوع پر مزید کچھ نہ بھی کہا جائے یہاں PDM کے سر براہ کا صرف یہ بیان کافی ہو گا "یہ حکومت غیر اعلانیہ مارشل لاء ہے"۔ پیپلز پارٹی کے چیئر مین کا بھی روزانہ" کرپٹ مافیا اب بچ نہیں پائے گا۔"
بات چلی تھی پاکستان کے دوست ملک ترکی کے TV ڈراموں کی مقبولیت سے اور ذہن میں تھے ترکوں کے باپ " اتا ترک" مصطفیٰ کما ل پاشا اور صدر طیب اردوان جو موجودہ صدر ہیں۔ عثمانی ترکوں نے چھ سو سال تک حکومت کی۔ ان کے بادشاہوں نے خود کو لازوال رکھنے کی بہت کوشش کی لیکن ان کی عظیم سلطنت عثمانیہ ہی اپنے منطقی انجام سے دو چار ہو گئی۔ انھیں شاید یاد نہیں رہا تھا کہ سدا بادشاہی تو صرف خالقِ کل کی ہے۔ ہر عروج را زوال۔ ہم نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی لگتے دیکھا۔ جنرل ضیاء الحق کے ہوائی جہاز کو گرتے دیکھا اور نواز شریف اور آصف علی زرداری کو مقدمات بھگتے بھی دیکھا۔ اب عمران خان کا مستقبل کیاہوگا، اسے دیکھنا باقی ہے۔
بلا شبہ اس وقت امریکا سپرپاور ہے۔ ہمارے اپنے ملک کے افراد اور بطور خاص نوجوان تعلیم، روزگار اور سکونت کے لیے اس ملک کو ترجیع دیتے ہیں لیکن گزشتہ چند ماہ سے ریپبلکن پارٹی کے صدر نے دوسری ٹرم کا الیکشن ہارنے کے بعد بلکہ دوران الیکشن ہی جو طرزِ عمل اپنایا اس پر ساری دنیا میں تو بدنامی کمائی خود اپنی پارٹی میں بھی نہ صرف پھوٹ ڈال دی بلکہ خود کو بھی امریکی صدر کے عہدے کو چھوڑ یئے کسی کم تر عہدے کے لیے بھی نا اہل بلکہ قابلِ ذلت کی کیٹیگری میں ڈال کر پارٹی اور ملک کو بھی بدنامی کے گڑھے میں دھکیل دیا ہے۔
اب جب کہ اس کے مواخذ ے کا عمل بھی شروع ہو چکا ہے جس میں اس کی اپنی پارٹی کے افراد بھی اس کے خلاف ووٹ دے رہے ہیں تو یہ حقیقت ہر کسی پر عیاں ہو گئی ہے کہ ہر عروج کو ایک دن زوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یاس یگانہ چنگیزی کا یہ شعر یاد آگیا۔
خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا
پاکستان کی بر سرِ اقتدار پارٹی اور حزبِ اختلاف کے درمیان ان دنوں الزام جو ابِ الزام کی لفظی جنگ عروج پر ہے۔ شاید انھیں اندازہ نہیں کہ وہ اچھا نہیں کر رہے۔ ملک کے عوام کے لیے نہ ہی اپنے لیے اور تیسری بات کہ وہ دنیا میں بھی اپنا امیج خراب نہیں بلکہ برباد کر رہے ہیں لیکن ہمارے مذکورہ بالا دو فریق تو ساری دنیا کے سامنے ایک دوسرے کے بارے میں وہ کچھ کہتے سنے اور پڑھے جاتے ہیں جو کسی بھی مہذب ملک کے لیے باعثِ ذلت ہے۔ دشمن ملک تو ہماری ان حرکات پر تو تالیاں بجاتے ہوں گے۔