ان دنوں پاکستان میں ترکی کی ٹی وی سیریل بہت مشہور ہے۔ ترکی ڈراموں کی تو ایک بات لیکن حسینہ معین بہت اچھی ڈرامہ نویس ہیں، اگرچہ مختلف موضوعات پر امجد اسلام امجد کے "وارث" اور "سمندر" نہیں بھلائے جا سکتے۔ یونس جاوید کا "اندھیرا اُجالا " بہت مقبول ہوا۔
منوں بھائی کا ایک ڈرامہ "سونا چاندی " روتوں کو ہنسانے کے لیے کافی ہوتا تھا۔ دراصل میں ترکی کا ذکر کرتے ہی بھٹک گیا۔ مجھے یاد آ رہا تھا، چند سال قبل دو سال کے عرصے میں چار بار جبران کے پاس استنبول جانا ہوا اور اس کا ہمیں عہد ِ عثمانیہ کے آخری ہیرو مصطفیٰ کمال پاشا کے مزار، رومی بمقام کونیا سے انقرہ لے جانا۔ یوں تو ہم کئی معروف مقامات پر گئے لیکن "اتا ترک " یعنی ترکوں کے باپ کے مزار کے قریب کھڑے ہو کر دُعا کرنا الگ اہمیت کا حامل تھا۔
پاشا کی یاد زندہ رکھنے کے لیے نہ صرف اس کی زیر ِ استعمال عینک سے لے کر قلم تک بلکہ اس کی جدوجہد سے متعلق کئی یادگاریں اس میوزیم نما عمارت میں موجود ہیں۔ اس عمارت میں پورا دن گزاریں تو مصطفیٰ کمال پاشا کی زندگی کے اوراق کھلتے چلے جاتے ہیں۔ 1980میں متوسط گھرانے میں جنم لینے والے پاشا نے عہد ِ عثمانیہ میں اپنے کیرئر کا آغاز فوج میں ملازمت سے کیا۔
جب جنگ عظیم اوّل ختم ہوئی تو انھوں نے جنگ آزادی میں اپنی بھرپور صلاحیتوں کے باعث انقرہ میں جہاں ان کی یادگاری عمارت ہے، صوبائی حکومت قائم کر کے اتحادی فورسز کو ترکی سے نکال باہر کیا جس کی کامیابی ترکی کی جنگ میں فتح کہلائی جسکے نتیجے میں ترکی کو جنگ آزادی میں فتح نصیب ہوئی۔ ملک ریپبلک آف ترکی کہلایا اور مصطفیٰ کمال اس کے پہلے صدر بنے۔
پاشا نے ملک کو جدید سیکولر اور جمہوری بنیادوں پر مستحکم کرنے کا بیڑہ اُٹھایا۔ تعلیم لازمی اور مفت قرار دی گئی۔ مرد و زن کو برابر کے حقوق دیے گئے۔ کئی قسم کی ریفارمز کی بنیاد رکھی گئی۔ ان کی آزاد خیالی کی وجہ سے ان کے بارے میں کئی قسم کی غلط فہمیاں بھی پھیلائی گئیں لیکن ان مخالفانہ الزامات سے قطع نظر ان کا مقصد اوّل ملک کی ترقی اور عوام کی تعلیم تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ترکی طاقت، معیشت، تعلیم، ڈسپلن، اخلاق اور ٹوررزم کے حوالے سے ترقی کی طرف گامزن ہے۔
ہر شخص جو بیرون ِ ملک جاتا ہے اس کی اوّل ترجیح کسی نئی اور مخصوص چیز کی خریداری ہوتی ہے۔ اگرچہ استنبول کی ہر مارکیٹ اشیائے ضروی سے بھری ملتی ہے لیکن پندرہ ممالک کی سیر و سیاحت کے باوجود گرینڈ بازار استنبول کا انوکھا بازار ہے۔ جن کے 22 داخلے کے راستے ہیں، اس کی 64 گلیاں ہیں جس میں تین ہزار سے زیادہ دکانیں ہیں۔ آپ ایک گروپ کی شکل میں اس کے اندر داخل ہوں، گھومنے کے دوران آپ کا ایک ساتھی نظروں سے اوجھل ہوا تو سمجھئے گم ہو گیا۔
اس کا بہترین حل یہ ہے کہ دو تین گھنٹے کا وقفہ دے کر کوئی دوبارہ ملنے کی جگہ گرینڈ بازار میں داخل ہونے سے پہلے ہی مقرر کر لیں۔ اس بازار میں خریدنے، کھانے، پینے، پہننے، تحفے دینے، قسم قسم کے زیورات بلکہ جو کبھی نہیں دیکھیں وہ چیزیں بھی ملیں گی۔ انوکھی لائٹس اور سجانے کی چیزیں بھی نظر آئیں گی۔ حلوے کی ورائٹی بھی اور ایسے ٹیبل لیمپ بھی جو اور کسی ملک میں نہیں ملیں گے۔ افسوس کہ میرے پاس ڈائری اور پین نہیں تھے کہ ان چیزوں کے ٹرکش نام بھی لکھ لیتا۔
اس ملک کی تاریخ ہزار سال قبل مسیح کی ہے جب کہ استنبول کے تاریخی نوادرات دیکھتا اور سیرو تفریح کرتا ایک افسردہ اور عاجز شخص بھی جیتے رہنے اور غم و غصے سے آزاد ہو کر اپنے اندر خوشیوں کا ہجوم دریافت کر لے گا۔ اگرچہ مجھے چار بار استنبول میں دو دو ہفتے قیام کا موقع ملا لیکن دل نہیں بھرا اور پانچویں وزٹ کا منتظر ہوں۔ آیا صوفیہ چرچ جس کی تاریخ 536 عیسویں ہے، پہلے حاجیہ صوفیہ کہلاتا تھا اور فن ِ تعمیر کا نادر نمونہ ہونے کی وجہ سے Byzantine شہنشاہ کو بھی حیرت میں مبتلا کر گیا تھا۔
توپ کاپی محل کی تعمیر پندرہویں صدی میں باسفورس کے کنارے ہوئی۔ اس میں عثمانی شہنشاہوں کی رہائش ہوتی تھی جن کا دَور انیسویں صدی تک رہا۔ یہ زبردست اسلامی فن ِ تعمیر کا نمونہ ہے جس کا ٹائلوں پر دستی پینٹ ورک قابل دید ہے۔ سن 1609سے 1616 عیسویں کے عرصہ میں تعمیر ہونے والی چھ میناروں والی مسجد جس میں ہزاروں ٹائلوں کا استعمال ہوا ہے۔ اس کا نام Blue Mosque ہے۔ عہد ِ عثمانیہ کے نامور آرکیٹکٹ Sinan کی تعمیر کردہ شاندار سلیمانیہ مسجد1549-75 میں بنی۔
استنبول کا Archaeology Museum توپ کاپی پیلس کے قریب ہے جس میں ترکی اور مڈل ایسٹ کے نوادرات کی نمائش دیکھی جا سکتی ہے۔ سپائس بازار استنبول کا خشک میوہ جات سے لدا اور گاہکوں سے بھرا ایسا بازار ہے جہاں سے ہر سیاح کھانے کے لیے قسم قسم کے خشک پھلوں کی خریداری کرتا ہے۔ استنبول کا میوزیم، رستم پاشا مسجد، گلاٹا ٹاور، کارپٹ ٹاور، فاتحی مسجد مشہور عمارات ہیں۔
اس وقت پاکستان کے دوست ممالک میں سرفہرست ترکی، ملائشیا، اور چین ہیں۔ استنبول کی مساجد میں وقت مقررہ پر بیک وقت اذانوں کی آوازیں آتی ہیں۔ ان کے موّذن اتنے خوش الہان ہیں کہ انھیں سنتے ہی مسجد چلے جانے کو دل چاہتا ہے۔ کاش ہمارے ہاں بھی اتنے ہی پابند وقت اور خوش الہان موّذن ہوں جن کی آواز دل میں اُتر کر سننے والے کے قدم مسجد کی طرف پھیرنے کا باعث ہو۔