جب ابتدائے آفرینش کے وقت انسانوں نے کرئہ ارض پر رہنا شروع کیا تو ان میں جو بھی طاقتور ترین ہوتا وہ دوسروں کو اپنے زیر ِ سایہ رکھنے، اُن سے مفاد اُٹھانے اور اقتدار میں رہنے کے لیے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ہر دوسرے کو زیر ِ نگیں کرتا اور ان پر حکومت کرتا۔ یہ سلسلہ صدیوں تک چلا تاآنکہ انھوں نے ایک طرح سے ڈکٹیٹر شپ سے حکومت چلائی جس میں زیادہ جسمانی طاقت ہوتی وہی حکمران ہوتا اور دوسرے علاقوں کو بھی کنٹرول کرتا۔
انسان کو اسے پیدا کرنے والے نے جسمانی طاقت کے علاوہ ذہنی اور رُوحانی صلاحیتیں بھی عطا کی ہیں جن کے استعمال سے اُس نے بہتر حالات میں رہنے کے لیے سوچنا شروع کیا جسکی مدد سے اُس نے زور ِ بازو کے علاوہ علم اور عقل کا استعمال کرنا شروع کر دیا۔ یہ سلسلہ طویل عرصے تک چلا تاآنکہ موجودہ طریقوں کا استعمال ہونے کے نتیجے میں جمہوری طرز ِ حکمرانی کے اصول ان پر آشکارہوئے۔
اگرچہ طاقت کا خمار اب بھی دنیا کے بہت سے لوگوں میں موجود ہے جو دوسرے انسانوں کو زیر نگیں رکھنے کا ذریعہ ہے لیکن وہاں بھی بتدریج علم اور انسانی برابری کے اصولوں پر کافی حد تک عمل درآمد ہونا شروع ہو چکا ہے لیکن اس تمام علم و آگہی کے باوجود بھی جمہوری طریق سے اقتدار حاصل کرنیوالے حکمران اب بھی اقتدار سے چمٹے رہنے کے طریقے تلاش کر لیتے ہیں۔
ہمارا ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے لیکن 73 سال میں تین بار فوج نے اقتدار پر قبضہ کیا۔ ملک میں 1958 سے 1971 تک ملٹری رول قائم رہا۔ پھر 1977 میں جنرل ضیاء الحق 11سال برسراقتدار رہا۔ یحییٰ خان کی حکومت میں مشرقی پاکستان الگ ہوا۔ تیسری بار جنرل پرویز مشرف نے Coup کیا اور اس نے 9سال تک حکومت کی جس کا دورانیہ 1999 سے 2008 تک رہا۔ یوں پاکستان میں 33 سال سے زیادہ عرصہ یعنی قریباً نصف مدت آمریت رہی۔
برطانوی حکومت سے آزادی کے بعد پاکستان اور بھارت معرض ِ وجود میں آئے لیکن پاکستان ہی میں کیوں بار بار آمر اقتدار میں آتے رہے اور اس کا دورانیہ 33 سال سے زیادہ رہا۔ نتیجہ نکالیں تو دو ہی وجوہ سامنے آتی ہیں۔ ایک سویلین حکمرانوں کی نا اہلی اور دوسری آ مروں کی حرص ِ اقتدار۔
مشرقی پاکستان کی مغربی پاکستان سے الگ ہونے کی وجہ بھی فوجی اور سویلین حکمرانوں کی نا اہلی اور مشرقی پاکستانیوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنا ٹھہرتی ہے اور اب مشرقی پاکستان جو بنگلہ دیش کہلاتا ہے تعلیمی و معاشی لحاظ سے پاکستان پر سبقت لے جا چکا ہے۔ ان کی طرف سے نہ کوئی ہمارے ہاں آتا ہے نہ ہمیں بلاوا ہی آتا ہے۔ بنگلہ دیش کے ساتھ ثقافتی تعلقات بحال ہو سکتے ہیں لیکن زیادتیوں کی تلافی کے لیے معافی نہیں تو معذرت کا طریقہ اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں، اس کے لیے عمران خان کو رستہ تلاش کرنا چاہیے۔
سن 1969 کا ذکر ہے ایک صاحب ملنے آئے اور کہا کہ آپ کس روز ڈنر پر آ سکتے ہیں۔ جنرل رانی آپ کی میزبان ہوں گی۔ میں نے کہا کہ میری تعیناتی گجرات میں چند روز قبل ہوئی ہے، اگلے ہفتے بتائونگا۔ میں نے پوچھا، اب خواتین کی پروموشن جنرل لیول تک ہو جاتی ہے۔ انھوں نے مسکرا کر جواب دیا ایسا ہی سمجھئے۔ ان کے جانے کے بعد میں نے اپنے سینئرکولیگ سے مشورہ کیا تو اس نے ہنس کر جواب دیا، چلے جانا Risk will be yours۔ وہ صاحب دوبارہ آئے تو میں نے بہانہ کرتے ہوئے معذرت کر لی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ جنرل یحییٰ سے قریبی تعلقات کی وجہ سے وہ جنرل رانی کہلاتی تھی اور اس کا نام دراصل اکلیم اختر تھا۔ ایم آر عنایت صاحب دورے پر آئے تو میں نے کمشنر صاحب سے واپس راولپنڈی تبادلے کے لیے درخواست کی۔ انھوں نے جواب دیا، ایک سال کے بعد یاد کرانا مجھے۔
کمٹمنٹ مجسٹریٹ کی ڈیوٹی کے دوران قتل کے مقدمات میں گواہان استغاثہ اور صفائی کے گواہوں کے بیانات قلمبند کرنے اور ملزمان کے بیان ریکارڈ کر کے کیس ٹرائیل کے لیے سیشن سپرد کرنا ہوتا تھا۔ ان دنوں تمام بیانات ہاتھ سے لکھنے ہوتے تھے۔ کمپیوٹر یا سٹینوگرافر کی سہولت نہ تھی۔ میرے پاس قتل کے اکثر مقدمات میں حکیم چراغ ایڈووکیٹ ملزمان کی طرف سے پیش ہو کر گواہ پر طویل جرح کرتے جو آٹھ دس صفحات پر مشتمل ہوتی۔ ان مقدمات کے بیان ہاتھ سے قلمبند کرنے سے حکیم چراغ کی وجہ سے میری لکھائی متاثر ہوئی، بعد میں Commitment Magistrate والا طریق کار ختم کر دیا گیاجو قتل کے مقدمات میں تاخیری فیصلوں کا سبب بنا لیکن ایم آر عنایت صاحب نے میرا گجرات سے پورے ایک سال بعد راولپنڈی تبادلہ کر یا۔ جب ان کی ٹرانسفر مرکزی سیکرٹیریٹ اسلام آباد میں ہوئی تو میں نے انھیں اکثر بس میں سوا ر ہو کر راولپنڈی سے اسلام آباد جاتے اور واپس آتے دیکھا۔
سن 1970 میں جنرل ایوب خاں ہی کا دور تھا جب مجھے اسپیشل ملٹری کورٹ نمبر1 کے ممبر کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا۔ اس عدالت کے تین ممبر تھے۔ کرنل، میجر اور سینئر مجسٹریٹ۔ کئی کیس نمٹانے کے بعد کورٹ نمبر1 کو گجرات کا مقدمہ قتل دیا گیا۔ ہم اس کیس کی سماعت کے لیے گجرات گئے اور وہاں ہماری عدالت نے ایک ریسٹ ہائوس میں سماعت شروع کی۔ ابھی پاکستان دو لخت نہیں ہوا تھا۔ عدالت کے سینئر ممبر ایک مشرقی پاکستانی کرنل تھے لیکن عدالتی کاروائی مجسٹریٹ ہی کیا کرتا تھا۔ گجرات میں اعجاز نامی نوجوان ٹرانسپورٹر کا قتل ہوا تھا۔ وکیل صفائی الطاف صاحب تھے جو کافی عرصہ بعد گورنر پنجاب بھی رہے۔ ہم نے اس کیس میں ملزم بس ڈرائیور کو سات سال سزا سنائی تھی۔
یہ عدالت ایک سال تک رہی۔ میرا تعلق مشرقی پاکستان (بنگلہ دیشی) کرنل سے ایک سال تک رہا۔ کافی عرصہ بعد امتیاز رفیع بٹ کے گھر کھانے پر میری گورنر الطاف سے ملاقات ہوئی۔ انھیں وہ ٹرائیل اور میرا عدالت کا ممبر ہونا یاد تھا۔ گجرات ہی میں ایک ریسٹ ہائوس بنی بنگلہ کہلاتا تھا جہاں سول افسر کو تبادلے پر الوداعی کھانا دیا جاتا تھا۔ اُسی بنی بنگلہ میں جنرل یحییٰ خاں کو کچھ عرصہ رکھا گیا تھا۔ مجھے جب بھی اسپیشل ملٹری کورٹ نمبر1 کی یاد آتی ہے تو ایک سال تک قائم بنگلہ دیشی کرنل سے تعلق کی یاد بھی آتی ہے۔ پاکستان کا وہ حصہ جو اب دوستی کی حدود میں بھی نہیں ہے، کبھی مشرقی پاکستان ہوتا تھا۔