پڑوسی گلی محلے کے ہوں یا کسی پوش علاقے کے، اگر ان میں کسی قسم کے اختلافات، اَن بَن، پسند نا پسند کا معاملہ یا پھر لڑائی جھگڑا ہو تو دونوں بے سکونی میں رہیں گے۔ پڑوسی ملک اگر ایٹمی طاقتیں بھی ہوں تو صورت حال مزید ابتر ہو جاتی ہے۔
برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے پر ہندو اور مسلم اکثریت والے علاقے ہندوستان اور پاکستان معرض وجود میں آ گئے۔ آزادی حاصل کرنے والے یہ ملک پڑوسی ہیں۔ نریندر مودی کی مسلم کش پالیسی کی ایک تاریخ ہے۔ پاکستان میں بھی کفر سازی ایک کاروبار ہے لیکن محدود پیمانے پر ہے اور کافی حد تک کنٹرول میں ہے۔
انڈیا اور پاکستان کے تعلقات آج کل جیسے خراب کبھی نہیں تھے۔ دونوں طرف خدا کی مخلوق انسان ہیں۔ دونوں طرف رشتہ داریاں بھی ہیں۔ دونوں طرف آنے جانے کا تعلق رہا ہے۔ علمی ادبی تقریبات ہوتیں، کھیل کی ٹیموں کا جن میں کبڈی، کرکٹ گالف وغیرہ شامل ہیں ان کے آپس میں مقابلے ہوا کرتے تھے اور دونوں ملکوں کے کھلاڑی دوروں پر آتے جاتے تو عزت پاتے اور تماشائیوں سے میدان اور اسٹیڈیم بھرے پائے جاتے۔
لاہور میں انڈین گالف ٹیمیں جمخانہ کلب آئیں تو مجھے بھی میزبانی کا موقع ملا۔ 1979میں انڈین کرکٹ ٹیم جس کا کپتان بشن سنگھ بیدی تھا، ون ڈے میچ کھیلنے ساہیوال آئی تو میں نے ان کی رہائش اور کھانے کا انتظام کیا۔
اسسٹنٹ کمشنر صفدر جاوید سید جو بعد میں مرکزی سیکریٹری بھی رہے، میری دعوت پر گجرا ت سے آئے اورمیچ دیکھا۔ نریندر مودی نے کشمیر کو جو انڈیا کا مسلم اکثریت والا صوبہ ہے، ڈیڑھ سال سے قید خانہ بنا رکھا ہے اور بے شمار مسلمانوں کو شہید کر دیا ہے، وہ وزیر ِ اعظم کے بجائے اب قاتل اعظم کہلاتا ہے جب کہ پاکستان کے وزیر ِ اعظم عمران خاں نے ضلع نارووال کے علاقے کرتار پور میں Corridor کا سنگ ِ بنیاد رکھا۔
یہ جگہ انڈو پاک بارڈر پر ہے اور سکھوں کے دل جیتنے کا سبب بنی ہے۔ اس جگہ گوردوارہ دربار صاحب پر سکھ مذہب کے لوگ ساری دنیا سے تو آتے ہی ہیں، تین میل سے بھی کم فاصلے سے ہندوستان میں رہنے والے سکھ یاتری بغیر ویزا لیے آسکتے ہیں اگرچہ اس جگہ کی تعمیر ِ نو کی تجویز اور کوریڈور کھولنے کا پلان نواز شریف اور اٹل بہای واجپائی کے مابین 1999میں بنا لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکاتھا جس کی تکمیل کا سہرا موجودہ وزیر ِ اعظم کے سر پر بندھ گیا۔
نریندر مودی پر مسلمانوں کو Target کرنے کا الزام پہلی بار نہیں لگا، اس کے نزدیک ہندوستان صرف ہندو مذہب کے پیرو کاروں کا دیس ہے کیونکہ وہاں طویل عرصہ ہندو ہی حکمران رہے اور مغلیہ سلطنت مودی کے مطابق ظلم کا نتیجہ تھی اور کوئی دن خالی نہیں جاتا جس میں اس کی زبان اور عمل ہندو توا کے حق میں اور مسلمانوں کے خلاف نہ ہو لیکن دنیا کی تایخ گواہ ہے کہ ظلم کرنے والوں کا انجام بہت بُرا ہوتا ہے۔ وہ تمام لوگ جن کا عمل بے انصافی اور ظلم رہا عبرت کا نشان بنے اور تاریخ میں ان کا نام سیاہ حروف میں لکھا گیا۔
1947کی آزادی کے بعد دو جنگوں کو بھلا دیں تو دونوں کے تعلقات میں کمی بیشی ہوتی رہی لیکن پاکستان کی کوششیں صلح کن رہیں جو فی الوقت نریندر مودی کی وجہ سے یک طرفہ ہیں لیکن ایک بات بھولنے والی نہیں کہ دنیا میں مسلمانوں کی دوسری بڑی آبادی ہندوستان میں ہے اور دوسری اہم حقیقت کہ اسی وجہ سے انڈیا کے تیسرے صدر ڈاکٹر ذاکر حسین تھے جن کا دور 1967 سے 1969 تک رہا اور ان کی وفات بھی آفس ہی میں ہوئی۔
فخر الدین علی احمد 1974 سے 1977 تک انڈیا کے صدر رہے۔ تیسرے مسلمان صدرعبدالکلام آزاد جو سائنسدان بھی تھے 2002 سے 2007 تک ہندوستان کے صدر رہے۔ سکھ مذہب کے پیروکار انڈیا میں پونے 3 کروڑ ہیں۔ جب کہ پاکستان میں 50 ہزار سے زیادہ ہیں۔ گیانی ذیل سنگھ 1982 سے 1987 تک انڈیا کے صدر رہے۔
انڈیا سے سکھ مذہب کے لوگ اپنے مذہبی مقامات کی زیارت کے لیے گروپوں میں آتے تھے۔ غالباً 1978 کی بات ہے۔ لاہور تعیناتی کے وقت میری ڈیوٹی لگی کہ شہر کی دو شخصیات کو ہمراہ لے کر واہگہ بارڈر پر سکھوں کے جتھے کا استقبال کروں۔ پھر میں پانچ روز تک ان کے ہمراہ رہ کر مختلف مقامات جہاں سکھوں کی یادگاریں ہیں ان کو لے جائوں۔ اس دوران میں انھیں لے کر پنجہ صاحب، حسن ابدال بھی گیا اور پھر ان کو بارڈر پر الوداع کیا۔ اس جتھے کو خوش آمدید کہنے کے لیے میں نے گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل ڈاکٹر نذیر احمد اور علامہ اقبال کے ایک عزیز کو ہمراہ لیا تھا۔
انڈین اور دوسرے ممالک خاص طور پر کینیڈا، امریکا، برطانیہ کے رہائشی سکھ مذہب کے پیروکاروں کے لیے وزیراعظم عمران خاں نے Kartarpur Corridor کا سنگ ِ بنیاد رکھا ہے۔ انڈو پاک سرحد پر گردوارے کے دربار پر انڈین سکھ بغیر ویزہ آسکتے ہیں۔ گورو بابا نانک 15اپریل 1469 کو تلونڈی گائوں ننکانہ صاحب میں جو پاکستان میں ہے، پیدا ہوئے اور کرتار پور میں فوت ہو ئے جو نارووال میں ہے۔ اس Corridor کا کھولا جانا انسانی محبت اور بھائی چارے کی علامت ہے۔
آخر میں سکھوں کے بارے میں چند حقائق: سکھ بے حد مہمان نواز ہیں۔ ان میں کبھی کوئی گداگر نہیں ملے گا۔ وہ پنجابی زبان سے محبت کرتے ہیں، پنجابی بولنے اور گانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کے پانچ۔ مشہور ہیں کچھ (انڈرویئر)، کڑا، کرپان، کنگھا (کنگھی)، کیس(لمبے بال)۔