آج صبح سیالکوٹ کی تین درسگاہوں کی یاد آئی اور اتفاق سے مجھے ان تینوں سے کسب فیض حاصل کرنے کا موقع ملا ہے۔ اسکاچ مشن ہائی اسکول، گورنمٹ ہائی اسکول اور مرے کالج (Murray College)۔ اسکاچ مشن کی کلاسیں پہلی سے دسویں تک، گورنمنٹ اسکول کی پانچویں سے دسویں تک تھیں جب کہ مرے کالج سے گریجویشن ہوتی تھی۔
انگریز نے ہندوستان پر حکومت کی اس موضوع پر بہت کچھ کہا جا سکتا ہے لیکن ریلوے اور نہری نظام کے علاوہ تعلیم ایسی عنایات ہیں جو قابل ستائش ہیں اور ان کی وجہ سے انگریز کو ہمیشہ رکھا جائے گا۔
مرے کالج سیالکوٹ کی بنیاد ایک سو تیس سال قبل Capt.Murray کے ہاتھوں رکھی گئی تھی۔ اسی لیے اس کا نام مرے کالج رکھا گیا۔ کالج میں داخل ہوں تو بائیں طرف درختوں میں گھرا ہوا پرنسپل ہاؤس، آگے لڑکیوں کا گرین روم اس کے پیچھے کالج ہال اور کلاس رومز داخلے کے دائیں ہاتھ پرنسپل اور وائس پرنسپل کے اسٹاف روم ان سے آگے لائبریری اور اس سے آگے ٹک شاپ اور اس سے کچھ فاصلے پر وسیع ہاکی گراؤنڈ جب کہ کالج کی ایک باؤنڈری وال گورنمنٹ اسکول کے ساتھ مشترکہ ہے۔
مرے کالج انگریزوں کے قائم کردہ تعلیمی اداروں میں ایک اولین ہی نہیں بہترین بھی تھا جس میں اس دور کی نامور شخصیات نے تعلیم پائی۔ علامہ اقبال، فیض احمد فیض کے علاوہ درجنوں نام لیے جا سکتے ہیں۔ پرنسپل ڈی لیزلی اسکاٹ کلکتہ کا کالج چھوڑ کر مرے کالج آ گئے۔ وہاں پروفیسر آرسی ٹامس سی ڈبلیو ٹریسلر ایرک سپرین موجود تھے۔
Eric نے اسلام قبول کر لیا اور مسلم خاتون سے شادی کر کے Ejaz Cuprian ہو گئے۔ میرے کالج میں Debates کے سالانہ مقابلوں کا خوب چرچا تھا۔ لاہور اور دوسرے شہروں کے معروف Debators کو دعوت دی جاتی اور مرے کالج ہال میں شاندار بلکہ دھواں دھار جنگ جمتی، ارشاد حسین کاظمی، وارث میر اور ع، ادیب کے علاوہ کئی معروف اسپیکر ان مقابلوں میں شرکت کرتے۔ پروفیسر خالد حسن ہمارے انگریزی کے ٹیچر تھے، وہ کالج فنکشنز کے روح رواں تھے، پھر وہ سول سروس میں آ گئے۔ ایک بار وہ جنرل یحییٰ کے کینیڈا وزٹ کے دنوں میں یحییٰ کی کرسی کے پیچھے کھڑے تھے جب کہ یحییٰ خان ایک اخبار الٹا پکڑ کر پڑھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان کے پیچھے کھڑے خالد اپنی حس مزاح کو نہ دبا سکے اور بولے "Sir It is in English" اور یہ کہا ہوا خالد حسن کو بھگتنا پڑا تھا۔
شیخ مقصود الرحمن اپنی شاندار امپورٹڈ بائیسکل پر مرے کالج پہنچ کر سائیکل اسٹینڈ کے قریب پہنچتا تو اسٹینڈ بوائے دوڑتا ہوا آ کر وہ سائیکل پکڑ کر مخصوص کونے میں لے جا کر پارک کرتا۔ دراصل مقصود کی سائیکل اعلیٰ اور نرالی تھی۔ زندگی میں مجھے جس موٹر کار میں پہلی بار بیٹھنے کا موقع ملا وہ مقصود ہی کی تھی۔ مقصود الرحمن ملٹری لینڈ کے عہدوں پر مختلف شہروں میں تعینات رہا جب کہ ہمارا کلاس فیلو سلیم مرزا کرکٹ کے کھیل میں نمایاں حیثیت رکھتا اور نامور سیاستدانوں جتوئی، مصطفیٰ کھر اور معراج خالد کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتا تھا۔
مرے کالج کے دو نامور بھائی خواجہ احسن پال اور جسٹس خواجہ خالد پال بھی تھے۔ احسن پال فرسٹ ایئر ہی سے اپنے لباس کی وجہ سے نمایاں رہتے تھے۔ سوٹ نک ٹائی، بالوں کا اسٹائل منفرد ہونے کی وجہ سے، شاید ع ادیب نے کالج میگزین میں جس کا میں ایڈیٹر رہا، ایک نامکمل شعر ان کے بارے میں لکھا کہ
الجھے بال پریشاں چہرہ
یہ تو احسن پال نہیں ہے
قیام پاکستان کے بعد کئی استاد یہاں سے چلے گئے جب کہ بہت سوں نے مرے کالج سے اپنا تعلق نہ توڑا اور سلسلہ تدریس قائم رکھا۔ اگر میں مرے کالج کے حوالے سے اپنی آٹوگراف بک کے 1960ء سے ورق کھولنا شروع کروں تو سب سے پہلے نو سطروں کی اپنے بار ے میں لکھی پروفیسر سر لیزلی ڈی اسکاٹ کی تحریر پڑھ کر سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد 12.6.61 کے وائس پرنسپل سی ڈبلیو ٹریسلر کے آٹو گراف ہیں۔ اس سے اگے صفحے پر 19.6.61 کے پرنسپل آر سی ٹامس کے آٹو گراف ہیں۔ مرے کالج سے باہر نکلوں تو 16 نومبر 1964ء کے محترمہ فاطمہ جناح، 30 دسمبر 30.12.57 کے چوہدری ظفر اللہ خاں اور پھر مورخہ 5 اکتوبر 1987 کے آٹو گراف تک نظر پہنچ کر رک جاتی ہے جن پر محمد علی کلے باکسر کے دستخط ہیں۔
مرے کالج کی کینٹین سے چائے اورکباب ملتے تھے۔ شیخ مقصود الرحمن Recess پر اپنے چار پانچ دوستوں کو وہاں چائے پلانے لے جاتا اور ہمیشہ خود Payment کرتا۔ اس کی یہ عادت آج بھی قائم ہے۔ اس کینٹین کے علاوہ کالج گیٹ کے باہر چاچا محمد دین کی آلو چنے کی چھابڑی نما دکان تھی، اکثر لڑکے آنے دو آنے کی چاٹ کھاتے، کئی سال بعد فیض صاحب وہاں آئے تو چاچا محمد دین نے انھیں کہا، تم نے میرے آٹھ آنے ادھار واپس نہیں کیے۔ ماضی کا شاندار مرے کالج آج ایک اجڑا باغ نظر آتا ہے۔
کچھ روز قبل سلیم مرزا سیالکوٹ گیا تو اس نے واپسی پر بتایا کہ مرے کالج اب اجڑا ہوا باغ لگتا ہے۔