میں کورونا وائرس سے احتیاط سے متعلق اپنے بیٹے کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے کلب کے واش روم میں ہاتھ دھونے کے لیے داخل ہو اتو دیکھا کہ برابر میں ایک صاحب ٹانگ اُٹھا کر پائوں واش بیسن میں رکھ کر چھینٹے اُڑارہے ہیں۔ پھر انھوں نے دوسرا پائوں رکھا۔ میں نے کہا آپ یقینا وضو کر رہے ہیں لیکن آپ کا یہاں یہ عمل درست نہیں۔
پانی کے چھینٹوں سے سارا فرش گیلا ہو رہا ہے اور دوسروں پر بھی گر رہا ہے۔ اِس پر انھوں نے سخت ناراضی کا اظہار کیا کہ میں ان کے نیک عمل پر تنقید کر رہا ہوں۔ میں اس معاملے کو طول نہیں دینا چاہتا تھا، لہٰذا خاموش ہو گیا لیکن ان کے چلے جانے کے بعد ٹشو پیپرز سے واش بیسن کو صاف کرنے لگا۔
مجھے دیکھ کر ایک اور صاحب نے جیب سے رومال نکالا اور میرے ساتھ شامل ہو گئے۔ جب صفائی ہو گئی تو دوسرے شخص نے بتایا کہ ایئر پورٹ کے واش روم میں بھی ایک صاحب ٹانگیں واش بیسن میں رکھ کر چھینٹے اُڑا رہے تھے بلکہ بلند آواز سے گلا اور ناک صاف کر رہے تھے لیکن منع کرنے پر انھوں نے معذرت کرنے یا غلطی تسلیم کرنے کے بجائے طبل جنگ بجا دیا اور مرنے مارنے پر تُل گئے۔
اسی روز مجھے نیویارک یاد آ گیا جہاں میرے دوست نے بتایا کہ یہاں ایک پاکستانی کا ریستوران ہے جس کے کھانے بے حد لذیز ہیں۔ شام کے بعد دوست مجھے اس ریستوران پر لے گیا۔ واقعی کھانا بے حد لذیز تھا۔ ہاتھ منہ صاف کرنے واش روم میں داخل ہوتے ہی یوں لگا جیسے میں لاہور یا گجراتی ہوٹل کے واش روم میں ہوں۔ کموڈ میں ٹشو پیپر پڑے ہیں اور پانی کی ٹینکی ٹپک رہی ہے۔ وہیں مزیدار کھانے کا مزہ کر کرا ہو گیا۔ یہاں سے قریب ایک Rest Room میں جا کر منہ ہاتھ دھویا۔ وہاں کے ریسٹ روم دراصل ٹائلٹ ہوتے ہیں جن کی صفائی اور smell قابلِ تعریف ہوتی ہے۔
وہاں کے شاپنگ مالز صاف ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی بڑے شہروں میں مالز ہیں۔ اپنے ہی ایک شاپنگ مال میں کئی سال قبل فیملی کے ساتھ جانے کا دن یاد آیا۔ شاپنگ کے دوران مجھے کھانسی آ جانے پر منہ ناک صاف کرنے کے بعد وہ ٹشو پیپر میرے ہاتھ ہی میں تھا کہ میری چھوٹی بیٹی نے اسے پکڑ لیا اور کچھ دور پڑی باسکٹ میں ڈال آئی۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ اسے شک ہوا ہو گا کہ میں وہ پیپر کہیں راستے میں نہ پھینک دوں۔ ایسا ہی ایک مشاہدہ ایک یورپی ملک میں ہوا تھا، فٹ پاتھ پر ہم سے آگے بزرگ کے ہاتھ سے کھانے والی کوئی چیز غلطی یا لاپروائی سے گر گئی تو ایک کم عمر بچے نے اسے اٹھایا اور ڈسٹ بن میں پھینک آیا۔
ہمارے ہاں سڑکوں، بازاروں، فٹ پاتھوں، دکانوں، مکانوں، پارکوں میں کے باہر کوڑا کرکٹ پڑا دیکھا جا سکتا ہے جس کی پرواہ نہ سرکاری محکموں کو ہوتی ہے نہ ایسی گندگی پھیلانے والوں کو اور نہ ہی دائیں بائیں سے گزرنے والوں کو۔ بہت سے لوگ تو ایسی گندگی کے ڈھیروں کو حقیقی کوڑے دان سمجھ کر ان میں اپنا حصہ ڈال کر غلاظت میں حصے دار بن جاتے ہیں۔ اس جگہ کے قریب سے گزرنے والے تیزی سے ناک، منہ پر رومال رکھ کر گزرتے پائے جاتے ہیں لیکن سبق حاصل نہیں کرتے۔
ایسے لوگوں کی بھی ہمارے ہاں کمی نہیں جو اپنی دکان، رہائش گاہ بلکہ اپنے ہوٹل یا ریستوران کا فرنٹ تو صاف ستھرا رکھتے ہیں لیکن اپنی غلاظت اور گندگی اپنی عمارت کے پچھواڑے ٹھکانے لگا کر فرض سے سبکدوش ہو جاتے ہیں۔ سنا ہے کہ ہمارے ہاں ایک فوڈ اتھارٹی قائم ہوئی تھی۔ یہ کافی متحرک تھی لیکن اب کافی عرصہ سے خاموش ہے۔
لوگوں کو مہنگے ریستورانوں کے کچن میں چوہوں، کاکروچوں، مکھیوں، اور کیڑے مکوڑوں کی یلغار دیکھ کر اندازہ ہو تا تھا کہ جس Posh ہوٹل میں انھوں نے چند روز قبل کھانا کھایا تھا، ٹیلیویژن اسکرین نے اسے بے نقاب کیا ہے۔
ایک نہایت افسوس ناک بات لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول نہیں کر رہی کہ ہماری عبادت گاہوں کی ہاتھ پائوں دھونے کی جگہیں اور واش رومز پاکیزگی اور صفارئی کی اچھی روایت سے محروم ہیں جب کہ صفائی نصف ایمان کا درجہ رکھتی ہے۔ ملک کی مہنگی مارکیٹوں میں بھی ٹائیلٹس نہیں بنائے جاتے جب کہ ان میں شاپنگ کرنے والے لوگ امراء میں شمار ہوتے ہیں۔
مضحکہ خیز بات ہے کہ بعض Posh علاقوں اور مارکیٹوں کی صفائی کی خاطر مخصوص کونوں کی بعض دیواروں پر لکھا ہوا ملتا ہے، " یہاں پیشاب کرنا منع ہے" لیکن اسی کونے یا نکڑ سے بدبو آ رہی ہوتی ہے۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہونے کے علاوہ بندرگاہ بھی ہے اور یہی شہر سب سے زیادہ امیر ہونے کے ساتھ ملکی معیشت میں حصہ ڈالنے میں پہلے نمبر پر ہے لیکن صد افسوس کہ اس شہر کی سڑکیں خستہ حال ہونے کی وجہ سے pollutioin پھیلاتی ہیں۔
شہر ایک بہت بڑا کوڑے دان ہے اور پینے، نہانے کے لیے گھروں، دفتروں، مارکیٹوں کے لیے پانی ٹینکر میں لا کر فروخت کیا جاتا ہے۔ یہاں ایک دن موسلادھار بارش ہو جائے تو سڑکیں، گلیاں، تالاب اور میدان کچرا دان میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اس شہر کے بعض علاقوں کے نام بھی ان کی حیثیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔