چوبیس دسمبر کو رات ٹیلیویژن آن کیا تو اس کی اسکرین پر قتیل شفائی کی تصویر دیکھ کر میں ریموٹ پکڑے وہیں ساکت ہو گیا باوجودیکہ اس کے بعد کوئی اور پروگرام چلنے لگا تھا، میری نظریں اسکرین سے ہٹنے کا نام نہیں لے رہی تھیں اور اگرچہ منظر بدل رہے تھے۔ میں 100 سال قبل پیدا ہوئے اور 11 جولائی 2001 کو انتقال کر گئے اُستاد قتیل صاحب ہی کو دیکھے جا رہا تھا۔
میں ہائی اسکول کے آخری اور کالج کے ابتدائی دور میں اپنے اشعار جوابی لفافہ ڈال کر خط کے ذریعے عبدالمجید سالک، احمد ندیم قاسمی، اور قتیل شفائی کو اصلاح کے لیے بھجوایا کرتا تھا۔ دس پندرہ دن کے بعد میرا کلام مجھے واپس آ جاتا۔ یہ سلسلہ تین چار سال چلتا رہا۔ کالج کے تھرڈ ایئر میں جب میرے اشعار کی ایک بیاض تیار تھی، میں سیالکوٹ سے لاہور پہنچا اور قتیل شفائی صاحب سے ملاقات کی خواہش کی۔
انھوں نے لکشمی چوک کے ایک ریستوران میں بلا کر میری شعری بیاض کا نصف گھنٹہ تک مطالعہ کرنے، مجھے کھاناکھلانے کے بعد کہا، بُرا نہ مانئے گا، ایک پُر خلوص مشورہ ہے کہ آپ تیسرے درجے کا شاعر بننے کے بجائے اپنے لیے کسی اعلیٰ درجے کے کیرئیرکے لیے محنت کریں۔ قتیل صاحب کے اس تکلیف دہ مشورے کے بعد میں نے سیالکوٹ واپسی کے بعد غور کیا تو مجھے اس میں خلوص اور حقیقت کا امتزاج معلوم ہوا جس کا اظہار میں نے اُن سے مدت بعد سول سروس میں آنے کے بعد کیا۔
میں نے جاوید اقبال کو پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ ملنے کی ایک تقریب کے لیے لکھی تحریر ایک معاصرروزنامہ کو بھی بھجوا دی جو دو روز بعد چھپ گئی، اس کا عنوان تھا " بیوروکریٹ کارٹونسٹ "۔ اس انوکھے عنوان کی وجہ یہ تھی کہ ان دنوں جاوید کی دوستی اعلیٰ بیوروکریٹوں تک محدود تھی۔ پھر کبھی کبھار ہر اتوار کالم لکھنے کی عادت کے بعد کافی مٹیریل جمع ہو گیا تو ایسے کالم جن کی عمر طویل محسوس ہوئی تو انھیں 1999 میں اکٹھے کر کے سنگ ِ میل کے مالک و پبلشر نیاز احمد صاحب کو کتابی شکل میں شایع کرنے کے لیے دیے۔ میری اس پہلی کتاب " دیواروں پہ لکھتے رہنا " کا نام میرے دوسر ے اُستاد احمد ندیم قاسمی صاحب نے تجویز کیا تھا۔
پہلی کتاب اشاعت ِ تکمیل کے مراحل میں تھی جب میں نے قتیل شفائی صاحب کو کتاب کے لیے کچھ لکھنے کے لیے ٹیلیفون کیا۔ انھوں نے دس منٹ بعد مجھے فون کر کے پوچھا، تمہارے گھر میں فیکس مشین ہے۔ میں نے جواب دیا۔ چند ہی روز قبل کلیم نے مجھے ایک فیکس مشین تحفے میں دی ہے۔ انھوں نے کہا اسے ON کر دو، یوں میرے ٹیلیفون کرنے کے دس منٹ بعد قتیل صاحب کے رائیٹنگ پیڈ پر ان کے اپنے ہاتھ سے لکھے ہوئے یہ تین شعر مجھے موصول ہو گئے:
نہ خوشامد کروں اس کی نہ قصیدہ لکھوں
میں تو اس دوست کے اوصاف ِ حمیدہ لکھوں
کام ہے جس کا گل افشانی قرطاس و قلم
اس کے لفظوں کو متاع ِ دل و دیدہ لکھوں
جب حمید آئے قلم تھامے تو جی چاہے مرا
اس کی تعریف میں اک پورا جریدہ لکھوں
کالج کے تھرڈ ایئر والی ملاقات کے بعد قتیل صاحب سے کبھی کبھار ہی ملاقات ہوتی لیکن پھر راولپنڈی، قصور، ساہیوال، اٹک، گجرات، گوجرانوالہ اور کھاریاں کے بعد میری لاہور ٹرانسفر ہوئی تو میں نے چیف سیکریٹری پرویز مسعود صاحب سے درخواست کی کہ اب مجھے لاہور ہی میں مختلف پوسٹوں پر گھماتے رہئے یہاں سے باہر نہ بھیجئے۔ میری اس کے بعد احمد ندیم قاسمی اور قتیل شفائی ہر دو اساتذہ سے اکثر ملاقات رہتی۔
قتیل صاحب کا اصل نام محمد اورنگزیب تھا۔ ادب اور شاعری میں کمالات کی وجہ سے انھیں Performance Award Pride of، آدم جی ادبی اوارڈ، نقوش اوارڈ، اباسین آرٹ کونسل اوارڈ، نگار اوارڈ اور انڈیا سے امیر خسرو اوارڈ سے نوازا گیا۔ احمد ندیم قاسمی اور قتیل شفائی پڑوسی تھے اور ان کے مکان قتیل شفائی اسٹریٹ میں ہیں۔ میں نے گوجرانوالہ اور ساہیوال میں مشاعرے منعقد کروائے تو ان دونوں اساتذہ کو وہاں مدعو کرنے اور ساہیوال اپنے مکان میں قیام کرانے کا شرف حاصل کیا۔ قتیل صاحب کو اکثر انڈیا میں بلوا کر چند ماہ کی مہمان نوازی کے ساتھ فلمساز حضرات اپنی فلموں کے لیے ان سے فلمی گیت لکھواتے تھے۔
قتیل صاحب بہت اچھے شاعر اور انسان تو تھے ہی، مہمان نوازی میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔ کوئی مہینہ نہیں گزرتا تھا کہ انڈیا یا پاکستان کا کوئی دانشور یا شاعر ان کے مکان پر رات کے کھانے پر مدعو نہ ہو۔ مقامی شعراء اور دوست بھی مہمان ہوتے۔ مجھے بھی شرکت کا موقع ملتا رہتا۔ اس وقت اپنی یاد داشت اور نویدِ قتیل کی مدد سے قتیل صاحب کو ان کے گیتوں اور غزلوں کے حوالے سے یاد کرنے کو دل چاہ رہا ہے۔ ابتدا اقبال بانو کی آواز سے کرنے کا ارادہ ہے۔
الفت کی نئی منزل کو چلا
تو بانہیں ڈال کے بانہوں میں
دل توڑنے والے دیکھ کے چل
ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں
کیا کیا نہ جفائیں دل پہ سہیں پر تم سے کوئی شکوہ نہ کیا
اس جرم کو بھی شامل کر لو میرے معصوم گناہوں میں
دل دیتا ہے رو رو دہائی کسی سے کوئی پیار نہ کرے
بڑی مہنگی پڑے گی یہ جُدائی کسی سے کوئی پیار نہ کرے
پریشان رات ساری ہے ستارو تم تو سو جائو
سکوت ِمرگ طاری ہے ستارو تم تو سو جائو
پائیل میں گیت ہیں چھم چھم کے
تو لاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے
یہ محفل جو آج سجی ہے اس محفل میں ہے کوئی ہم سا، ہم سا ہو تو سامنے آئے
زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں
میں تو مر کر بھی مری جان تجھے چاہوں گا
حسن کو چاند جوانی کو کنول کہتے ہیں
ان کی صورت نظر آئے تو غزل کہتے ہیں
ہم سے بدل گیا وہ نگاہیں تو کیا ہوا
زندہ ہَیں کتنے لوگ محبت کیئے بغیر
گرمئی حسرت ِناکام سے جل جاتے ہیں
ہم چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں
جب بھی آتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھ
جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں
دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا
ہوتا نہیں ہے ختم قتیلؔ آس کا سفر
پائوں کٹے ہوئے ہیں مگر چل رہے ہیں لوگ