اگرچہ ان دنوں کورونا وائرس کی خبروں نے ساری دنیا کے لوگوں کو موت کو اتنی کثرت سے ٹیلیویژن کی اسکرین کے ذریعے دکھانا شروع کیا ہوا ہے کہ حقیقی موت کا وہ خوف اور ڈر جو کبھی بدن میں لرزہ طاری کر دیتا تھا اب اس شدت سے پیدا نہیں ہوتا اس لیے خوفزدگی کی کیا ضرورت جب یہ وارد ہو گی تو شاید سوچنے کا وقت بھی نہ دے یعنی
لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی سے آئے نہ اپنی خوشی چلے
ہماری زندگی میں تو اس وبا نے جسے بلا بھی کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا پہلی بار دو سو ممالک سے زیادہ میں وہ کہرام مچایا ہے کہ وہ ممالک بھی جن کی طاقت اور دولت کا گھمنڈ ہر چھوٹے اور کمزور ملک کو ناک رگڑنے پر مجبور کرتا اور ان کے للکارے پر سرنگوں کر دیتا تھا لیکن آج اس مالک و خالق کے سامنے سجدہ ریز ہوتے دیکھا جا سکتا ہے جس کا جاہ و جلال ناقابل بیان ہے۔
اب ذکر ہو جائے اس ملک کا جہاں سے اس وائرس نے جنم لیا اور پھر دو سو سے زیادہ ممالک میں کشتوں کے پشتے لگائے لیکن اپنے ملک کو اس جان لیوا وائرس سے پاک کرنے کے قریب ہے اور یہ وہی پسماندہ ملک ہے جس کی حالت زار کو دیکھنے کے باوجود شاعر مشرق نے پیش گوئی کر دی تھی کہ
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے
کورونا وائرس کا ذکر تو ان دنوں زبان زد عام ہے لیکن ملک چین سے متعلق ایک واقعہ جس کی وجہ سے میرا گالف کھیلنا شروع ہوا اس کا ذکر اس لیے ضروری ہے کہ میرے اس کھیل کا محرک چینی گولف بیگ تھا۔ کراچی سے میرے دوست شبیر نے فون پر کہا کہ وہ اپنے مہمانوں کے ساتھ کل لاہور آ کر گالف کھیلیں گے۔ میں نے لاہور جمخانہ میں انتظام کر دیا، کھیل شروع ہونے پر شبیر نے پوچھا تمہارا گالف بیگ کہاں ہے، میں نے جواب دیا کہ میرے تو باپ دادا نے یہ بیگ نہ دیکھا ہو گا۔ شبیر نے کراچی واپس جا کر ایک گالف بیگ مجھے بھجوا دیا۔ چند روز کے بعد ایک دوست نے کہا کہ چین میں ہر چیز کی دو تین کوالٹیز بنتی ہیں تم اس تھرڈ کلاس کی بجائے کوئی اچھا بیگ خرید لو۔
میں نے آج سے اکیس سال قبل ڈیڑھ لاکھ روپے کا گولف سیٹ خرید لیا۔ میرے والا سیٹ دکاندار نے مروت میں آٹھ ہزار میں خرید لیا۔ مجھے اس روز پتہ چلا کہ چینی لوگ ایک ہی برانڈ کی چیزیں کوالٹی کے فرق سے تیار کرنے کی مہارت رکھتے ہیں۔ ابھی دو دن پرانی بات ہے کہ میری سوزوکی آٹومیٹک کار جو چابی میں لگے ایک بٹن کو دبانے سے ٹک کی آواز سے کھل جاتی اور اس کے نیچے والے بٹن کو دبانے سے لاک ہوجاتی تھی کام چھوڑ گئی۔ کاریگر سامان لایا اور اس نے دونوں میٹل کے پرزے تبدیل کردیے۔
نئے پرزوں کے باوجود لاک سسٹم نے کام نہ کیا تو میں نے کہا کہ تم نے پرانے میٹل کے پرزوں سے کام چلانا چاہا تھا تو کاریگر نے جواب دیا کہ میں نے تو دونوں بار نئے پرزوں کے Pair ڈالے یہ دیکھئے اب نئے والے پرزے ٹھیک کام کر رہے ہیں، یہ دونوں Pair نئے لیکن مختلف ہیں، لیکن Made in China ہی ہیں۔ میرے لیے ناقص پرزوں کی خبر انہونی نہیں تھی کیونکہ دو نمبر تین نمبر اشیاء بنانے کے بارے میں چین کو مہارت حاصل ہے۔
چین کی گراں خوابی سے جاگنے کا ذکر تو علامہ اقبال نے بہت پہلے کردیا تھا۔ کینیڈا سے آئے میرے دوست تسنیم ہمایوں مرزا نے واپسی سے ایک ہفتہ قبل مجھے شاہ عالمی مارکیٹ ساتھ چلنے کے لیے کہا اور بتایا اس نے دو دوستوں کے لیے Omega Wrist واچز خریدنی ہیں۔ مجھے اس کی مالی حالت کا پتہ تھا لیکن چپ رہا، پہلے ایک بڑی چینی گھڑیوں کی دکان پر گئے یہ دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی کہ گھڑیاں ایک بڑے سبزی پھل تولنے والے ترازوں میں تول کر گاہک کو دی جا رہی تھیں۔
یہاں معلوم ہوا کہ یہ وہ چینی گھڑیاں ہیں جو فٹ پاتھ پر بیٹھے دکان دار بیس پچیس روپے کی فروخت کرتے ہیں، پوچھتے ہوئے ہم مطلوبہ Wrist Watches کی دکان پر پہنچے جہاں سے میرے دوست نے چھ چھ سو روپے کی دو گھڑیاں خرید لیں جو ہو بہو Omega گھڑیاں تھیں۔ میاں شفیق Swiss گھڑیوں کا پاکستان میں ایجنٹ ہے اور اس کی گھڑیوں کی قیمت لاکھوں تک جاتی ہے۔ حیرت کی 6 ہزار روپے والی چینی گھڑی ہو بہو چھ لاکھ والی سے ملتی ہے۔
بیس سال قبل میرا ایک وفد کے ساتھ چین میں ہر چھ ماہ بعد Guangzhou میں منعقد ہونے والی عظیم الشان نمائش میں جانے کا اتفاق ہوا جہاں دنیا بھر سے لوگ آئے ہوئے تھے۔ ہمیں بھی بمشکل ایک چھوٹے سے ہوٹل میں کمرہ ملا جہاں سے نمائش گاہ کا پیدل کا رستہ تھا، اس رستے میں ایک خوبصورت ریستوران پر نظر پڑتی، اس کی شیشے کی کھڑکیوں پر جانوروں کی تصاویر تھیں، ایک روز وہاں کھڑے ہوکر پوچھا تو ایک انگریزی سمجھنے والے شخص نے بتایا کہ یہاں کی مشہور ڈش ڈنکی روسٹ ہے۔
اس دوران مجھے ہر طرف کی خاموشی نے اپنی طرف متوجہ کرکے کورونا کی وبا یاد دلائی تو ساتھ ہی ٹیلیفون کی Tick نے اس پر آنے والے Mesage کی طرف توجہ دلائی، اسے آن کیا تو یہ چند اشعار تھے۔
ایک مدت سے مرے گھر کوئی آیا نہ گیا
فون سے حال ہی بس پوچھا بلایا نہ گیا
گر کوئی سامنے آیا بھی تو عالم یہ رہا
دوری 6 فٹ کی رہی ہاتھ ملایا نہ گیا
اور دیدار بھی بس اس کا ادھورا ہی رہا
ماسک چہرے پہ رہا وہ بھی ہٹایا نہ گیا