چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات۔ شہباز شریف کی رہائی اور پھر نواز شریف کو علاج کے لئے چھ ہفتوں کے لئے گھر جانے کی اجازت ملنے پر مسلم لیگ (ن) والوں کو یہ امید نظر آنے لگی تھی کہ اُن کا مشکل وقت ختم ہونے والا ہے۔ پھر حنیف عباسی پر رات کے اندھیرے میں مسلط کی جانے والی عمر قید کی سزا بھی معطل ہو گئی تو کہا جانے لگا کہ بہت جلد خواجہ سعد رفیق اور مسلم لیگ (ن) کے دیگر گرفتار ساتھی بھی رہا ہو جائیں گے لیکن اچانک شہباز شریف اور اُن کے خاندان پر منی لانڈرنگ اور ناجائز ذرائع سے اثاثے بنانے کے نئے الزامات کی بھرمار ہو گئی۔ جعلی اکائونٹس سے رقوم وصول کرنے کی دستاویزات ٹی وی اسکرینوں پر دکھائی جانے لگیں۔ یہ ویسے ہی الزامات ہیں، جیسے آصف علی زرداری اور فریال تالپور پر لگائے گئے اور وہ اُن الزامات کے تحت قائم ہونے والے مقدمات کا سامنا بھی کر رہے ہیں۔ حمزہ شہباز اور سلمان شہباز نے اِن نئے الزامات کو مسترد کر دیا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو دستاویزات ہمیں دکھائی جا رہی ہیں، نئی نہیں کافی پرانی ہیں تو پھر یہ پہلے سامنے کیوں نہیں لائی گئیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اب شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو گرفتار کرنا ہے تاکہ اُنہیں آنے والے دنوں میں حکومت پر دبائو ڈالنے سے روکا جائے؟ حکومت کے کچھ وزراء کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) والوں کو جہاں سے فیض مل رہا تھا اب نہیں ملے گا۔ ہم نے دلیل دی کہ فیض تو عدلیہ سے مل رہا تھا، آپ کو کیسے پتا کہ عدلیہ کا رویہ بدل جائے گا لیکن وزراء صرف یہ کہہ کر بات ختم کر دیتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کو فیض ملے گا اور نہ ہی این آر او، اگر یہ سب درست ہے تو پھر آج کل تحریک انصاف کی صفوں میں اتنی کھلبلی کیوں نظر آتی ہے؟ کابینہ کے اجلاسوں میں وزیر خزانہ اسد عمر پر اتنی تنقید کیوں ہو رہی ہے؟ معلوم ہوا ہے کہ اسد عمر کو وزارت خزانہ سے وزارت پٹرولیم میں تبدیل کیا جا رہا ہے لیکن اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ نیا وزیر خزانہ آتے ہی معیشت کو سنبھال لے گا؟ ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ دسمبر تک معیشت درست ڈگر پر چڑھ جائے گی لیکن معاشی استحکام کا تعلق سیاسی استحکام سے ہے۔ سیاسی استحکام کے بغیر معیشت کیسے درست ہوگی؟
عمران خان اور ان کے ساتھی کہتے ہیں کہ ہمیں کرپٹ لوگوں کے احتساب کا مینڈیٹ ملا ہے، ہم کرپٹ لوگوں کے ساتھ کوئی سودے بازی نہیں کریں گے اور اُن کی دھمکیوں میں نہیں آئیں گے۔ حکومت اپنے سیاسی مخالفین کو کرپٹ قرار دے کر سو دفعہ جیل میں ڈالے لیکن اچانک عدلیہ پر تنقید کیوں شروع کر دی گئی ہے؟ لاہور ہائیکورٹ کے ججوں اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس کے درمیان جو بھی ہوا وہ عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی کا باقاعدہ آغاز نظر آتا ہے اور اس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیض آباد دھرنا کیس میں فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کر دی گئی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے لکھے گئے فیصلے پر اعتراض کا آئینی حق ہر پاکستانی کو حاصل ہے لیکن سوال یہ ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ نے تحریک انصاف پر کون سا اعتراض کر دیا تھا؟ یہ وہی جج ہے جس نے میمو گیٹ کمیشن کے زمانے میں پیپلز پارٹی کو ناراض کیا، سانحہ کوئٹہ کی انکوائری میں مسلم لیگ (ن) کو ناراض کیا اب تحریک انصاف بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر اعتراضات کر رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی کرکے یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دلوایا، مسلم لیگ (ن) اس راستے پر چلی اور نواز شریف کو نااہل قرار دلوایا اب تحریک انصاف بھی اسی راستے پر چڑھ دوڑی ہے۔ خدا خیر کرے، جب اس عدلیہ نے نواز شریف کو نااہل کیا تو یہ عدلیہ بڑی اچھی تھی۔ اچانک یہی عدلیہ بری کیوں ہو گئی؟ کیا آپ چاہتے ہیں کہ جس طرح نیب حکومت کے سیاسی مخالفین کے لئے عذاب بنی ہوئی ہے عدلیہ بھی ایک عذاب بن جائے؟ عدلیہ کو تو آئین و قانون کے مطابق چلنا ہے اور شاید اسی لئے اب آئین بدلنے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔
جس ملک میں حکمران اپنے وعدے پورے نہ کر سکیں اور اپنی ناکامیوں کی ذمہ داری آئین پر ڈال دیں وہاں استحکام کیسے آئے گا؟ کچھ دن پہلے تک عمران خان کہہ رہے تھے کہ اٹھارہویں ترمیم کی وجہ سے صوبوں کو زیادہ فنڈ دینا پڑتے ہیں اور وفاق کے پاس فنڈ کم پڑگیا ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کو اپوزیشن کے ساتھ مل بیٹھ کر بہتر بنایا جا سکتا ہے لیکن اب تو تحریک انصاف کے حامیوں نے سوشل میڈیا پر صدارتی نظام کے لئے مہم شروع کر رکھی ہے۔ غور کیجئے! جس پارٹی کی حکومت قومی اسمبلی میں صرف چار ووٹوں کی اکثریت رکھتی ہے اس کے حامی صدارتی نظام کی بات کر رہے ہیں۔ وہ صدارتی نظام جو آپ نے بندوق کے زور پر نافذ بھی کیا اور آزما بھی لیا۔ یہ صدارتی نظام 1962ء میں جنرل ایوب خان نے نافذ کیا اور 1969ء میں اسے توڑ کر اقتدار جنرل یحییٰ خان کے حوالے کر دیا۔ صدارتی نظام کا نتیجہ مارشل لاء کی صورت میں نکلا اور اس مارشل لاء نے پاکستان بھی توڑ ڈالا۔ تحریک انصاف کو جنرل ایوب خان کا ناکام تجربہ دہرانے کے خواب دیکھنے کے بجائے پارلیمانی نظام کے اندر رہ کر اپنی کارکردگی کو بہتر بنانا چاہئے۔ پی آئی اے اور ریلوے تو کسی صوبے کے کنٹرول میں نہیں۔ ان اداروں کو آپ بہتر کیوں نہیں بنا سکتے؟ ایف بی ا ٓر وفاق کے کنٹرول میں ہے، آپ ایف بی آر کو بہتر کیوں نہیں بناتے؟ صدارتی نظام کا مطلب یہ ہے کہ آپ پاکستان پر ایک بڑے صوبے کی اجارہ داری قائم کریں گے کیونکہ صدر تو پھر وہیں سے آئے گا جہاں سے زیادہ ووٹ ملیں گے۔ آپ جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کے وعدے پر عملدرآمد کیوں نہیں کر رہے؟ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اس معاملے پر آپ کا ساتھ دیں گے کیونکہ پھر وسطی پنجاب میں تحریک انصاف کی نہیں مسلم لیگ (ن) کی حکومت بنے گی۔
عمران خان سے گزارش ہے کہ صرف کابینہ میں تبدیلیوں سے معیشت بہتر نہیں ہو گی، سیاسی استحکام بھی ضروری ہے۔ عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی سے سیاسی استحکام نہیں آئے گا۔ سیاسی استحکام پیدا کرنا صرف حکومت نہیں اپوزیشن کی بھی ذمہ داری ہے۔ جب بھی اپوزیشن کے خلاف کوئی الزام آتا ہے تو جمہوریت خطرے میں پڑجاتی ہے لیکن سچ یہ ہے کہ تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے اندر کوئی جمہوریت نہیں۔ یہ جماعتیں اپنے آئین کی پابندی نہیں کرتیں، پاکستان کے آئین کا کیا دفاع کریں گی؟ عمران خان صرف وہ کرنے کی کوشش کریں جو ان کی دسترس میں ہے۔ وہ کام شروع نہ کریں جسے وہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکتے۔ عدلیہ کو پرویز مشرف، آصف زرداری اور نواز شریف فتح نہیں کر سکے، عمران خان بھی عدلیہ کو فتح نہیں کر سکتے۔ تحریک انصاف کو ادارہ انصاف کے ساتھ لڑائی زیب نہیں دیتی، جو آپ کو اس لڑائی میں دھکیل رہا ہے وہ آپ کا دوست ہے نہ اپنا دوست ہے۔ چار دن کی چاندنی کے بعد اندھیری رات کی طرف مت بڑھیے۔