یہ تقریر پانچ ہفتے پرانی ہے لیکن کچھ کرم فرما اس پرانی تقریر کے بعض حصوں کو سیاق و سباق سے علیحدہ کر کے اپنی اپنی پسند کے مقاصد حاصل کرنے کے لئے پھیلا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس تقریر کے حق اور مخالفت میں بحث جاری ہے لیکن بہت کم لوگوں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ یہ تقریر کب اور کہاں کی گئی تھی؟ جس تقریر کا ذکر ہو رہا ہے وہ کسی اور کی نہیں بلکہ خود مجھ ناچیز کی ہے۔ سوشل میڈیا پر اس تقریر کے جن حصوں پر بحث ہو رہی ہے اُن میں اس خاکسار نے عرض کیا تھا کہ 1973ء کا آئین ختم نبوت کے منکرین کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے لیکن یہ آئین اتنا طاقتور ہے کہ اسے توڑنے والا ہمیشہ ذلیل و خوار ہوتا ہے اور یہ آئین بار بار ٹوٹ کر بار بار بحال ہو جاتا ہے۔ اسی تقریر میں یہ بھی عرض کیا تھا کہ کچھ طاقتیں چاہتی ہیں کہ پاکستان آنکھیں بند کرکے اسرائیل کو تسلیم کر لے لیکن 1973ء کا آئین اسرائیل کو تسلیم کرنے کے راستے میں بھی رکاوٹ ہے۔ دو دن پہلے کچھ دوستوں نے سوشل میڈیا پر اس تقریر کے بارے میں جاری بحث کی طرف میری توجہ دلائی۔
ایک حکومتی شخصیت نے کہا کہ ایسا لگتا ہے آپ مولویوں کے اجتماع میں مولوی بن کر ختم نبوت پر شعلہ بیانی کر رہے ہیں۔ جب میں نے اپنے اس دوست کو بتایا کہ اس اجتماع میں اسٹیج پر رضا ربانی بھی تشریف فرما تھے اور میرے بعد اُنہوں نے بھی اسی موضوع پر تقریر کی تو انہوں نے پوچھا کہ یہ تقریر کہاں کی گئی تھی؟ میں نے بتایا کہ یہ تقریر 23؍جون 2019ء کو کراچی میں مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی کے عرس پر کی گئی تھی۔ میں نے یہ بھی عرض کیا کہ توہین رسالت اور ختم نبوت صرف مولویوں کا نہیں بلکہ پاکستان کے ہر اُس شہری کا مسئلہ ہے جو علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کی سوچ پر یقین رکھتا ہے۔ 1973ء کے آئین میں یہ معاملات طے کر دیئے گئے ہیں لہٰذا جب بھی کوئی 1973ء کے آئین کی مخالفت کرتا ہے تو اُس پر شک کیا جاتا ہے کہ یہ غیر ملکی قوتوں کا آلہ کار ہے کیونکہ وہ غیر ملکی قوتیں ڈھکی چھپی نہیں ہیں جو پاکستان میں توہین رسالت کے خلاف قوانین کا خاتمہ بھی چاہتی ہیں اور آئین میں سے ختم نبوت کے متعلق شق بھی نکلوانا چاہتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے کچھ نام نہاد آئین پسند دانشور اور صحافی بھی ان قوانین کو انتہاء پسندانہ سمجھتے اور ان کا خاتمہ چاہتے ہیں لیکن جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ یہ قوانین پارلیمنٹ نے بنائے ہیں اور ان قوانین کو پارلیمنٹ ہی بدل سکتی ہے تو پھر وہ لاجواب ہو جاتے ہیں۔ ماہ گزشتہ کے وسط میں ایک پاکستانی احمدی عبدالشکور نے وائٹ ہائوس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی اور بتایا کہ میں اپنے آپ کو امریکہ میں مسلمان کہہ سکتا ہوں لیکن پاکستان میں مسلمان نہیں کہہ سکتا کیونکہ ہمیں 1974ء میں غیر مسلم قرار دے دیا گیا تھا۔ اس ملاقات میں کچھ اور پاکستانی بھی موجود تھے۔ انہیں ٹرمپ کو بتانا چاہئے تھا کہ 1974ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں کئی دن تک بحث ہوئی۔ اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار نے احمدیوں کے روحانی پیشوا مرزا ناصر پر تفصیلی جرح کی اور اس دوران مرزا ناصر احمد نے یہ تسلیم کیا کہ اسرائیل کے شہر حیفا میں اُن کی جماعت کا ایک مشن موجود ہے۔ اس بحث میں پیپلز پارٹی کے ایک وزیر ملک محمد جعفر خان نے بھی بھرپور حصہ لیا جو پہلے احمدی تھے۔ احمدیت چھوڑ کر انہوں نے "احمدیہ تحریک؟" کے نام سے ایک کتاب لکھی اور بتایا کہ جماعت احمدیہ نے اپنی پالیسی سے خود کو مسلمانوں سے دور کیا کیونکہ غیر احمدیوں کے ساتھ نماز پڑھنے یا کسی غیر احمدی کی نماز جنازہ پڑھنے پر احمدیوں کو جماعت سے خارج کر دیا جاتا ہے۔ ملک صاحب ایک پکے سوشلسٹ اور فیض احمد فیضؔ کے بہت قریبی دوست تھے، انہوں نے اپنی کتاب میں احمدی مولویوں اور غیر احمدی مولویوں پر برابر تنقید کی اور جب قومی اسمبلی نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا تو اس کی حمایت کرنے والوں میں مولانا شاہ احمد نورانی اور مولانا مفتی محمود سے لے کر خان عبدالولی خان اور سردار شیر باز مزاری سے لے کر سردار شوکت حیات تک سب کلین شیو سیاستدان شامل تھے۔ کیا آپ ولی خان اور شیر باز مزاری کو کلین شیو مولوی قرار دیں گے؟
جو لوگ توہین رسالت کا قانون اور ختم نبوت کی آئینی شق کے خلاف ہیں اُنہیں یاد رکھنا چاہئے کہ زور زبردستی سے ان قوانین کے خاتمے سے پاکستان میں احمدیوں سمیت دیگر غیر مسلموں کو فائدہ نہیں بلکہ بہت نقصان ہوگا۔ مسلم اور غیر مسلم پاکستانیوں کو مل جل کر ایک دوسرے کا تحفظ کرنا چاہئے اور اس کا بہترین راستہ یہ ہے کہ آئین پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔ احمدیوں اور دیگر غیر مسلموں کو آئین میں جو حقوق حاصل ہیں وہ حقوق انہیں ہر قیمت پر دیئے جائیں۔ توہین رسالت کے قانون کا غلط استعمال غیر مسلموں سے زیادہ مسلمانوں کےخلاف ہوتا ہے۔ خود مجھ پر کچھ عرصہ قبل توہین رسالت کا ایک جھوٹا الزام لگایا گیا اور الزام لگانے والوں نے کچھ باریش مدعی عدالتوں میں بھیجے لیکن ملک کے جید علماء کرام نے اس الزام کو مسترد کر دیا۔ اسی طرح ملک کی دیگر اہم شخصیات کے خلاف بھی جھوٹا پراپیگنڈا کیا گیا لیکن کئی نامور علماء نے اس پراپیگنڈے کو مسترد کر دیا۔ اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ توہین رسالت کا قانون غلط ہے۔ اگر کئی یورپی ممالک میں یہودیوں کے ساتھ ہونے والے ہولو کاسٹ پر تنقید جرم ہے تو پاکستان میں توہین رسالت جرم کیوں نہ ہو؟ اصل مسئلہ ان قوانین کا غلط استعمال ہے، اس غلط استعمال کو روکنا ضروری ہے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ 1929ء میں غازی علم دین شہید نے توہین رسالت کے مرتکب ایک پبلشر راج پال کو اس لئے قتل کیا کیونکہ مسلمانوں نے اس پبلشر کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 153الف کے تحت کارروائی کی درخواست کی تھی۔ سیشن کورٹ نے اُسے چھ ماہ قید کی سزا دی لیکن ہائیکورٹ نے اسے بری کر دیا۔ اگر ہائیکورٹ سزا ختم نہ کرتی تو شاید راج پال قتل نہ ہوتا۔ غازی علم دین شہید کی پھانسی کی سزا کے خلاف قائداعظمؒ محمد علی جناح لاہور ہائیکورٹ میں پیش ہوئے۔ علامہ اقبالؒ نے غازی علم دین شہید کا جسد خاکی میانوالی کی ایک قبر سے نکال کر لاہور لانے میں جو کردار ادا کیا وہ بھی سب کو معلوم ہے۔ یہ علامہ اقبالؒ ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے احمدیوں کے بارے میں اپنے تحفظات کا کھل کر اظہار کیا اور جب 1974ء میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تو ملک کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ ختم نبوت کی قرارداد مولانا شاہ احمد نورانی نے 36ارکانِ اسمبلی کے دستخطوں سے پیش کی تھی لیکن قرارداد منظور ہوئی تو شورش کاشمیری نے کریڈٹ ذوالفقار علی بھٹو کو دیا۔ شورش اور بھٹو دونوں کلین شیو تھے، ایک دوسرے کے مخالف تھے لیکن ختم نبوت پر دونوں ایک تھے۔ بھٹو نے ختم نبوت کا مسئلہ کسی مولوی کے دبائو پر حل نہیں کیا تھا بلکہ پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت کے بل پر حل کیا جو کلین شیو تھی۔ لہٰذا جمہوریت پر یقین رکھنے والوں کو اس آئینی ترمیم کا احترام کرنا چاہئے اور جو آئین کا احترام نہیں کرے گا، وہ ذلیل و خوار ہوگا۔