وہ ایک عورت نہیں، وہ ایک جیتا جاگتا المیہ ہے۔ پاکستانی قوم کو اس المیے کے متعلق سب سے پہلے عمران خان نے آگاہ کیا تھا۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ 2002کے انتخابات سے جنم لینے والی قومی اسمبلی میں عمران خان اپنی پارٹی کے واحد ایم این اے تھے۔ ان دنوں عمران خان مسلم لیگ(ن) کے ارکان اسمبلی چوہدری نثار علی خان اور خواجہ محمد آصف کے بہت قریب ہوا کرتے تھے۔ وزیراعظم کے الیکشن میں عمران خان نے مسلم لیگ(ن) کے ساتھ مل کر میر ظفر اللہ جمالی کے مقابلے پر مولانا فضل الرحمان کو ووٹ دیا تھا۔ یہ پاکستان میں پرائیویٹ ٹی وی چینلز کے آغاز کا زمانہ تھا اور جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لئے پیمرا میں پولیس افسروں کو تعینات کر رکھا تھا۔ عمران خان کو ہم جب بھی اپنے کسی شو میں بلاتے تو ہمیں پیمرا سے لے کر اقتدار کے ایوانوں تک کئی لوگوں کی ناراضی کا سامنا کرنا پڑتا۔ عمران خان سے مشرف حکومت کی ناراضی کی بڑی وجہ یہ تھی کہ عمران خان نے 2002ءکے انتخابات سے قبل مسلم لیگ (ق)اور ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر آنے والی حکومت کا حصہ بننے سے انکار کیا تھا۔ عمران خان کا خیال تھا کہ 2002ءکے انتخابات میں ان کے ساتھ دھاندلی ہوئی اسی لئے وہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن کا حصہ بن گئے۔ مسلم لیگ(ق) کی قیادت دبے لفظوں میں شکوہ کرتی تھی کہ دھاندلی عمران خان کے ساتھ نہیں بلکہ میانوالی میں مسلم لیگ(ق) کے امیدوار کے ساتھ ہوئی ہے جسے جنرل پرویز مشرف نے اس امید میں ہروا دیا کہ قومی اسمبلی کی ایک نشست حاصل کرنے کے بعد عمران خان ان کی حکومت کا حصہ بن جائے گا لیکن عمران خان نے میر ظفر اللہ جمالی کے بجائے مولانا فضل الرحمان کو ووٹ دے کر مشرف کو مزید ناراض کردیا۔ ایک شام عمران خان نے جیو نیوز کے پروگرام کیپٹل ٹاک میں میر ظفر اللہ جمالی کی مخالفت کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ میں نے جمالی صاحب کے خلاف نہیں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ووٹ دیا ہے جس نے 2002کے انتخابات میں دھاندلی کی۔ اس پروگرام کے بعد مجھے جنرل پرویز مشرف کے ایک غیر سیاسی مشیر نے بلایا اور بڑے ہی نرم لیکن سنجیدہ لہجے میں کہا کہ برخوردار آئندہ آپ کے شو میں عمران خان نظر نہیں آنا چاہئے ورنہ بڑی گڑ بڑ ہوجائے گی۔ کچھ ایسا ہی ہدایت نامہ پیمرا سے بھی آگیا اور بلیک لسٹ میں چوہدری نثار اور خواجہ محمد آصف بھی شامل ہوگئے۔ غیر علانیہ سنسر شپ سے یہ ہمارا پہلا تعارف تھا۔
ابھی اس واقعے کو چند ہی دن گزرتے تھے کہ ایک دن عمران خان کا پیغام ملا کہ انسانی حقوق کا بڑا اہم مسئلہ ہے اور اسے آپ کے شو میں اٹھانا ہے۔ اب ہم خان صاحب کو کیا بتاتے کہ حکومت نے آپ کی ہمارے پروگرام میں شرکت پر غیر اعلانیہ پابندی عائد کردی ہے۔ اس وقت صرف دو پرائیویٹ ٹی وی چینلز تھے اور دو چینلز پر چار چھ اینکرز اور ان کی انتظامیہ کو کنٹرول کرنا بہت آسان تھا۔ میں نے عمران خان سے مسئلے کی نوعیت پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ ایک عورت کو کراچی سے اس کے چھوٹے چھوٹے بچوں سمیت اغوا کر لیا گیا ہے۔ یہ ایک انسانی مسئلہ تھا لہٰذا ہم نے عمران خان پر عائد غیر اعلانیہ سنسر شپ کی خلاف ورزی کا خطرہ مول لیا اور اپنی تئیں احتیاط یہ کی کہ اس وقت کے وزیر داخلہ فیصل صالح حیات کو بھی اس پروگرام میں مدعو کرلیا۔ عمران خان نے اس پروگرام میں انکشاف کیا کہ کراچی میں ایک خاتون عافیہ صدیقی کو اس کے تین بچوں سمیت حکومتی اداروں نے اٹھا لیا ہے۔ 2003میں جبری گمشدگیوں کے خلاف یہ پہلی موثر آواز تھی جو عمران خان نے بلند کی۔ عمران خان کو پروگرام میں بلانے پر حکومت ناراض ہوئی تو اس وقت کے وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی نے مہربانی کرتے ہوئے ہمیں حکومت کے غیظ و غضب سے بچالیا لیکن عمران خان مسلسل ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے لئے آواز اٹھاتے رہے۔
عمران خان اور خواجہ محمد آصف نے قومی اسمبلی میں بھی ڈاکٹر عافیہ صدیقی سمیت دیگر گمشدہ افراد کے لئے آواز اٹھانا شروع کی اور انہی کے توسط سے ہمیں مسعود جنجوعہ سمیت کچھ دیگر گمشدہ افراد کے نام ملے۔ مسعود جنجوعہ کی اہلیہ آمنہ مسعود جنجوعہ کے ساتھ ہماری پہلی ملاقات بھی عمران خان کے ذریعہ ہوئی۔ 19اکتوبر 2006کو "تلاشِ گمشدہ" کے نام سے میں نے مسعود جنجوعہ سمیت بیس لاپتا افراد کے بارے میں کالم لکھا جو روزنامہ جنگ میں شائع ہوا۔ اس کالم کے بعد مجھے اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز نے بلایا اور کہا کہ عمران خان ایک گمراہ آدمی ہے جو پرویز مشرف کی نفرت میں القاعدہ اور طالبان کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے آپ اس کے ایجنڈے کو آگے نہ بڑھائیں کیونکہ اس کا کوئی مستقبل نہیں ہے اور پرویز مشرف مزید دس پندرہ سال پاکستان کے حکمران رہیں گے۔ میں نے شوکت عزیز سے کہا کہ چلیں مان لیا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا تعلق القاعدہ سے ہے لیکن اس کے تین چھوٹے چھوٹے بچوں کا کیا قصور ہے؟ انہیں تو بازیاب کرا دیں۔ شوکت عزیز خاموش ہوگئے لیکن کچھ ہی دنوں کے بعد نامعلوم افراد کی طرف سے دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس دوران عمران خان نے ایک برطانوی صحافی یووان ریڈلی کے ساتھ مل کر پریس کانفرنس کی اور دعویٰ کیا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی افغانستان کی بگرام جیل میں قید ہے۔ 2007میں مشرف حکومت کے خلاف وکلاء تحریک نے حالات کا پانسہ پلٹ دیا۔ اپنا اقتدار ڈولتا دیکھ کر پرویز مشرف نے ایک عجیب ڈرامہ کیا اور عافیہ صدیقی کو افغانستان کے شہر غزنی سے گرفتار کروا کر امریکہ پہنچا دیا۔ جنرل پرویز مشرف کا اقتدار 2008میں ختم ہو گیا لیکن ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا المیہ ختم نہ ہوسکا۔ 2010میں انہیں اقدام قتل کے الزام میں 86سال قید کی سزا سنادی گئی۔ اس دوران ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے دو بچے مریم اور احمد ان کے اہل خانہ کو لوٹا دئیے گئے لیکن تیسرے بیٹے سلمان کی کوئی خبر نہیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکی جیل پہنچانے والے پرویز مشرف آج خود ایک نمونہ عبرت بن چکے ہیں لیکن جو المیہ انہوں نے شروع کیا وہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ اس المیے کو دنیا کے سامنے بےنقاب کرنے والے عمران خان آج پاکستان کے وزیراعظم ہیں، وزیراعظم بننے کے بعد سے وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بارے میں خاموش ہیں لیکن انہوں نے عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کو یقین دلایا ہے کہ وہ اپنے دورہ امریکہ میں عافیہ کا مسئلہ ضرور اٹھائیں گے۔ بعض اطلاعات کے مطابق افغان طالبان نے بھی یہ مسئلہ امریکہ کے ساتھ اٹھایا ہے کیونکہ عافیہ کو غزنی سے گرفتار کیا گیا۔ امید رکھنی چاہئے کہ عمران خان اس المیے کو ضرور ختم کریں گے جو مشرف نے شروع کیا تھا اور امریکہ کی جیل سے پاکستانی قوم کی غیرت کو رہائی ضرور دلوائیں گے۔