کشمیر کو "جنت الاولیاء "کہا جاتا ہے۔ سرینگر سے لے کر مظفر آباد تک جموں و کشمیر کے شہر شہر اور گائوں گائوں میں اولیاء و مشائخ کے مزارات نظر آتے ہیں۔ اس خطے میں اسلام تلوار کے ذریعہ نہیں بلکہ حضرت بلبل شاہؒ، سید میر علی ہمدانیؒ، شیخ نور الدین ولیؒ، شیخ شمس الدین عراقیؒ اور حضرت بابا جیون شاہؒ جموں والے جیسے صوفیاء کی تعلیمات سے پھیلا۔ یہ وہ خطہ ہے جہاں مقبوضہ علاقے میں لِلہ عارفہؒ اور حبہ خاتونؒ جیسی صوفیوں کے اشعار آج بھی لوگوں کی زبان پر ہیں اور آزاد کشمیر میں حضرت مائی امّیؒ اور حضرت مائی طوطی صاحبہؒ کے مزارات پر عقیدت مندوں کا ہجوم یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ یہاں عورتوں کا بہت احترام کیا جاتا ہے لیکن آج مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں کشمیری خواتین کی آئے روز بے حرمتی پر لِلہ عارفہؒ کی روح روزانہ تڑپتی ہو گی اور حبہ خاتونؒ کو وہ دھوکا یاد آتا ہوگا جو شہنشاہ اکبر نے اُس کے خاوند یوسف شاہ چک کے ساتھ کیا تھا۔ اکبر نے کشمیر پر جب بھی قبضہ کرنے کی کوشش کی تو کشمیر کا حکمران یوسف شاہ چک اُس کی کوشش ناکام بنا دیتا تھا۔ آخر کار اکبر نے یوسف شاہ چک کو صلح کا پیغام بھیجا اور ملاقات کے لئے دہلی بلایا۔ یوسف شاہ چک کی اہلیہ حبہ خاتونؒ ایک شاعرہ تھیں۔ اُنہوں نے خاوند کو دہلی جانے سے روکا لیکن یوسف شاہ چک مغل بادشاہ کے احترام میں دہلی چلا گیا۔ حبہ خاتونؒ کا شک درست نکلا اور اکبر نے یوسف شاہ چک کو گرفتار کر کے بہار کی ایک جیل میں قید کر دیا۔ خاوند کی جدائی اور قید کے بعد حبہ خاتونؒ نے بہت درد بھری شاعری کی اور وہ اپنے گیت خود بھی گایا کرتی تھیں۔ جو دھوکا یوسف شاہ چک کے ساتھ ہوا وہی دھوکا دہلی والوں نے ایک دفعہ پھر اُن کشمیریوں کے ساتھ کیا ہے جو دہلی والوں پر اعتبار کرتے تھے۔ 5اگست 2019کے بعد سے دہلی والوں نے پوری ریاست جموں و کشمیر کو قید کر رکھا ہے۔ جدید ہتھیاروں سے لیس آٹھ لاکھ بھارتی فوج ایک بڑے قتل عام کے ذریعہ کشمیری مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے پر تلی بیٹھی ہے اور اسی لئے حکومت پاکستان نے مقبوضہ علاقے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا معاملہ عالمی عدالت انصاف میں اُٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ مقامِ شکر ہے کہ ہماری حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی اختلافات کی شدت کے باوجود کم از کم کشمیر کے مسئلے پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا جا رہا ہے اور اپوزیشن کو اعتماد میں لینے کے بعد کشمیر کے معاملے پر حکومت اہم فیصلے کر رہی ہے۔
یہ پہلو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اس وقت پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ ایک طرف ہم آئی ایم ایف کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہیں تو دوسری طرف ہمارے سر پر ایف اے ٹی ایف کی تلوار لٹک رہی ہے لیکن اس کے باوجود ہم اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کا اجلاس بلانے میں کامیاب رہے جس کے پانچ میں سے تین ارکان نے اجلاس کے دوران پاکستان کے موقف کی حمایت کی تاہم اعلامیہ جاری کرنے سے گریز کیا۔ عام خیال یہ ہے کہ اس اجلاس کے انعقاد میں چین نے اہم کردار ادا کیا۔ یہ درست ہے کہ چین نے واقعی اس اجلاس کے لئے اہم کردار ادا کیا لیکن چین کے علاوہ روس اور برطانیہ کا کردار بھی اہم تھا۔ روس نے اپنے روایتی موقف سے ہٹ کر اس اجلاس کے انعقاد کی مخالفت سے گریز کیا اور اجلاس میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کا ذکر کر کے فرانس کو حیران کر دیا جو اس اجلاس میں بھارت کا مقدمہ لڑ رہا تھا۔ برطانیہ نے اس اجلاس میں مطالبہ کیا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کہنا کافی نہیں کہ سلامتی کونسل کے اجلاس میں چین کے علاوہ روس اور برطانیہ کی طرف سے پاکستانی موقف کی حمایت دراصل ہماری خارجہ پالیسی کی کامیابی ہے۔ یقیناً دفتر خارجہ نے بھی بہت محنت کی لیکن اس معاملے میں انٹرنیشنل میڈیا اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے پاکستانیوں اور کشمیریوں کے مظاہروں نے بھی اہم کردار ادا کیا اور یہی وجہ تھی کہ سلامتی کونسل کے اجلاس میں امریکی مندوب کا جھکائو اگر پاکستان کی طرف نہیں تھا تو بھارت کی طرف بھی نہیں تھا۔
سلامتی کونسل کے بعد پاکستان کو جموں و کشمیر کا معاملہ اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل میں بھی اٹھانا ہے جو پہلے ہی اپنی رپورٹوں میں بھارتی ریاست کے ظلم و جبر کا پردہ چاک کر چکی ہے۔ پاکستان کی سابق سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کو جنیوا میں ہیومن رائٹس کونسل میں یہ معاملہ اٹھانے کی ذمہ داری سونپی جا چکی ہے۔ عالمی عدالت انصاف اور ہیومن رائٹس کونسل کے علاوہ اگلے ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی یہ معاملہ اٹھایا جائے گا تاکہ بھارت کو مقبوضہ علاقے میں مسلمانوں کے قتل عام سے روکا جائے لیکن اگر بھارت باز نہ آیا تو حالات بگڑ سکتے ہیں۔ ماضی میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ جب بھی بھارت نے مقبوضہ علاقے میں ظلم بڑھایا تو آزاد کشمیر کے لوگوں نے سیز فائر لائن عبور کرنے کا اعلان کر دیا۔ ایسا اعلان سب سے پہلے مسلم کانفرنس کے رہنما چوہدری غلام عباس نے 15جون 1958کو کیا تھا۔ انہوں نے 27جون کو سیز فائر لائن توڑنے کا اعلان کر دیا تھا۔ چوہدری غلام عباس کو روکنے کی بہت کوشش ہوئی لیکن وہ باز نہ آئے لہٰذا انہیں گرفتار کر لیا گیا جس پر راولپنڈی سے لے کر مظفر آباد تک کئی دن مظاہرے ہوتے رہے۔ 30جون 1958کو لاہور میں ایک بڑا مظاہرہ ہوا جس کے بعد حکومت چوہدری غلام عباس کو رہا کرنے پر مجبور ہو گئی۔ ایک طرف اس وقت کے وزیراعظم فیروز خان نون کو بھارتی جارحیت کا سامنا تھا دوسری طرف چوہدری غلام عباس سیز فائر لائن توڑنے پر بضد تھے۔ فروری 1992میں جے کے ایل ایف نے سیز فائر لائن توڑنے کا اعلان کر دیا تھا جو اب لائن آف کنٹرول بن چکی تھی۔ ایک دفعہ پھر حکومت پاکستان اور کشمیری آمنے سامنے آئے اور ناخوشگوار صورتحال پیدا ہوئی۔ اس 15اگست کو آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر نے وزیراعظم پاکستان عمران خان کی مظفر آباد میں موجودگی کے دوران لائن آف کنٹرول کو عبور کرنے کا اشارہ دیا۔ راجہ فاروق حیدر دراصل آزاد کشمیر کی رائے عامہ کی ترجمانی کر رہے تھے کیونکہ کشمیریوں کی ایک بڑی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت مذاکرات کے ذریعہ یہ مسئلہ طے نہیں کر پائے اور اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی غیر موثر ہو چکی ہیں تو پھر وہ خود ہی اُس سرحد کو روند ڈالیں جس نے کشمیر کو تقسیم کر رکھا ہے۔ اولیاء کی سرزمین کو مزید خونریزی سے بچانا صرف پاکستان کی نہیں بلکہ باقی دنیا کی بھی ذمہ داری ہے اس لئے دنیا سُن لے کہ اگر بھارت مقبوضہ علاقے میں ظلم سے باز نہ آیا تو پھر آزاد کشمیر اور پاکستان کے لوگ لائن آف کنٹرول کو اپنے خون سے سرخ کرنے سے گریز نہ کریں گے۔