یہ لہجہ کچھ بدلا بدلا سا تھا۔ اس لہجے میں اپنائیت اور محبت کی جگہ بے چینی اور احتجاج نمایاں تھا۔ ابھی میں اس احتجاج کی نوعیت سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ خواجہ ظفر نائیک کے لہجے میں موجود احتجاج سسکیوں میں بدل گیا اور انہوں نے بڑی بے بسی کے ساتھ روتے ہوئے کہا کہ آپ کی مذمتوں اور تقریروں سے میرے بھوکے بچوں کا پیٹ نہیں بھرے گا، سمجھ نہیں آ رہی کہ میں اپنے بچوں کی مدد کیسے کروں؟ خواجہ ظفر نائیک کا تعلق سرینگر سے ہے۔ 2002ء میں اپنے محسن اور دوست خواجہ عبدالغنی لون کے قتل پر اتنے مایوس ہوئے کہ سری نگر چھوڑ کر دبئی چلے آئے۔ میری اُن کے ساتھ ملاقات کا ذریعہ لون صاحب تھے۔ لون صاحب دنیا سے چلے گئے لیکن خواجہ ظفر نائیک کے ساتھ تعلق برقرار رہا۔ نائیک صاحب کے ساتھ اکثر فون پر رابطہ رہتا ہے۔ سرینگر سے ہجرت کر جانے کے باوجود اُنہوں نے اپنے آبائی علاقے میں ایک یتیم خانہ قائم کر رکھا ہے۔ وہ جو کچھ بھی کماتے ہیں اس کا نصف سے زیادہ ساٹھ یتیم بچوں کی پرورش اور تعلیم پر خرچ کر دیتے ہیں۔ خواجہ صاحب کو اپنے نائیک ہونے پر بہت ناز ہے۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ میسور کے حکمران حیدر علی اور ٹیپو سلطان بھی نائیک کشمیری تھے، ان کے بزرگ اکبر بادشاہ کے ظلم سے تنگ آ کشمیر چھوڑ گئے تھے۔ میں جب بھی پوچھتا کہ ٹیپو سلطان کے کشمیری ہونے کا کیا ثبوت ہے؟ تو کہا کرتے کہ مولانا محمود بنگلوری نے تاریخ میسور میں ٹیپو سلطان کی قوم نائیک بیان کی ہے۔ پھر ایک دن فون پر خبر دی کہ محمد الدین فوق نے "تاریخ اقوامِ کشمیر" کی جلد اول میں بھی ٹیپو سلطان کو نائیک کشمیری لکھا ہے۔ اس سال گیارہ مارچ کو روزنامہ جنگ میں میرا کالم "عزت چاہئے یا ذلت؟" شائع ہوا تو نائیک صاحب کا صبح ہی صبح فون آ گیا اور کہنے لگے کہ آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حامیوں کو خبردار کر دیا کہ اگر اسرائیل کے بارے میں ہم نے پالیسی بدل دی تو مسئلہ کشمیر پر ہمارا موقف کمزور پڑ جائے گا۔ 29؍اپریل 2019ء کو "وزیراعظم کا ماتم" کے عنوان سے میرا کالم شائع ہوا جس میں آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر کی طرف سے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں بہائے گئے آنسوئوں کا ذکر تھا۔ اُس دن نائیک صاحب نے فون پر بتایا کہ وہ دبئی سے دوحہ منتقل ہو رہے ہیں۔ وہ بار بار تقاضا کر رہے تھے کہ آپ مسئلہ کشمیر کو نظر انداز نہ کریں، اس پر بولتے اور لکھتے رہیں کیونکہ پاکستان کی حکومت اور اپوزیشن کشمیریوں کے دشمنوں کو دوست بنانے کی دوڑ میں لگی ہوئی ہے۔ وہ بار بار کشمیر میں کسی بڑے سانحے کا خدشہ ظاہر کرتے رہے۔
جون کے پہلے ہفتے میں مکہ میں او آئی سی کانفرنس ہوئی جس میں مجھے بھی بطور مبصر شرکت کا موقع ملا۔ اس کانفرنس کے اختتام پر جو مکہ ڈیکلریشن جاری کیا گیا اس میں کشمیر کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ میں نے 3جون کو اپنے اسی کالم میں لکھا کہ وزیراعظم عمران خان کی تقریر میں کشمیر کا ذکر تھا لیکن مکہ ڈیکلریشن میں کشمیر کا ذکر نہیں تھا اور پاکستان مکہ میں کشمیر کا مقدمہ ہار گیا۔ میرے اس کالم پر کچھ حکومتی شخصیات ناراض ہو گئیں۔ مجھے غلط ثابت کرنے کیلئے او آئی سی کی ویب سائٹ پر موجود ایک طویل اعلامیے کا حوالہ دے کر کہا گیا کہ اس میں کشمیر کا ذکر موجود ہے حالانکہ جو ڈیکلریشن 27رمضان المبارک کے دن صحافیوں کے ہاتھوں میں تھمایا گیا اُس میں کشمیر کا ذکر نہیں تھا۔ حکومت نے اپنی ناکامی کو چھپانے کیلئے اپنے حق میں اداریے لکھوائے اور جب میں نے کچھ حکومتی شخصیات کو سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ کشمیر پر بہت بڑی سیاسی و سفارتی ناکامی کی طرف بڑھ رہے ہیں تو سوشل میڈیا پر گالی گلوچ کے ذریعہ مجھے چپ کرانے کی کوشش کی گئی۔ یہ وہ نکتہ تھا جس پر کچھ حکومتی شخصیات کے ساتھ میرے تعلقات ڈیڈ لاک کا شکار ہو گئے اور آہستہ آہستہ وہ اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کے ذریعہ پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ گئے۔ کچھ حقائق ایسے ہیں جن کو تبدیل کرنا کسی کے بس میں نہیں۔ 25جولائی 2019ء کو اسی اخبار میں عمران خان کے دورۂ امریکہ پر تبصرہ کرتے ہوئے میں نے عرض کیا تھا "مودی مسئلہ کشمیر کا ویسا ہی حل چاہتے ہیں جیسا ٹرمپ کو افغانستان میں چاہئے۔ مودی چاہتے ہیں پاکستان اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر کے حل پر زور دینا چھوڑ دے اور ایک ڈپلومیٹک سرنڈر کو اپنی کامیابی قرار دے کر خوشی کے گیت گانا شروع کر دے۔ یہ وہی فارمولا ہے جس پر جنرل مشرف اور منموہن سنگھ نے اتفاق کیا تھا اور حریت کانفرنس کے بزرگ رہنما سید علی شاہ گیلانی نے اس فارمولے کو کشمیریوں کے ساتھ غداری قرار دیا تھا۔ یاد رکھئے گا بھارت جب بھی پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کرے گا تو ایک بہت سخت موقف اختیار کرنے کے بعد یہ لچک دکھائے گا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر اسی کے پاس رہے اور پاکستان آزاد کشمیر پر اکتفا کرے"۔
25؍جولائی کو یہ کالم شائع ہوا تو خواجہ ظفر نائیک نے پھر فون کیا اور کہا کہ اب تو اندھوں کو بھی نظر آ رہا ہے کہ مودی کشمیر میں کوئی ایڈونچر کرے گا، جب شور شرابہ ہوگا تو پاکستان کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی ظاہر کرکے پوری دنیا پر احسان جتائے گا اور آخرکار لائن آف کنٹرول کو مستقل بارڈر قرار دیکر مشرف اور منموہن سنگھ کے فارمولے کو آگے بڑھائے گا۔ میں نے خواجہ صاحب کو یقین دلایا کہ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ 5؍اگست 2019ء کو میں نے اپنے کالم میں لکھا کہ بھارت کے ظالم حکمران مقبوضہ جموں و کشمیر میں وہی کرنے جا رہے ہیں جو 1948ء میں فلسطین میں ہوا، بھارتی حکومت کشمیریوں کو دی گئی آئینی گارنٹی ختم کرکے ریاست جموں و کشمیر کو تقسیم کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے تاکہ اکثریت کو اقلیت میں بدل دیا جائے۔ اسی شام بھارتی سرکار نے آرٹیکل 370اور 35اے ختم کر دئیے تو خواجہ صاحب نے فون پر کہا "آپ کئی مہینوں سے لکھ رہے تھے کہ کشمیر میں کچھ ہونے والا ہے لیکن آپ کی حکومت سوئی رہی، اسے کہتے ہیں بھینس کے سامنے بین بجانا"۔ یہ کہہ کر انہوں نے فون بند کر دیا۔
عید الاضحی کے دن میں نے دوپہر کو خواجہ ظفر نائیک کو بار بار فون کیا لیکن اُن کا فون بند ملا۔ شام کو اُن کا فون آیا تو کہنے لگے کہ کاش آج ٹیپو سلطان زندہ ہوتا تو ہم اُس کی قیادت میں لڑتے لڑتے جان دے دیتے۔ میں نے کہا یہ وقت جذباتی باتوں کا نہیں، ہمیں کچھ عملی اقدامات کرنا چاہئیں۔ خواجہ صاحب پھٹ پڑے۔ کہنے لگے تم لوگوں نے سوائے مذمتی بیانات اور تقریروں کے کیا کیا ہے؟ سفارتی تعلقات تو پہلے بھی محدود کئے گئے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو خطوط تو پہلے بھی لکھے گئے، سمجھوتہ ایکسپریس بھی کئی دفعہ بند ہوئی، کیا ان اقدامات سے میں اپنے ان بچوں کی مدد کر سکتا ہوں جو سرینگر کے ایک یتیم خانے میں پچھلے کئی دن سے قیدیوں کی طرح پڑے ہیں اور انکے پاس خوراک ختم ہو چکی ہے؟ میں نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا کہ آپ ہی بتائیے کہ حکومت پاکستان کیا کرے؟ وہ چلا کر بولے کہ اگر کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم عید کے دنوں میں سیاسی مخالفین کی عورتوں کو جیلوں میں پھینک کر اپنا تماشا نہ بناتے، میکا سنگھ کو کراچی بلا کر ڈانس نہ کرواتے اور بھارت کیلئے فضائی حدود ہی بند کر دیتے۔ پھر وہ زار و قطار رونے لگے اور بولے کہ اب ہمیں آپ کے حکمرانوں سے نہیں، صرف فوج اور عوام سے توقع ہے۔ پاکستانی عوام لائن آف کنٹرول کی طرف لانگ مارچ کریں اور آہنی باڑ کو روند ڈالیں، ہم بھی مقبوضہ علاقے کی طرف مارچ کرینگے۔ پھر انکے الفاظ ختم ہو گئے اور میں فون پر صرف سسکیاں سن رہا تھا۔