تاریخ یہ کہتی ہے کہ بہترین صلاحیت آزادی میں بروئے کار آیا کرتی ہے، تقلید یا غلامی میں نہیں۔
مکرّر عرض ہے کہ عقل کبھی تنہا نہیں ہوتی، منفی یا مثبت ہمیشہ اس کے ساتھ کوئی دوسرا جذبہ جڑا ہوتا ہے۔ سب سے اہم چیز حسنِ نیت ہے۔ کامیاب وہی ہوتے ہیں، جن میں خلوص کارفرما ہو۔
دین اور سیاست، زندگی کے دو اہم ترین شعبوں کو ہم نے ادنیٰ لوگوں پہ چھوڑ دیا۔ قرآن و سنت کا مطالعہ ہمیں خود کرنا ہوگا۔ ہر شخص کے سر میں 1300 سی سی کا دماغ ہے اور ہر ایک کو لازم ہے کہ انفس و آفاق کی نشانیوں پہ غور کرے۔
ہیجان کی ماری، لیڈروں کی یہ پوری کھیپ ناکام ہو چکی۔ مسلسل ان پر دباؤ رکھنا ہوگا یا نجات حاصل کرنا ہوگی۔ درجات علم کے ساتھ ہیں اور ادراک ہی سے گرہ کھلتی ہے۔ آدمی اپنے زمانے میں زندہ رہتا ہے اور دانا وہ ہے، جو اپنے عصر کو جانتا ہو۔ جدید ٹیکنالوجی اور جدید علم ہی کی نہیں، ہمیں نئی سیاست کی بھی ضرورت ہے۔ ملک کو ہم رہنماؤں پہ نہیں چھوڑ سکتے، جو اپنی اغراض کے بندے ہیں، لالچ کے مارے، خوف سے دوچار۔ ماضی سے جو سیکھتے نہیں، مستقبل میں جھانک نہیں سکتے۔
یہ اپنی ذات کے لوگ ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک بھی نہیں، جو عصری تہذیبوں کو سمجھتا ہو، بھارت، چین، یورپ اور امریکہ کو، جن سے مقابلہ درپیش ہے۔ ان میں کوئی نہیں جو اسلام کی علمی روایت سے واقف ہو، جس نے سیکولرازم کا تفصیل سے مطالعہ کیا ہو، جدید معیشت کا پورا ادراک رکھتا ہو۔ جس پر یہ راز آشکار ہو کہ قدیم دنیا کی موثر حکومتیں بھی وہ تھیں، جو کسی لائحہ عمل کی پابند رہیں ؛حتیٰ کہ تاتاری بھی جو چنگیز خان کے آئین "یاسا" کے پیروکار تھے۔ امیر تیمور اور ظہیر الدین بابر کی اولاد، اصلاً جو ترک تھے لیکن مغل کہلائے۔ اقبالؔ نے کہا تھا:
ترکانِ عثمانی سے کچھ کم نہ تھے ترکانِ تیموری۔ عثمانی ترک، ٹی وی ڈراموں سے نہیں سمجھے جا سکتے۔ تاریخ کو مختلف مصنفین کے عمیق مطالعے سے سمجھا جاتا ہے۔ ان کے کارناموں اور ناکامیوں پر غورو فکر سے۔ بدترین غلطیوں کے باوجود اور اول اول، ایک نظام وضع کرنے کے بعد، جس میں بادشاہ کے اختیارات محدود تھے، سلطان سلیم کے دور میں، پھر سے بادشاہ کو دیوتا بنایا گیا، وگرنہ ترک وہ تھے، جنہوں نے الپ ارسلان اور سلطان محمد فاتح ایسے تاریخ ساز حکمران پیدا کیے۔ الپ ارسلان نے محمود غزنوی کی وراثت ہی نہ سنبھالی، بغداد کی زوال پذیر خلافت کا متبادل بھی بنا۔ وہ نہ ہوتا تو ایک ہزار برس پہلے مسلمان زوال کا شکار ہو جاتے۔
سلطان محمد فاتح، مسلم تاریخ کے سب سے زیادہ بابرکت حکمرانوں میں سے ایک ہے۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے دو لشکروں کے لیے جنت کی بشارت دی تھی۔ ایک وہ جو قسطنطنیہ کو فتح کرے اور دوسرا وہ جو غزوہ ہند میں ظفر مند ٹھہرے گا۔ قسطنطنیہ کو سلطان محمد فاتح نے زیر کیا۔ غزوہ ہند کی بشارت مسلم برصغیر کے مقدر میں ہے۔ فرمایا تھا: ہند کے مسلمان اول اس کے مشرکوں کو زیر کریں گے، پھر دمشق میں یہودیوں کے خلاف ابنِ مریم کا ساتھ دیں گے۔ جو دانا احادیث پر یقین نہیں رکھتے، اس کے باوجود نہیں رکھتے کہ 80 فیصد اسلامی قوانین کی بنیاد حدیثِ رسولؐ پہ ہے، کیا وہ اس نکتے پر غور کرنے کی زحمت کریں گے کہ رحمۃ اللعالمین ؐنے جب یہ بشارت دی تو ایک بھی ہندی اور ایک بھی ترک مسلمان نہ تھا۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ آج عالم اسلام میں پیشہ ورانہ مہارت کی حامل دو ہی افواج ہیں، ایک پاکستانی، جو مغرب کا ہدف ہے، بھارت اور ان دونوں کے ایجنٹوں کا؛ اگرچہ خود اس نے بھی اپنے ساتھ انصاف نہ کیا۔ سیاست کی غلاظت میں الجھی رہی، پھر بھی قدرتِ کاملہ نے اسے بچا لیا۔ دوسری ترک فوج۔ اللہ کی شان کہ مصطفی کمال اتاترک نے، جو سیکولر نہیں، مذہب دشمن تھا، فوج کو ملک سونپ دیا تھا۔ مغرب سے دائمی رفاقت کا پیمان کیا تھا اور لادینی خطوط پر چلانے کے لیے، سیاست کو آہنی خول پہنایا تھا۔ بالاخر اس نے رہائی پا لی۔ اب ترک فوج تشکیلِ نو کے مراحل سے گزر رہی ہے۔
یہی ترک شہسوار تھے، سرما کی شدت میں پہلی بار جنہوں نے نکٹائی پہنی۔ پہلی بار پتلون پوش باوردی فوج بنائی۔ پینٹالون ترکی زبان کا لفظ ہے۔ ترک ہی تھے، سپین کے بعد جنہوں نے ایک زمانے میں بہترین عدالتیں قائم کیں۔ وہی تھے، قدیم چین کے بعد جنہوں نے سول سروس کا تصور اپنایا۔
ان دانشوروں کو کیا کہیے، جو مذہبی طبقے اور مذہب میں امتیاز نہیں کرتے۔ سیاست ایک فن ہے۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے ارشاد کیا تھا: بنی اسرائیل کے انبیا سیاست کیا کرتے۔ مسلم برصغیر نے جناح جیسا سیاسی عبقری جنا، جن سے عرب و عجم کی سیادت کا دعویٰ کرنے والے ہار گئے۔ پاکستانی طالبان اور ان کے حامی انہی کی معنوعی اولاد ہیں۔ اپنی پوری تاریخ میں مسلمانوں نے علما کی سیاسی قیادت کبھی قبول نہ کی۔ وہ جو عظیم عالم تھے، وہ جانتے تھے کہ ان کا میدان فروغِ علم اور تزکیہ نفس ہے، کارِ سیاست نہیں۔ خلیفۂ رسول سیدنا ابوبکر صدیقؓ، امیر المومنین عمر فاروق اعظمؓ، امیر المومنین سیدنا عثمانؓ اور سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کیا مولوی تھے؟ جی نہیں، بہترین انتظامی صلاحیتوں کے حامل رہنما، عالم اور مدبر۔ جامع الصفات کہ رسول اکرمؐ نے ان کی تربیت کی تھی۔ جو بعد میں اٹھے، جناب عمر بن عبدالعزیز اور صدیوں بعد صلاح الدین ایوبی، وہ علماء نہیں، لیڈر اور مدبر تھے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اسلام میں مذہبی طبقے کا الگ سے وجود ہی نہیں۔
صالحین کی حکومت اور علماء کی جمعیتیں قائم کرنے والوں کو مسلمانوں نے کبھی قبول کیا اور نہ کبھی کریں گے۔ جنرل محمد ضیاء الحق سے مولویوں نے کہا اور وہ مان گیا کہ اہلِ ایمان کو جب اقتدار ملے گا تو نماز قائم کریں گے اور زکوٰۃ ادا کریں گے۔ اس نے سرکاری دفاتر میں نماز پڑھنے کا حکم دیا اور زکوٰۃ کی کٹوتی شروع کی۔ کیا خلفاء راشدین کے عہد میں ایسا ہوا تھا۔ نماز تو مسلمان پڑھے گا ہی اور زکوٰۃ بھی دے گا۔ حکومت کا کام ایک موزوں ماحول پیدا کرنا ہے۔ برصغیر میں اورنگزیب تھا یا ٹیپو۔ کیا انہوں نے اس طرح کے احکامات دیئے تھے؟
سیاستدان اور مولوی، دونوں عوام کو لوہے کی ٹوپیاں پہنا دینے کے آرزو مند ہیں۔ قیادت کے مدعی اور اطاعت کے طلب گار۔ نہیں، اسلام کا اجتماعی نظام یہ نہیں۔ اس کی بنیاد ہے۔ وَاَمْرُھُمْ شُوریٰ بَینَھُمْ۔ مشاورت اور حقیقی مشاورت۔ رہے سیاسی ادارے تو سرکارؐ کے عہد میں ان کی ایک شکل تھی اور فاروق اعظمؓ کے دور میں دوسری۔ قائداعظم قرآن کی حکمرانی کے علمبردار تھے۔ سب جانتے ہیں کہ وہ جھوٹ اور ریا سے پاک تھے۔ سب جانتے ہیں کہ قیام پاکستان سے پہلے انہوں نے اخبار نکالا، انشورنس کمپنی، بینک اور ایئرلائن قائم کی۔ ممبئی اور گجرات کے کاروباریوں کو کراچی لائے۔
نوازشریف پنجابی اور پنجابیوں میں سے بھی کشمیری ان کی ترجیح، زرداری صاحب سندھی، محمود اچکزئی اور اسفندیار پشتون۔ لیڈر وہ شخص ہوتا ہے، جو معاشرے کی تقسیم اور تعصبات سے بالا ہو۔ پارٹی وہ جس میں سبھی طبقات شامل ہوں۔ قدیم طالبان ناکام ہوئے، ایرانی انقلاب سمٹ رہا ہے، کوئی دن کی بات ہے۔
ساری شام، آج ساری شام فاروق اعظمؓ کا جملہ یاد آتا رہا: لوگوں کو ان کی ماؤں نے آزاد جنا تھا، تم کب سے انہیں غلام بنانے لگے۔ تاریخ یہ کہتی ہے: بہترین صلاحیت آزادی میں بروئے کار آتی ہے، تقلید اور غلامی میں نہیں۔