Saturday, 23 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Inqilab (2)

Inqilab (2)

افغان انقلاب ایک بار پھر یاد دلاتا ہے کہ یہ دنیا اس کے خالق و پروردگار کی ہے، قہرمان لشکروں کی نہیں۔ فرمایا: جو ہلاک ہوا، وہ دلیل سے ہلاک ہوا، جو جیا، وہ دلیل سے جیا۔

مدتوں کے بعد ایک عظیم انقلاب اٹھا ہے۔ ایک پسماندہ ملک سے۔ ایک ایسے معاشرے میں جو صنعت تو کیا، ابھی زرعی دور میں بھی داخل نہیں ہوا۔ جہاں آبادی کے ایک بڑے طبقے کا انحصار افیون کی کاشت اور سمگلنگ پر تھا۔ اگرچہ اسی معاشرے کے تر دماغ پاکستان، بھارت، یورپ اور امریکہ میں غیر معمولی کاروباری ذہانت کامظاہرہ کرتے ہیں۔

افغانستان میں امریکی فوج کی پسپائی اور اس کے کارندوں کی شکست فقط ایک تاریخی واقعہ نہیں، اس سے کہیں زیادہ ہے۔ نتائج کا انحصار اگرچہ طالبان کی قیادت پر ہے۔ ارضی حقائق کے کس قدرادراک اور کتنی رواداری کا وہ مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ تو مگر آشکار ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت ریاست ہائے متحدہ کو ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ عالمی سیاست پرجو گہرے اثرات مرتب ہوں گے، ابھی ان کا مکمل احاطہ ممکن نہیں۔

بھارت افغانستان سے نکل گیا، جس کے لیے افغان سرزمین پاکستان میں تخریب کاری کے لیے ارزاں تھی۔ اعلیٰ ترین عسکری ذرائع نے ابھی کچھ دیر پہلے تصدیق کر دی ہے کہ تین بھارتی لڑاکا طیاروں پر طالبان نے قبضہ کرلیا ہے، اشرف غنی اینڈ کمپنی کو جو بخشے گئے تھے۔ امریکی طیارے اور دوسرا سازو سامان اس کے سوا ہے۔ ایسے ہیلی کاپٹر بھی جو پاکستان ایسے ملک کو بھی میسر نہیں ؛حالانکہ اپنی دفاعی ضروریات کے باب میں وہ بے حد حساس ہے۔ صرف جنگی ہی نہیں، سفارتی اور سیاسی میدان میں بھی افغانیوں نے امریکہ کو خاک چاٹنے پر مجبور کر دیا۔ دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیوں، تھنک ٹینکس اورسب دانشوروں کے اندازے غلط ثابت ہوئے۔ خود طالبان کو یقین نہیں تھا کہ اس برق رفتاری سے وہ کابل میں داخل ہو جائیں گے۔ تاثر یہ تھا کہ ہدف حاصل کرنے کے لیے طالبان کو کئی ماہ درکار ہو ں گے۔

طالبان کی جنگی حکمتِ عملی نے دنیا کو ششدر کر دیا۔ صدر جو بائیڈن سخت تنقید کی زد میں ہیں۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ ویت نام کی یادیں تازہ ہو گئی ہیں۔ تاریخ کا سبق وہی ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔

افغانستان کی جنگ میں شریک ایک سابق امریکی فوجی نے اتوار کو ایک ٹویٹ میں اس بدنامی اور رسوائی کی کمال تصویر کھینچی ہے۔ یہ ایک بے معنی جنگ تھی۔ افیون کی کاشت روکنے کے لیے اگر ہم بمباری کرتے تو کسان طالبان سے جا ملتے۔ متبادل فصل اگانے کے لیے کھاد فراہم کی جاتی تو وہ جنگجوؤں کے حوالے کر دیتے، جو دھماکہ خیز مواد بنانے کے کام آتی۔ ضائع شدہ بیٹریاں کوڑے کے ڈھیر پر پھینکی جاتیں تو دشمن اٹھا لے جاتے اور ڈیٹونیٹر بنانے کے لیے استعمال کرتے۔ جنہیں ہم احمق اور گنوار سمجھتے تھے، وہ ہم سے کہیں زیادہ ہوشمند ثابت ہوئے۔

1992ء میں افغانستان سے روسی فوج کی واپسی کے بعد سینئر صدر بش نے نئے عالمی نظام کا نعرہ بلند کیا تھا۔ ایک ایسی دنیا، جس پر امریکی گرفت مضبوط ہو۔ تب چینی معیشت بیدار ہو رہی تھی۔ یہ مگر سان گمان میں نہ تھا کہ بیجنگ ایک دن واشنگٹن کا مد مقابل بن کے ابھرے گا۔ ایسا مد مقابل جو امریکی شہ دماغوں کو حیران ہی نہیں، دہشت زدہ کر دے۔

چین کا مقابلہ کرنے کے لیے چار رکنی اتحاد تشکیل دیا گیا۔ امریکہ کے علاوہ آسٹریلیا، بھارت اور جاپان جس میں شامل ہیں۔ یکا یک وہ ڈھے پڑے ہیں اور چین سرخرو ہے۔ بھارت برباد ہے اور پاکستان ظفر مند۔ روسی اندیشہ پالتے رہے کہ کابل میں ایک بنیاد پرست اسلامی حکومت وسطی ایشیا میں بغاوت کے بیج بوئے گی۔ تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ ترکی اور پاکستان کی طرح روسی سفارت خانہ کھلا رہے گا۔ امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور دوسرے یورپی ممالک نے اپنے سفارت کاروں کو واپس بلا لیا ہے۔

امریکہ، بھارت، یورپی یونین اور واشنگٹن کے تمام حلیفوں کی ساری ذہانت اور تمام منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ واشنگٹن کا اندازِ فکر یہ تھا کہ اچانک نکل جائیں تو مسائل افغانستان کے پڑوسیوں ایران، پاکستان، چین، وسط ایشیا کی ریاستوں اور روس کو درپیش ہوں گے۔ واقعہ بالکل برعکس رونما ہوا۔ روسیوں نے، تیس برس پہلے جو خراب و خوار ہو کر اس سرزمین سے نکلے تھے، بروقت افغانیوں سے بات کر لی۔ یہی کچھ چینیوں اور اس سے زیادہ سرعت کے ساتھ ایرانیوں نے کیا۔ عراق کی طرح یہاں بھی ایرانیوں کے گہرے مفادات ہیں۔ ایک تو ایرانی نسل سے تعلق رکھنے والے تاجک ہیں۔ کلاسیکی فارسی بولنے والے۔ دوسرے ان کے ہم مسلک تاتاری النسل ہزارہ جات صدیوں سے جو وسطی افغانستان میں آباد ہیں۔ وہی، جن کے بارے میں اقبال ؔنے کہا تھا:

ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے

پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

دوستم کو ایک عظیم جنرل کے طور پرپیش کیا جاتا رہا اور عطا محمد نور کو بھی لیکن وہ دونوں بھاگ نکلے۔ گالیاں بکنے والے حمد اللہ محب اور اشرف غنی بھی، جن کا منصوبہ یہ تھا کہ وہ تاجک، ازبک اور ہزارہ سے تعلق رکھنے والے لشکروں کو طالبان کے خلاف صف آرا کریں گے۔ پشتون علاقوں سے پہلے طالبان نے پاکستان، ایران اور وسطی ایشیا سے منسلک سرحدوں پر قبضہ جمایا۔ پھر نہایت برق رفتاری سے وہ صوبائی صدر مقامات پہ چڑھ دوڑے۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ بہت سے ازبکوں، تاجکوں، حتیٰ کہ بلوچوں تک میں سے بعض نے ان کا ساتھ دیا۔ طالبان کی فتح بے داغ ہے۔

دوحہ معاہدے میں امریکہ نے طالبان کے جنگی قیدی رہا کرنے اور اقوام متحدہ میں دہشت گردوں کی فہرست میں درج افغان رہنماؤں کے نام خارج کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ طالبان کا پیمان یہ تھا کہ سمجھوتے کے بعد امریکی افواج کو وہ ہدف نہیں کریں گے۔ طالبان اپنے وعدے پر قائم رہے مگر امریکی اپنا عہد پورا نہ کر سکے۔ اس طرح ایک غیر معمولی اخلاقی برتری افغانیوں نے حاصل کر لی۔

امریکہ میں کہرا م برپا ہے۔ پاکستان اور افغان طالبان پہ الزام تراشی اور طعنہ زنی جاری ہے۔ بہت سے اخبار نویس، دانشور اور سیاستدان مگر یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ خود امریکی قیادت کس قدر ذہنی اور اخلاقی افلاس کی مرتکب ہوئی۔ امریکی لیڈر شپ افغانستان میں خانہ جنگی کا خواب دیکھ رہی تھی۔ مہاجرت کے نئے سلسلے اور پیہم خوں ریزی کا۔ اس کا یہ خواب پورا نہ ہو سکا۔ آنے والا کل کیا لائے گا۔ ابھی حتمی طور پر اس سوال کا جواب نہیں دیا جا سکتا۔ امریکہ اور اس کے حلیفوں کے مقابلے میں لیکن روس، چین، ایران اور پاکستان زیادہ آسودہ ہیں۔

کیا وہ لوگ اپنے گریبان میں جھانکنے کی زحمت کریں گے، جن کا کہنا یہ تھا کہ طاقت کی اپنی منطق ہوا کرتی ہے۔ وہ طاقت کہاں ہے؟ کہاں ہے وہ طاقت؟ قرآنِ کریم میں لکھا ہے: اللہ کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ سرکارؐکے فرامین میں سے ایک یہ ہے: لوگوں کے دل دشت میں پڑے ہوئے پر کی مانند ہیں، ہوا جنہیں الٹاتی پلٹاتی ہے۔ افغان انقلاب ایک بار پھر یاد دلاتا ہے کہ یہ دنیا اس کے خالق و پروردگار کی ہے، قہرمان لشکروں کی نہیں۔ فرمایا: جو ہلاک ہوا، وہ دلیل سے ہلاک ہوا، جو جیا، وہ دلیل سے جیا۔

About Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed is a well known analyst and columnist. Currently, he is working with 92 News. He has worked for Dunya News, 92 News and Geo.