آدمی اتنا ہی شادکام اور صحت مند رہ سکتاہے، جتنا فطرت کے قریب ترہو۔ سائنس کی عطا کر دہ سہولتوں نے راحت بہم پہنچائی لیکن اکثر کی صحت برباد کر دی۔ زندگی تگ و تاز ہے، تفریح نہیں۔ سوکر اٹھا تو نڈھال تھا۔ فجر کے بعد سوتا ہوں کہ خود سے ملاقات اور مطالعے کے لیے یہی وقت میسر ہے۔ خوش بخت ہیں وہ لوگ جو شب دوسرے پہر نیند کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔
اللہ کے آخری رسولﷺ نے اپنی امت کے لیے سحر میں برکت کی دعا کی تھی۔ طلوعِ آفتاب سے پہلے قوتِ متخیلہ کمال وفور سے بروئے کار آتی ہے۔ کیسی یکسوئی اور انہماک۔ قرآنِ کریم کہتا ہے کہ رات آرام کے لیے بنائی گئی۔ سنبھلنے کی بجائے طبیعت بگڑتی گئی تو اندیشہ ہوا کہ پھر سے کرونا نے آلیا۔ لگ بھگ چار برس پہلے ڈاکٹر چغتائی سے پہلی بار ملاقات ہوئی۔ طلبہ کے لیے وہ ایک نئی لائبریری قائم کرنے کے آرزومند تھے۔ فرمائش کی کہ ناچیز اس کا افتتاح کرے۔ رات کے کھانے کی درخواست کی کہ ان کی ترجیحات کو سمجھا جائے۔ یہ ملاقات مستقل رفاقت میں بدل گئی۔
ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ ازراہِ کرم کرونا ٹیسٹ کے لیے کسی کو دفتر بھیج دیں۔ دفتر جا کر معمول کا کام نمٹایا۔ واپسی پر طبیعت بے چین، معدہ خراب۔ خیال آیا کہ خوراک میں احتیاط برتنی چاہئیے۔ گوشت منگوایا کہ یخنی پی جائے۔ ابلے ہوئے گوشت کے ذائقے نے ششدر کر دیا۔ معاً احساس ہوا کہ معمولاً جو کھانا ہم کھاتے ہیں، ذائقے میں کس قدر کمتر ہوتا اور گرانی پیدا کرتا ہے۔ ابلا ہوا آدھ کلو گوشت کھا لیا، ذرا سی گرانی بھی محسوس نہ ہوئی۔
ایک دوست کہا کرتے ہیں: قدیم انسان کیسا مجبور اور لاچار تھا۔ میں اس بارے میں سوچتا رہا اور یکسر مختلف نتیجے پر پہنچا۔ زندگی بدلتی ہے مگر نہیں بدلتی۔ خوراک کے لیے یہ شکار کا قدیم زمانہ ہو، گھڑسواری کا دور یا آج کمپیوٹر اور سوشل میڈیا کا عہد، اپنی تگ و تاز اور سائنسی ارتقا سے مسرت اور امتحان کے فقط انداز بدلتے ہیں۔ زندگی وہی آزمائش ہے اور ہمیشہ ایسی ہی رہے گی۔ ویسی ہی نعمتیں ہیں اور اتنی ہی کلفتیں۔ اپنے باطن میں حیات وہی کی وہی رہتی ہے۔ ٹونٹی سے ہاتھ منہ دھوتے ہوئے سوچا: کیا ٹینکی سے نکلنے والا یہ پانی صاف ہے، برسوں جس کی صفائی نہیں ہوتی؟ قدیم انسان کیا خوش قسمت نہیں تھا کہ کنویں کا تازہ پانی استعمال کیا کرتا۔
آخری زمانے میں، جب نظر دھندلا گئی اور سانس کی تکلیف بڑھ گئی تھی، علامہ اقبالؔ سے کسی نے مشاغل کے بارے میں سوال کیا۔ فرمایا: آنکھیں بند کر لیتا ہوں اور قرونِ اولیٰ کی سیر کرتا ہوں۔ اقبالؔ سے کسی کا کیا موازنہ۔ حیرت انگیز یادداشت، ان گنت علوم پر دسترس۔ فکر و نظر میں پاکیزگی۔ وہ آسمان سے زندگی اور زمین کو دیکھتے تھے مگر ان سے سیکھا تو جا سکتاہے۔ خود انہوں نے عہدِ قدیم کے اہلِ علم سے اکتسابِ نور کیا تھا۔
توفیقِ عمل مانگ نیاگانِ کہن سے
شاہاں چہ عجب گر بنوزند گدارا
سرکارﷺ کے زمانے میں طرزِ حیات کیا تھا؟ جراثیم سے پاک صحرا کے مکین پتھر اور مٹی کے گھر بناتے۔ دن بھر دھوپ سے پناہ اور شب صحرا کی تازہ ہوا۔ کیا عجب اقبالؔ نے اسی کو یاد کیا ہو
اے بادِ بیانی مجھ کو بھی عنایت ہو
خاموشی و دلسوزی، سرمستی و رعنائی
وہ چرخے پر کاتے گئے سوت کا لباس پہنتے۔ سرکارﷺ اور ان کے رفیق اکثر سفید لباس۔ سرما میں اونی کپڑا۔ فرمایا: سفید ملبوس پہنا کرو، یہ زیادہ پاکیزہ ہے۔ تجربہ یہ کہتاہے کہ سفید لباس خیال میں بالیدگی اور اجلے پن کے احسا س کو جنم دیتاہے۔ رنگین ملبوس ممنوع نہیں۔ خود آنجنابﷺ کو سبز رنگ بھایا کرتا۔ یمن کی رنگین چادر کسی نے تحفے میں پیش کی تو پسندیدہ ٹھہری؛اگرچہ کسی کو عنایت کردی۔ ایرانی شلوار پیش کی گئی توبھی پسند فرمائی۔ عرب حالانکہ تہبند ہی کو ترجیح دیتے رہے۔
بغداد میں سریر آرائے سلطنت ہارون الرشید کے پاس چار ہزار رنگین عمامے تھے۔ لمبا کرتا اور پاجامہ پہنتا لیکن عرب ثقافت سے اپنی وابستگی جتلانے کے لیے عربوں کی مخصوص چپل پہنتا، جس سے ملتی جلتی آج بھی عالمِ عرب اور برصغیر میں پہنی جاتی ہے۔ عرب ثقافت سے اظہارِ وابستگی کے لیے، ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر اس کی نمائش کیا کرتا۔
سرکارﷺکے عہد میں عرب کیا کھایا کرتے؟ جو کی روٹی، ابلا یا آگ پر بھونا گیا گوشت، پیاز اگرچہ رائج تھا مگر ادرک اور لہسن نہیں۔ دوسروں کو پیاز کھانے سے روکا نہیں لیکن خود پرہیز فرماتے۔ فرمایا: مجھ سے سرگوشی کی جاتی ہے۔ یعنی فرشتہ وحی کے ساتھ میرے پاس آتا ہے۔ نفاستِ طبع کا عالم یہ تھا کہ ہاتھ سے کبھی خارش نہ کی۔ اس کے لیے صحرا کی دھوپ کا پاکیزہ تنکا استعمال کرتے۔ گندم کی روٹی بھی عرب کھالیا کرتے مگر معمولاً نہیں۔ کوئی اس کا عادی ہوتا تو اسے عیاش کہتے۔ ان کا خیال تھا کہ صحت کے لیے یہ ناموزوں ہے۔"عیش" عربی زمان میں گندم کی روٹی کو کہتے ہیں۔ سبزیاں بھی کھائی جاتیں۔ قریب کی بستی میں رہنے والے ایک صحابی آپﷺ کے لیے سبزی لایا کرتے۔ کم رو تھے، تشریف لاتے تو آپﷺ ارشاد کرتے: میرا بھائی آیا ہے۔ اس شخص کے سوا آپﷺ نے کبھی کسی دوسرے کو بھائی نہ کہا۔ ایک بار کسی نے پوچھا: یارسول اللہﷺکیا ہم آپ کے بھائی نہیں۔ فرمایا: نہیں، تم میرے رفیق ہو۔ میرے بھائی تومیرے بعد آئیں گے۔ وہ اونٹنی اور بکری کا دودھ پیتے۔ مسجدِ نبوی کے دروازے پر ایک خاتون سبزیوں کا گاڑھا شوربا بیچا کرتی۔"طبِ نبوی" کے مصنف نے اسے سبزیوں کی نہاری قرار دیا ہے۔ مرچ، ادرک اور لہسن طعام کا حصہ نہیں تھے، گرم مصالحے بھی نہیں۔ پیدل چلتے یا گھڑ سواری کرتے۔ بیٹھ رہنے والوں کو کاہل گردانا جاتا۔ ان کے ایک گروہ کو سرکارﷺ نے مشورہ دیا تھا کہ کچھ دیر وہ تیز تیز چلا کریں۔ ستّو شوق سے پیے جاتے اور مشروب نہیں، کھانے کا حصہ تھے۔ عمر فاروقِ اعظم ؓ جوکی روٹی پر زیتون کا تیل لگاتے اور ستّو کا ایک گلاس پی لیتے۔ مٹھاس کے لیے شہد تھا، آنجنابﷺ خال ہی اس کے استعمال میں ناغہ کرتے اور پانی میں پیا کرتے۔ گڑ بھی جو دساور سے درآمد کیا جاتا۔ دیسی مرغی پسند کی جاتی، جسے "دجاجِ سندھی" کہا جاتا۔ پاکستان میں موجود کشمیری زعما کو ایک بار زحمت دی۔ کشمیری کھانا دیکھتے ہی صلاح الدین کھل اٹھے۔ کچھ دن بعد کہا: یہ دنیا کا لذیذ ترین طعام ہے مگر صحت کے لیے نقصان دہ۔
حکایت لذیذ تھی؛چنانچہ دراز تر ہو گئی۔ اصلاً یہ ایک مقالے کا موزوں ہے۔ آج کا آدمی کیا کھاتا ہے؟ الا بلا، چٹورے پن کا مارا ہوا۔ چینی سے لبریز مشروبات، کیمیکل والا بناسپتی گھی، ملاوٹی دودھ، چینی سے بنا شہد، کیمیکل کے چھڑکاؤ والی سبزیاں، پانی ٹھنسا گوشت۔ ٹیسٹ کا نتیجہ منفی آیایعنی کرونا محض اندیشہ تھا۔ اللہ کا شکر ادا کیا مگر ادراک ہوا کہ آدمی اتنا ہی شادکام اور صحت مند رہ سکتاہے، جتنا کہ فطرت کے قریب ترہو۔ سائنس کی عطا کر دہ سہولتوں نے راحت بہم پہنچائی لیکن اکثر کی صحت برباد کر دی۔ زندگی تگ و تاز ہے، تفریح نہیں۔