خاص طور پر موجودہ حالات میں مَیں نے اس خبر کو دلچسپی کے ساتھ پڑھا کہ "برادر ملک سعودی عرب بھارت میں 157 کھرب روپے کی سرمایہ کاری کرے گا اور یہ سرمایہ کاری توانائی، ریفائنری، پیٹرو کیمیکلز، انفرا سٹرکچر، زراعت، معدنیات اور کان کنی سمیت دیگر شعبہ جات میں ہو گی۔ " یہی زندگی کی حقیقت ہے جس کے سامنے اس بات کی کوئی وقعت اور حیثیت نہیں کہ دنیا نے بھارتی منڈی کا "سائز" دیکھنا ہے یا کشمیریوں پر ہونے والے ظلم و ستم کو دیکھنا ہے؟ لیکن آج اس موضوع کو بائی پاس کرتے ہوئے وفاقی حکومت کے کھولے اس تازہ ترین کٹے کی طرف آتے ہیں جس کا تعلق پنجاب پولیس میں اصلاحات کیلئے نیا پولیس ریفارمز ایکٹ ہے جس نے ایک نیا محاذ کھول دیا۔ پنجاب میں پہلے کون سے لڈو بٹ رہے تھے کہ پنجاب کی بیورو کریسی اور پولیس افسروں میں بھی نئی رسہ کشی شروع ہو گئی جس میں پنجاب کے سابق آئی جیز اور سینئر افسران بھی کود پڑے جن میں اظہر حسن ندیم، خواجہ خالد فاروق، احمد نسیم اور سرمد سعید وغیرہ بھی شامل ہیں۔ ان نیک نام ریٹائرڈ افسران کا کہنا ہے کہ سول بیورو کریسی نے پہلے ہی 40 محکمے اپنے قبضہ میں لے رکھے ہیں اور اب پولیس پر بھی ہاتھ صاف کرنا چاہتی ہے۔ پولیس افسران کسی صورت سرنڈر پر آمادہ نہیں اور ایک خبر کے مطابق پولیس افسروں نے بیورو کریسی کی تجاویز ماننے سے صاف انکار کر دیا اور میٹنگ کے دوران فریقین میں تلخ کلامی بھی ہوئی۔
پولیس کی جانب سے بجا طور پر یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ سپیشل برانچ کو وزیر اعلیٰ کے ماتحت کرنے کی بجائے آئی جی پنجاب کے ماتحت کیا جائے لیکن اوپر اوپر جو ڈرافٹ تیار کیا گیا ہے اس کے مطابق جیسے IB کا سربراہ وزیر اعظم ہے، اسی طرح سپیشل برانچ کا سربراہ وزیر اعلیٰ ہو گا۔ دوسرا یہ کہ پولیس کمپلینٹ کمیشن محکمہ داخلہ پنجاب یا سی ایم سیکرٹریٹ کی بجائے پنجاب کی امن و امان کی کیبنٹ کمیٹی کے ماتحت کیا جائے جبکہ نیشنل پبلک سیفٹی کمیشن کو ایکٹو کیا جائے۔ پنجاب پولیس کا الگ سے کنٹرول انسپکٹوریٹ بنانے پر بھی اختلاف کیا گیا ہے۔
لمبی کہانی ہے جس کا خلاصہ پولیس کے پر کترنا اور سول بیورو کریسی کی طرف سے اسے اپنے انگوٹھے تلے رکھنا ہے جسے عرصہ پہلے شہباز شریف "انڈر 19" کر چکے۔ تازہ ترین یہ کہ اس نئے تماشہ پر وزیر اعلیٰ اور آئی جی پنجاب کو گزشتہ روز اسلام آباد طلب کر لیا گیا ہے تو حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ اصلاحات نابغوں نے روز اول سے ہی تمام تر سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا۔ ایک طرف "بلڈوز" کرنے کا ارادہ ہے تو دوسری طرف نوکریاں چھوڑنے اور لمبی چھٹیوں پر جانے کے آپشنز پر بھی سنجیدگی سے غور ہو رہا ہے۔ وفاقی حکومت "تقریر" کے ہینگ اوور سے نکل آئے اور "بلڈوز " کرنے کی بجائے حکمت سے کام لے تو بہتر ہو گا ورنہ مہنگائی، بے روزگاری کی نیم پر لاء اینڈ آرڈر کا کریلا بھی چڑھ گیا تو ماحول مزید کڑوا ہو جائے گا۔
دوسری طرف پنجاب میں ہی ایک عمدہ خیال فلوٹ کیا گیا ہے جس پر صحیح معنوں میں عملدرآمد ہو جائے تو خوبصورت نتائج کی امید رکھی جا سکتی ہے۔ کئی سال پہلے میجر (ر) رشید وڑائچ مرحوم نے "مسجد مرکز" کے عنوان سے اس پر ورکنگ شروع کی تھی لیکن زندگی نے مہلت نہ دی۔ اب صوبائی حکومت نے پنجاب بھر کی وقف مساجد میں "خواندگی سنٹرز" کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دینی تعلیم کے علاوہ انگلش اور ریاضی جیسے مضامین کی تعلیم دینے پر وقف مساجد کے امام، خطیب کو تنخواہ کے علاوہ اضافی اعزازیہ دینے کا منصوبہ ہے۔ میں اس پراجیکٹ کی تفصیلات سے واقف نہیں اور نہ ہی اس کے منتظمین کے تجربہ، قابلیت اور کمٹمنٹ کا کوئی اندازہ ہے لیکن اگر ان تمام تر باتوں کا فول پروف ہونا یقینی بنا لیا گیا تو یہ ایک قابل قدر اور قابل ستائش قدم ہو گا۔ بظاہر یہ "معمولی" سا کام غیرمعمولی نتائج دے سکتا ہے بشرطیکہ اس میں ایک آدھ ایسے مضمون کا اضافہ بھی کر لیا جائے جس کا تعلق "سوک سینس" سے بھی ہو کیونکہ ہمارے ہاں نام نہاد پڑھے لکھے لوگوں میں بھی اس کا فقدان نہیں، مکمل قحط ہے۔ کتنے لوگوں کو اس بات کا اندازہ ہو گا کہ نماز کی ادائیگی صرف حصول ثواب تک محدود نہیں بلکہ یہ ہمیں "صفائی" سے لے کر "پابندی اوقات" تک، "ڈسپلن" سے لے کر قطار بنانے اور بھائی چارے تک بہت کچھ سکھائی ہے لیکن عام طور پر نمازی کا تمام تر فوکس صرف "ثواب" تک محدود ہوتا ہے ورنہ مساجد کے باہر جس طرح گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی "پارکنگ" کے نام پر افراتفری بے ترتیبی دکھائی دیتی ہے، اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ زندگی کے بنیادی آداب اور مینرز بھی سکھا دیئے جائیں تو اس سے بڑا "علم" کیا ہو سکتا ہے۔ یہاں بالغوں کو قطار بنانے کا قرینہ سلیقہ نہیں جبکہ مہذب دنیا میں دو معصوم بچے بھی اکٹھے ہوں تو ساتھ ساتھ نہیں، آگے پیچھے قطار بنا لیتے ہیں۔ چلتے چلتے ایک خوبصورت بات کہ اس لفظ "سلیقہ" کا مطلب کیا ہے تو غور فرمایئے کہ اونٹوں کے اوپر جو نقش و نگار بنائے جاتے ہیں اور اپنی مثال آپ ہوتے ہیں، اسے "سلیقہ" کہا جاتا ہے۔