آج تک عوام کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا، عوام کے نام پر ہوا۔
آئندہ بھی عوام کے ساتھ جو کچھ ہوگا، عوام کے نام پر ہی ہوگا۔
عوام کا ہر مفاد عوام کے وسیع تر مفاد میں ہی موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے۔
"یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا"
یہی ہماری حقیقی تاریخ کا خلاصہ ہے ورنہ شاعری کا شہزادہ منیر نیازی مدتوں پہلے یہ ماتم نہ کرتا:
شہر کو برباد کرکے رکھ دیا اس نے منیر
شہر پر یہ ظلم میرے نام پر اس نے کیا
آج بھی کبھی کبھی یاد آتا ہے کہ علامہ عنایت اللہ مشرقی، ابوالکلام آزاد اور ونسٹن چرچل جیسے لوگ کیا کہا کرتے تھے کہ "آزادی" کے بعد "آزاد غلاموں" کو کیسے حکمرانوں سے واسطہ پڑے گا لیکن پھر یہ بھی یاد آتا ہے کہ جیسے عوام ہوں ویسے ہی حکمران ان پر مسلط کردیئے جاتے ہیں اور پھر یہ دونوں فریق مل کر کس کس طرح "ووٹ کو عزت" دیتے ہیں۔
گمنامی اور گوشہ نشینی میں مر گیا وہ نثار ناسک جس نے "دل دل پاکستان" کے ساتھ ساتھ یہ بھی لکھا کہ ہمیں آزادی ملی بھی تو کچھ ایسے جیسے کوئی پنجرہ کمرے سے نکال کر صحن میں رکھ دے اور شاید یہی ان لوگوں کا مقدر بھی تھا جن کے بارے میں 14دسمبر 1908 کو عظیم ترین روسی ادیب نے حیران ہو کر لکھا، ہاں یہ لیوٹالسٹائی (LEO TOLSTOY)کا ہی جملہ ہے۔
A COMMERCIAL COMPANY ENSLAVED A NATION OF TWO HUNDRED MILLION PEOPLE.
ٹالسٹائی کا اشارہ اس ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرف تھا جو لندن کے ایک بورڈ روم سے کنٹرول کی جاتی تھی۔ تب انگلینڈ کی آبادی صرف ایک کروڑ 66لاکھ تھی اور اسی سن 1850 میں یہاں کی آبادی 20 کروڑ سے زیادہ تھی۔ انگلینڈ کا سائز صرف 50 ہزار 385 مربع میل جبکہ ہندوستان 9لاکھ 74 ہزار مربع میل پر مشتمل تھا۔ 565 پرنسلی سٹیٹس اور باقی برطانوی نوآبادیاں علیحدہ اور یاد رہے گورا یہاں کبھی ایک لاکھ سے زیادہ نہیں رہا۔
WILLIAM DALRYMPLE جیسا زندہ شہرۂ آفاق مورخ ایک مغل امیر کے حوالہ سے لکھتا ہے۔
"WHAT HONOUR IS LEFT TO US، WHEN WE HAVE TO TAKE OREDERS FROM A HANDFUL OF TRADERS WHO HAVE NOT YET LEARNED TO WASH TUEIR BOTTOMS،
"کبھی ٹریڈرز کبھی فارچون ہنٹرز۔
تب سے اب تک کچھ سیکھا؟ یا ایک ہی تجربہ مختلف انداز میں بار بار دہراتے چلے جاتے ہیں۔ اگر کچھ سیکھ لیا ہوتا تو شاید آج منصور آفاق کو "یہ وہ سحر تو نہیں " جیسا کالم نہ لکھنا پڑتا۔ مجھ سے بہتر کون جانتا ہے کہ اسے لکھتے وقت منصور کو کتنی اذیت سے گزرنا پڑا ہوگا اور اس سے پہلے فیض کو:
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
شاعری اپنی جگہ لیکن جو داغ داغ ہو وہ اجالا ہوتا ہی نہیں اور جو شب گزیدہ ہو، وہ قہر تو ہوسکتا ہے سحر نہیں۔ ایک تو ان کی پھرتیوں نے مروا دیا۔ اب 687 بیمار صنعتی یونٹس کی بحالی کے لئے 2 ماہ کے اندر اندر اصلاحات تیار کرنے کا فرمان جاری ہوا ہے تو جہاں ایک کروڑ نوکریاں اور 50 لاکھ مکان دیکھے، یہ فرمان بھی دیکھ لیں گے تاکہ سارے ارمان اوپر نیچے پورے ہو جائیں اور نیا پاکستان پوری طرح نکھر اور نتر کر سب کے سامنے آ جائے۔
جیسے جیسے عوام کے ڈپریشن، فرسٹریشن میں اضافہ ہو رہا ہے ویسے ویسے بیچاری تبدیلی "تریلیوں " کا شکار ہے۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں قصور ان کا بھی نہیں کہ پیراڈوکس بہت ہی بھیانک ہے۔ بے شمار سرجریاں درکار ہیں، سرجن ناتجربہ کار اور اوپر سے وقت نہیں ...... ہے تو بہت محدود ہے۔ ایک اک عضو بیمار ہے، ہڈیاں اتنی بھربھری ہو چکیں کہ کروٹ لینے پر چٹخ جاتی ہیں تو کیا کریں کہ جمہوریت بھی درکار ہے سو کسی بھی قسم کی کنٹی نیوٹی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ ظرف ہمارے ایسے ہیں کہ شہباز شریف نے پرویز الٰہی کے بہت سے منصوبے بالائے طاق رکھ دیئے۔ یہ تو "ون ون ٹوٹو" (1122) بھی کھانے کے موڈ میں تھا، کسی سیانے بھلے مانس نے روک لیا۔ عجیب دنیا ہے ہماری جس کی سمجھ نہیں آتی کہ کروڑوں اربوں کی ٹی ٹیاں پکڑی جاتی ہیں، تمام تر ریکارڈ بھی موجود ہے۔ ٹی ٹیاں بھیجنے والے بھی پکڑے جاتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ یہ سب تو مفلوک الحالی کے امام ہیں، بھوکے ننگے غریب جنہوں نے بیرون ملک تو کیا جانا تھا، ان کے تو پاسپورٹ ہی کبھی نہیں بنے یعنی انگریزی میں "اوپن اینڈ شٹ" کیس لیکن ظاہر ہے پروسیجر تو پروسیجر ہوتا ہے۔
لیکن امید پہ دنیا قائم ہے اور امید نام ہے اس پختہ یا خام خیال کا کہ جس کام میں گزشتہ کئی عشروں سے ناکام ہیں، آئندہ کامیاب ہو جائیں گے۔
"HOPE، LIKE THE GLEAMING TAPERʼS LIGHT، ADORNS AND CHEERS OUR WAY;AND STILL، AS DARKER GROWS THE NIGHT، EMITS A LIGHTER RAY.(OLIVER GOLDSNITN)
امید، زندگی کے لئے اتنی ہی اہم ہے جتنی آکسیجن پھیپھڑوں کے لئے۔
انہونیاں بھی ہونے کے لئے ہی ہوتی ہیں۔ "ایم کیو ایم کے بانی گرفتار، فرد جرم عائد کر دی گئی اور کڑی شرائط کے بعد جسم میں ٹریکرفٹ کردیا گیا۔ اک اور کیس۔ نیب نواز شریف کو جیل سے گرفتار کرےگی"۔ اک اور انہونی۔ "غیر ملکی فنڈنگ کیس۔ پی ٹی آئی کی چاروں درخواستیں مسترد۔ سکروٹنی کمیٹی تحقیقات جاری رکھے":الیکشن کمیشن۔ اللہ نہ کرے کہ غیر ملکی فنڈنگ کیس ان کا پاناما ثابت ہو کہ کام انتہائی باریک بخیہ گری کا ہے۔
اور اٹارنی جنرل نے کہا " جسٹس فائز عیسیٰ اور بچے برطانیہ میں بے نامی جائیدادوں کے مالک ہیں۔ جج سپریم کورٹ اپنے بچوں کے نام موجود جائیداد خریدنے کے ذرائع بتانے سے گریزاں " سپریم کورٹ میں جواب جمع۔ کہا ناں کہ انہونیاں ہونے کے لئے ہی ہوتی ہیں تو اسی سلسلہ میں دو عدد ذاتی شعر:
ہونی کیا اور انہونی کیا
جو ہونا ہو، ہو جاتا ہے
جو ملنا ہے مل کے رہے گا
جو کھونا ہو، کھو جاتا ہے
امید پہ دنیا قائم ہے۔