Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Bandial Sahib Ki Rukhsati Aur Adliya Ka Bandar Ghao

Bandial Sahib Ki Rukhsati Aur Adliya Ka Bandar Ghao

اجنبی ہوتی اُردو میں کبھی ایک دو لفظی مرکّب، محاورے کے طور پر بولا جاتا تھا، "بندر گھاؤ"۔ بندر کو لگنے والا کوئی زخم جوں ہی بھرنے لگتا اور اس پر موم آتا ہے، وہ اپنے تیز نوکیلے ناخنوں سے اُسے کھرچ ڈالتا ہے۔ لہو پھر سے رسنے لگتا ہے۔ زخم پھر سے ہرا ہو جاتا ہے۔ سو جو مسئلہ جان کا روگ بن جائے اور حل نہ ہونے پائے "بندر گھاؤ" کہلاتا ہے۔

ہماری عدلیہ بھی برسوں سے "بندر گھاؤ" کے آزار میں مبتلا ہے۔ گاہے گاہے آئین، قانون اور جمہوری اقدار کی پاسداری کرنے والے نیک نام چیف جسٹس صاحبان بھی آئے۔ "بندرگھاؤ" کی مرہم کاری کی مقدور بھر کوشش بھی کی لیکن پیشتر اس کے کہ عدلیہ کُلّی طور پر صحت یاب ہو کر عوام کے دلوں میں اعتماد کی جوت جگاتی، کوئی مہم جُو سیاست زدہ مُنصف اعلیٰ بارگاہ عدل میں جلوہ افروز ہوا اور اپنے خونخوار پنجوں سے زخم کے بخیے ادھیڑ ڈالے۔ کھیل اسی طور پر چلتا رہا۔

چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی نے مشرف کے پی سی او کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیا تو عدلیہ کی ناک میں نکیل ڈال کر، آمرِ وقت کے دربار میں لاکھڑا کرنے والے ارشاد حسن خان نمودار ہو گئے۔ اُن کے بعد چیف جسٹس بشیر جہانگیری کو صرف چوبیس دن ملے اور وہ "بندر گھاؤ" کو رستا چھوڑ گئے۔ تب شیخ ریاض احمد نے چیف جسٹس کی مسند سنبھالی۔ وہ بھی لہو رَنگ "بندرگھاؤ" سے کھیلتے اور اسے کُریدتے رہے۔ افتخار محمد چودھری کی بطور چیف جسٹس، آخری قسط لگ بھگ پانچ برس پر محیط تھی۔ وہ ولولہ آفریں عدلیہ بحالی تحریک کے کندھوں پر سوار ہو کر آئے اور ہر کسی کے کندھوں پر سواری ہی کو منشورِ عدل بنا لیا۔ تحریک ہی کی طرح آتش فشاں بھڑکائے رکھنے کو انہوں نے تقاضائے انصاف جانا۔ رُخصت ہوئے تو جنگ زدہ لشکر گاہ کا منظر چھوڑ گئے۔ اُن کا طویل سیمابی عہد بھی بے لاگ عدل اور عوامی اعتماد کے حوالے سے بے ثمر ہی رہا۔

چودھری صاحب کا حشر بداماں عہد تمام ہوا تو یکے بعد دیگرے دھیمی، ٹھہری ہوئی، مستقیم اور تصادم گریز سوچ کے حامل چار چیف جسٹس صاحبان آئے جن کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں تھا۔ لیکن تصدق حسین جیلانی، ناصر الملک، جواد ایس خواجہ اور انور ظہیر جمالی کا اجتماعی دور صرف ساڑھے تین سال پر محیط رہا۔ سلامت روی کا یہ سلسلہ جاری رہتا تو شاید "بندر گھاؤ" بھر جاتا لیکن اس کے بعد فلکِ نا مہرباں نے ایسی کروٹ لی کہ کُشتوں کے پُشتے لگ گئے۔

2016ء میں نوازشریف سے نجات اور پراجیکٹ عمران خان، کی نوک پلک سنوارنے کا عمل فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکا تھا کہ عدلیہ کے مقدر کا ستارہ بھی کسی نحس بُرج میں داخل ہوگیا اور پھر برسوں اسی کے اندر گھُمّن گھیریاں کھاتا رہا۔ اس کا آغاز ثاقب نثار سے ہوا۔ وہ رخصت ہوئے تو گلزار احمد۔ انہوں نے بستر سمیٹا تو آصف سعید کھوسہ اور کھوسہ گئے تو عطا محمد بندیال۔ حیرت ہوتی ہے کہ اس سوختہ بخت قوم کے خاکستر میں کیسی کیسی چنگاریاں چھپی تھیں۔ ان کے پونے سات سالہ اجتماعی عہد نے نہ صرف "بندر گھاؤ" کو ناسُور بنا دیا بلکہ جَسدِ عدل کا یہ حال کر دیا کہ اس کے ہر بُنِ مُو سے لہو رس رہا ہے۔

ثاقب نثار دو سال سے زائد عرصہ تک ناقوس عدل بجاتے رہے۔ اُن کے طور اطوار (جس کے لیے زیادہ موزوں لفظ لچھّن ہے)، ان کا بازاری سطح کو چھوتا ذوقِ تشہیر، غلیظ سیاسی اہداف میں لتھڑے فیصلے، عمران خان کو لانے اور نوازشریف سے نجات میں اُن کا کردار، اپنے منصب کا اپنی ذات اور قرابت داروں کے مفاد کے لیے استعمال اور ایک سیاسی جماعت کے مدار کا دُم دار ستارہ بن جانا، اُن کی بیاضِ عمل کے چند نوشتے ہیں۔ ستم یہ ہوا کہ اُن کے بعد لگ بھگ ایک سال کے لیے، عدلیہ کی کمان آصف سعید کھوسہ نے سنبھال لی جو نہ صرف ہر پہلو سے ثاقب نثار کا تسلسل تھے بلکہ ان کے لہُو اور اُن کے قلم کی سیاہی کی بوند بوند پرلے درجے کے بغض و عناد میں رچی تھی۔

وہ رخصت ہوئے تو دو برس کے لیے گلزار احمد آ گئے جنہوں نے ثاقب اور کھوسہ کی لکیروں کی فقیری کو اعزاز جانا۔ نسلہ ٹاور منہدم کرنے اور کراچی کی گم شدہ ٹرام کے آثارِ قدیمہ کا سراغ لگانے کو ترجیح گردانا اور عدلیہ کے بندر گھاؤ کو کارِ عبادت جان کر کھُرچتے رہے۔ تسلسل کے ساتھ پانچ برس پر مشتمل تین چیف جسٹس صاحبان کا یہ بے ننگ و نام عہد، عدلیہ کو زوال و پستی کی پاتال تک لے آیا۔ لوگوں نے سکھ کا سانس لیا کہ اب اس سے بھی زیادہ کیا گراوٹ ہوگی۔ لیکن انہیں اندازہ نہ تھا کہ اُن کی تیرہ بختی ابھی کیسے کیسے دن دکھانے والی ہے۔

عطا محمد بندیال نے چیف جسٹس کا منصب سنبھالا اور دیکھتے دیکھتے عدلیہ کی مانگ میں راکھ بھرنے والے اپنے تین پیش رو رفقاء کو کوسوں پیچھے چھوڑ گئے۔ ثاقب نثار، گلزار احمد اور آصف سعید کی روحیں اُن کے اندر حلول کر گئیں۔ انہوں نے بندر گھاؤ کو عدلیہ کے رَگ و ریشہ ہی نہیں، اس کے ہڈیوں کے گُودے تک میں اتار دیا۔ انہیں آخری دن تک، کبھی ایک لمحے کے لیے بھی احساس نہ ہوا کہ عہدہ و منصب آنی جانی چیزیں ہیں۔ وقت کسی کا باجگذار نہیں اور تاریخ بڑی بے رحم ہوتی ہے۔ انہوں نے سب سے بڑی عدالت کو قصباتی چوراہے کا بے ذوق ناٹک بنا کے رَکھ دیا۔

عدلیہ کے وقار اور اس پر عوامی اعتماد کے حوالے سے انہوں نے تمام اجزائے ترکیبی کو بُری طرح مجروح کر دیا۔ اُن کے فیصلوں، بینچوں کی تشکیل، دو مخصوص ججوں کو دائیں اور بائیں ہاتھ بٹھا کر من پسند فرمان جاری کرنے، سینئر رفقائے کار کو دُور دھکیلنے، فریفتگی بلکہ جنوں کی حد تک پی ٹی آئی اور خان صاحب پر نوازشات فرمانے، باجوہ صاحب کی فرمائش پر پنجاب میں پرویز الٰہی کی حکمرانی کے لیے نیا آئین تحریر کرنے، پارلیمنٹ کے اختیارِ قانون سازی پر پیہم ضربیں لگانے، ہائی کورٹس میں زیر سماعت مقدمات کو براہِ راست سپریم کورٹ میں اٹھا لانے، سپریم کورٹ جیسے معتبر ادارے میں تقسیم کی دراڑیں ڈالنے اور متعدد دیگر کارہائے نمایاں کے بارے میں بہت کچھ لکھا اور بولا جا رہا ہے۔

میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ جو مُنصف اپنی خوشدامن کی مبیّنہ کیسٹ پر بننے والے عدالتی کمشن کا گلا گھونٹنے، یہ مقدمہ خود سننے اور پھر ڈنکے کی چوٹ اپنی خوش دامن کو بری الزمہ قرار دیتے ہوئے صدیوں کی اخلاقی و قانونی روایات کو جوتی کی نوک پر رکھ سکتا ہو، اُس کی عدل پروری اور روشن ضمیری پہ کیا لکھنا اور کیا بولنا؟ بندیال صاحب پاکستان کے قاضی القضاۃ ہوتے ہوئے جب یہ واردات ڈال رہے تھے تو عین انہی دنوں مدھیہ پردیش (بھارت) ہائی کورٹ کا جج اٹل سری دھرنا، سپریم کورٹ سے التماس کر رہا تھا کہ میرا کسی اور صوبے میں تبادلہ کر دیا جائے کیونکہ میری بیٹی نے قانون کی ڈگری حاصل کر لی ہے اور وہ مدھیہ پردیش میں وکالت شروع کرنے والی ہے۔

عزت مآب! عطا محمد بندیال نے جاتے جاتے اَشک بار آنکھوں کے ساتھ خود کو ڈوبتے آفتاب سے تشبیہ دی۔ کاش کوئی اہل کار انہیں بتا سکتا کہ عالی مرتبت! آپ کا عہد ایک طویل اور گہری اندھیری رات تھی جس میں سورج تو کیا چاند ستارے بھی منہ چھُپائے پھرتے تھے۔ آپ تو منصب کے روزِ اوّل ہی سے غروب چلے آ رہے ہیں۔

بندیال صاحب کمال عجز و انکساری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا شکر بھی بجا لائے ہیں کہ وہ اپنے فرائض کی بجا آوری میں سرخرو ہوئے۔ لگتا ہے کہ اپنے فلسفہ عدل کی طرح اپنے کردار و عمل کی جانچ کا پیمانہ بھی انہوں نے خود ہی وضع کر لیا ہے۔ اللہ انہیں صحت و سلامتی کے ساتھ لمبی عمر عطا فرمائے اور وہ قادرِ مطلق کی میزان عدل کا حتمی فیصلہ دیکھنے سے پہلے یہ جان سکیں کہ خَلقِ خدا اُن کے بارے میں کیا کہتی ہے۔