ان کا کہنا پاکستان میرا گھر ‘ حجرہ ‘ میری عباد ت گاہ ‘اسکی مکمل حفاظت صرف فوج ہی کر سکے اور 6 آرمی چیفس سے تعلق رہا Silent Striker جنرل باجوہ ان سب سے بہتر !
سمجھ نہ آئے کہ ان کے بارے میں بات کہاں سے شروع کروں ‘ انکے داداغلام نبی خان کا بتاؤں جو علاقے کے بڑے زمیندار‘ تمباکو کے معروف تاجر ‘ علماء کے قدر دان اورجنہوں نے ’’خان ‘‘ ہو کر اور پورے خاندان کی مخالفت مول لے کر اپنے بیٹے کو عالمِ دین بنانے کا فیصلہ کیا‘یاان کے والد مولانامحمد طاہر کے حوالے سے کچھ کہوں جو مولانا اعزاز علی ‘رئیس المفسرین حسن علی اور مولانا عبید اللہ سندھی کے شاگرد‘جو حصولِ علم کیلئے ایک سال مکہ میں رہے ‘ جنہوں نے مدینہ میں اندلس کے جلاوطن عالم شیخ ہمدان سے بھی فیض حاصل کیا ‘ جنہوں نے روایتی مدرسے کا conceptتبدیل کر کے قرآن فہمی عام کر دی ‘جنہوں نے باچا خان کو کافر قرار دینے کا فتویٰ نہ دے کر خان عبدالقیوم خان کی جیل کاٹی ‘ جن کے انجینئر احمد شاہ مسعود‘ پروفیسر برہان الدین ربانی ‘ پروفیسر حکمت یار اور طالبان کمانڈر قاضی امین وقاد سمیت لاکھوں شاگرد‘جن کے درسِ قرآن میں جنات بھی بیٹھا کرتے ‘جن کی نصیحت ’’جس تعلق کو بنانے میں 30 سال لگاؤ‘ اسے ختم کرنے میں بھی 30 سال ہی لگاؤ ‘‘اورجوکہا کرتے ’’ تکلیف آئے تو رشتہ داروں سے چھپاؤ اور دوستوں کو بتاؤ ‘‘، یا پھر ان کے اپنے بارے میں یہ کہوں کہ یہ وہی جنہوں نے سقوطِ ڈھاکہ کے بعد خود سے عہد کیا کہ’’میں روس اور بھارت سے انتقام لوں گا‘‘ اور پھر جب اللہ نے موقع دیا تو انہوں نے جنرل ضیاء الحق اور جنرل حمید گل کے ’’فیلڈمین ‘‘کے طور پر روس کے خلاف افغانستان میں ایسی حکمتِ عملی ترتیب دی کہ وہ سی آئی اے اور پنٹا گون جن کا یہ خیال تھا کہ دو ہفتوں میں روس افغانستان پر قبضہ کر لے گا 2 سال اسی قبضے کے انتظار کے بعد اسی سی آئی اے اور پنٹا گون کو بالآخر پاکستان سے ہاتھ ملانا پڑا ‘ یہ وہی جنہوں نے موساد اور را کا (عراق طرز پر) پاکستانی ایٹمی پلانٹ تباہ کرنے کا حملہ تب ناکام بنایا جب دشمن ایسے تیار تھا کہ غدار پاکستانی پائلٹ نے جن اسرائیلی طیاروں کو لیڈ کرنا تھا وہ طیارے بھی بھارت پہنچ چکے تھے اور یہ وہی جنہوں نے نہ صرف گلگت بلتستان ‘آزاد ومقبوضہ کشمیر کو اکٹھا کر کے ایک ریاست بنانے کا سی آئی اے کا آپریشن ’’وائٹ سینک‘‘ ناکام بنا یابلکہ 6 ہزار پاکستانی شہید کرنے والی تنظیم الذولفقار کی کمر توڑ کر رکھ دی۔
صاحبو! یہ دادا اوریہ باپ‘ اوپر سے ناممکن کو ممکن بنادینے والے یہ خود‘ آپ سمجھ ہی گئے ہوں کہ میں میجر عامر کی بات کر رہا ‘وہی عا مر بھائی جو شاعروں میں شاعر ‘صحافیوں میں صحافی اور عالموں میں عالم‘جو ہمیشہ بات دلیل سے کریں ‘اور دلیل بھی ایسی کہ ابھی چند دن پہلے آرمی چیف سے ملکر ان کے گھر آئے ایک طرف وہ افغان صحافی جو انتہائی تلخ سوالات کر رہے تھے ‘غصے اور طنز بھرے جملے کس رہے تھے جبکہ دوسری طرف یہ ٹھنڈے اور دھیمے لہجے میں یوں ’’ پاکستان اور پاک فوج‘‘ کا دفاع دلیل سے کررہے تھے کہ پھر دوڈھائی گھنٹوں کے بحث ومباحثے کے بعد غصہ ہارا‘دلیل جیتی اور وہ لمحہ آیا کہ جب سب افغان صحافی چہروں پر مسکراہٹیں سجائے عامر بھائی کی ہاں میں ہاں ملا رہے تھے ‘ ان کی دلیل کی طاقت اور باکمال یادداشت اپنی جگہ‘ لیکن مجھے ان کی 3 چیزوں پر بڑا رشک آئے ‘ایک انکی دوستیاں ‘دوسرا ان کا وسیع دستر خوان اور تیسرا دریائے سندھ کے کنارے ان کا فارم ہاؤس ‘انکی دوستیاں ایسیں کہ ایک دوسرے کے جانی دشمن ان کی دوستی پر متفق‘دستر خوان ایسا کہ سال کے 365 نہیں تو 300 دن ضرور سجا رہے اور اٹک کے قریب دریائے سندھ کنارے سینکڑوں کنال کا فصلوں ‘ پودوں ‘ پھلوں ‘اور پھولوں سے لبالب بھرا فارم ہاؤس ایسا کہ جو بھی گیا ’’دل ‘‘ وہیں چھوڑ آیا۔
مشکل لمحوں میں دوست کیا دشمن کو بھی اکیلا نہ چھوڑنے والے عامر بھائی کا سینہ رازوں سے بھرا ہوا ‘اورراز بھی ایسے کہ خدا کی پناہ‘ میں انہیں کب سے کہہ رہا کہ کتاب لکھیں تاکہ سب کوپتا چلے کہ آپ پی ایم اے کاکول میں ایک رات درخت کے نیچے بیٹھ کر رونے دھونے کے بعداگلی صبح پی ایم اے سے کیوں بھاگ گئے ‘ آئی ایس آئی چیف جنرل کلوکا وہ کونسا پروجیکٹ تھا کہ جسے کرتے ہوئے آپ پر آپریشن ’’مڈنائٹ جیکال‘‘ کا الزام لگا‘ فوج میں ہوتے ہوئے آپ کے بچوں کو تھانے کیوں لے جایا گیا اورجنرل نصیر اللہ بابر کو آپ سے کیا دشمنی تھی ‘ میں عامر بھائی سے اکثر کہوں کہ اب یہ پتا چل جانا چاہیے کہ جنرل ضیاء نے کس سے کہا کہ’’میں جنگ لڑنے کا فیصلہ کر چکا‘‘، ضیاء صاحب نے جنرل اختر عبدالرحمن سے کن نقشوں کا مطالبہ کیا اور جب ڈی جی آئی ایس آئی جنرل حمید گل نے ساتھ بیٹھی وزیراعظم بے نظیر بھٹوسے کچھ کہنا چاہا تو بی بی نے اپنے ہی وزیرداخلہ نصیر اللہ بابر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر جنرل گل کو خاموش کیوں کرادیا ‘میں عامر بھائی سے کئی بار یہ بھی کہہ چکا کہ وہ اب گھر میں رکھے ثبوت باہر نکالیں اور سب کو بتادیں کہ ہمارے وہ کون سے بڑے جو سی آئی اے کے ایجنٹ ‘ہمارا قومی سلامتی کا وہ کون سا مشیرجو دشمنوں کیلئے کام کرتا رہا ‘ہمارا کس ایجنسی کا کون سا ڈائریکٹر غیروں کا مخبر تھا اور ملک توڑنے کی کوششیں کرنے والے کتنے اسمبلیوں میں ‘ عامر بھائی کو یقیناً اب اس راز سے بھی پردہ اُٹھا دینا چاہیے کہ سابق افغان صدر ببرک کارمل کی اس تجویز پرکہ پاکستان اور افغانستان کے پختونوں کو آپس میں شادیاں کرنی چاہئیں پھر کون کون سی شادیاں ہوئیں ‘ یہ آئی بی کے سربراہ بریگیڈئیر امتیاز کو کیا رٹاتے او ر سکھاتے ہوئے آرمی چیف جنرل آصف نواز کے پاس لے گئے یہ ‘جنرل کیانی سے لمبی لمبی ملاقاتوں میں کیا ڈسکس کرتے ‘ یہ جنرل ظہیر الاسلام کو اپنا محسن کیوں مانتے ہیں ‘ یہ کن وجوہات کی بنا پر جنرل راحیل شریف کو ناکام آرمی چیف کہیں ‘ انتہائی نازک لمحوں میں میاں نواز شریف نے ان سے کیا کچھ شیئر کیا‘چوہدری نثار کے کہنے پر یہ ڈھائی گھنٹے میاں نواز شریف کو کیا سمجھاتے ر ہے اورطالبان سے مذاکرات کے دوران اچانک کیا ہوا کہ بندوقوں کا رُخ حکومتی ٹیم کی طرف ہو گیا۔
میں عامر بھائی سے کہوں اور نہیں تو کم ازکم اب یہی سب کو بتادیں کہ ا ٓپکوتو یہ سر ٹیفکیٹ دیا گیا تھا کہ ’’آپ نے جو کام کئے وہ دنیا کی کسی ایجنسی میں بھی کرتے تو آپ اسکے ہیرو ہوتے ‘لہٰذا آپ ہمارے بھی ہیرو اور قومی اثاثہ‘‘ پھر کیوں اسی ہیرو کو جبری ریٹائر کر دیاگیا ‘کیوں یہی قومی اثاثہ چار حکومتوں کا مجرم ٹھہرااور وہ کون لوگ اور عوامل تھے کہ جنکی وجہ سے آپ پر بغاوت کا مقدمہ قائم ہوا ‘یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ملک کیلئے جان خطرے میں ڈال کر بیسیوں بار ناممکن کو ممکن بنانے والا ملک کا باغی ہوجائے ‘ یہ کیسے ممکن کہ خود کش جیکٹ پہنے شخص کو جپھی ڈال کر بیسیوں زندگیاں بچانے اور ملک کی خاطر اپنے چار سالہ اکلوتے بیٹے کو لے کر خاد کے مسلح ایجنٹ کے پاس پہنچ جانے والا ملک کا مجرم ٹھہرے اور پھر اگر کوئی الزام سچ ہوتاتو ایک طویل اور تھکا دینے والی انکوائری کے بعد دو جرنیل انہیں ہر الزام سے کلیئر کیوں کر تے ‘ اپنی زیادتیوں پر معذرت کرکے آرمی چیف جنرل اسلم بیگ انہیں پلاٹ دینے کی آفر کیوں کرتے ‘ اور تو اوربیوی بچوں سمیت ایک سال قید کرکے جنرل مشرف ہی کچھ نکلوایا اگلوا لیتے اور پھریہ کیسا مجرم اور باغی کہ جس پر حکومتِ وقت بغاوت کا مقدمہ قائم کرے مگر لوگ انہیں گرفتار تک نہ ہونے دیں‘ لیکن بات پھر وہی کہ ہیرو کون اور ولن کون‘ اصلیت کا پتا تبھی چلے گا جب پوری کہانی خود عامر بھائی سنائیں گے لیکن مجھے یقین کہ وہ یہ کہانی کبھی نہیں سنائیں گے کیونکہ ان لمحوں میں جب چاروں طر ف بڑی سچائی سے جھوٹ بولا جارہاہو تب اصلیت جان کر بھی چپ رہنے والا بھلا آئندہ کیوں بولے گا‘بہرحال صاحبو! جیسا پہلے کہہ چکا کہ اپنی ریٹائرمنٹ کی آڑ میں آج بھی ملک کیلئے بہت کچھ کرنے ‘ وفاقی دارالحکومت میں خفیہ اور اوپن محفلیں سجانے اور چھ بہنوں کے اکلوتے بھائی ‘اپنے بھتیجے ‘ اپنے جانشین کی بے وقت موت پر جاں گسل لمحے گزارکر ان دنوں اپنی بھانجی نگار کے جنرل بننے پردوست احباب سے مبارکبادیں وصول کرنے والے عامربھائی ویسے تو ہر بات یوں دلیل سے کریں کہ انکی ہر بات ہی ماننی پڑ جائے مگر جب وہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو باقی چیفس پر ترجیح دینے کے یہ دلائل دیں کہ’’ جنرل باجوہ خود کو Learned نہیں Learner سمجھیں ‘وہ ڈاؤن ٹوارتھ ‘وہ ہیرو ازم کے خبط میں مبتلا نہیں ‘ وہ عملی انسان ‘ وہ اپنے مقصدسے مخلص اور انکی زبان ان کے دل کی رفیق‘‘ اور جب عامر بھائی پاکستان سے اپنی محبت کو آنکھوں میںنمی بھر کر یوں بیان کریں کہ ’’دعا کرو کہ میری جان اپنے پاکستان کے کام آجائے تو یقین جانیے پھر ان کی یہ بات تو آنکھیں بند کرکے ماننے کو دل چاہے کہ پاکستان میرا گھر ‘حجرہ ‘ میری عبادت گاہ‘ اسکی مکمل حفاظت صرف فوج ہی کر سکے اور 6 آرمی چیفس سے تعلق رہا‘Silent Striker جنرل باجوہ ان سب سے بہتر۔