چیئرمین نیب معاملہ، منیر نیاز ی یاد آجا ئیں:
کُجھ انج وی راہواں اوکھیاں سَن
کُجھ گَل وچ غم دا طوق وی سی
کُجھ شہر دے لوک وی ظالم سَن
کُجھ سانوں مرن دا شوق وی سی
بہت ساری باتیں سامنے آچکیں، بہت ساری باتیں سامنے آجائیں گی، ایسے چھپے کردار سامنے آئے، حیرانی کے پہاڑ ٹوٹے، نقاب ہٹے، "اپنوں، سے ملاقات بھی ہوئی، کہانی بڑی دلچسپ کہ چک 220 گھانواں، ڈاکخانہ موچی والا، ضلع جھنگ کی طیبہ گل عرف کرن فاروق کون، جب جسٹس(ر) جاوید اقبال چیئرمین نیب نہیں تھے، صرف "مسنگ پرسنز، کمیشن کے چیئرمین تھے، تب تین سال پہلے یہ ایک دن اپنے خاوند کیساتھ کیا کہانی لیکر جسٹس(ر) جاوید اقبال کے پاس آئیں، وہ پھوپھو کون تھی جسے اس نے مسنگ پرسن قرار دیا، بعد میں کیا دکھ بھری داستانیں سنائیں، جسٹس(ر) جاوید اقبال نے کیوں دفتر آنے سے روک دیا، جب جاوید اقبال چیئرمین نیب بنے تو فون پہ فون، ملاقات کی خواہشیں کیوں، جسٹس(ر) جاوید اقبال نے کیوں نیب دفتر میں ملاقات سے انکار کردیا، طیبہ کا خاوند فاروق نول کون، اس پر والد کے قتل کا مبینہ مقدمہ کیوں، میاں، بیوی پر 42 ایف آئی آرز کیوں، ان پر مبینہ دھوکہ دہی، فراڈ، اغوا برائے تاوان، آڈیو، وڈیو کے ذریعے لوگوں کو بلیک میلنگ کرنے کے کیا کیا الزامات، ان کے اخبارات میں اشہارات کیوں چھپے، جب نیب لاہور نے ان کے خلاف انکوائریاں شروع کیں تو چیئرمین نیب نے کیوں کہا کہ آئندہ یہ میاں بیوی مجھ سے نہیں مل سکتے، چھ ماہ کی انکوائری کے بعد بیسیوں لوگوں سے مبینہ طور پر ڈھائی کروڑ لوٹنے پر نیب لاہور کی احتساب عدالت میں دائر ریفرنس میں کیا کیا داستانیں، خاوند فاروق نول 40 روز کیوں نیب کی حراست میں رہا، طیبہ گل کس جرم میں کوٹ لکھپت جیل میں رہیں، چیئرمین نیب کو کیا دھمکی آمیز پیغامات آئے، بلیک میلنگ کی کیا کوششیں ہوئیں، چیئرمین نیب کو آڈیو، وڈیو ریکارڈنگ کے حوالے سے کیا کہا گیا، یہ اور اس طرح کا بہت کچھ، عجیب و غریب کہانی، حیرانی یہ، معاملہ تھا کیا، بن کیا گیا۔
لیکن یہ کہانی کا ایک رُخ، دوسرا رُخ مطلب کہانی میں نیا موڑ تب آیا جب وزیراعظم عمران خان کے مشیر کے ٹی وی چینل پر آڈیو، وڈیو ریکارڈنگز آن ایئر ہوئیں، اس آڈیو، وڈیو ریکارڈنگ میں کیا، یہ سب دیکھ، سن چکے، اسے رہنے دیں، لیکن سوال یہ، یہ سب کچھ عمران خان کے مشیر(جسے وزیراعظم عہدے سے ہٹا چکے) کے ٹی وی چینل پر کیوں، ابھی تک شواہد بتائیں وزیراعظم سب کچھ سے لاعلم، مگر اسی ٹی وی پر کیوں، پیچھے کون، بلاشبہ آج نہیں تو کل پتا چل جائے گا، پھر سوال یہ بھی، چیئرمین نیب کو متنازع بنانے، گھر بھجوانے، احتساب کا عمل مشکوک بنانے میں کس کس کا فائدہ، اسٹیک ہولڈرز کون کون، یہ دیکھ لیتے ہیں، بظاہر تو مسلم لیگ(ن)، پیپلز پارٹی، حکومت اسٹیک ہولڈر، مسلم لیگ(ن) کے کیسز چل رہے، نواز شریف جیل میں، تقریباً سارا ہی ہاؤس آف شریف ضمانتوں پر، نئے کیسوں، ریفرنسز کی بھی اطلاعات، لہٰذا مسلم لیگ(ن) کی خواہش ہو سکتی ہے کہ چیئرمین نیب سے جان چھوٹ جائے، پیپلز پارٹی کی ٹاپ لیڈر شپ نیب شکنجے میں، صرف زرداری صاحب پر دو درجن کیسز، پی پی کیلئے وہ دن عید کا جس روز چیئرمین نیب گھر چلے جائیں گے، احتساب کا عمل رک یا سست ہو جائے گا، رہ گئی حکومت تو سنا جارہا کہ نیب کا کئی وزراء کے خلاف گھیر اتنگ ہونے پر چیئرمین نیب پر دباؤ تھا کہ ان وزراء کو کلیئر کیا جائے، لہٰذا عین ممکن یہ کسی وزیر، حکومتی عہدیدار کا کیا دھرا، یہاں یہ بھی بتاتا جاؤں، چیئرمین نیب کو جان سے مارنے کی دھمکیاں مل چکیں، اپوزیشن جماعتوں کے قاصد کہہ چکے، مستعفی ہوجائیں تو جو چاہیں گے، وہ ملے گا، انہیں حکومتی پیغامات بھی مل چکے کہ فلاں فلاں پر ہتھ ہولا رکھیں، فلاں فلاں کو کچھ نہ کہیں، انہیں عہدوں، پیسوں کی پیشکشیں بھی ہوچکیں، نیب سے ریکارڈ چرانے کی کوششیں بھی ہوچکیں لیکن جیسے یہ سچ کہ چیئرمین نیب کسی دباؤ میں نہ آئے، ہر پیشکش ٹھکرا دی، ہر دھمکی کے باوجود احتساب کا عمل جاری رکھا، جیسے یہ سچ کہ انہوں نے گھر بدل بدل کر بھی راتیں گزاریں، گاڑیاں، رستے بدل بدل کر بھی سفر کئے مگر اپنا کام جاری رکھا، جیسے یہ سچ کہ سپریم کورٹ کے جج، مسنگ پرسنز کے چیئرمین، نیب سرابرہ کی حیثیت سے ان پر ایک پیسے کا الزام نہیں، ویسے ہی یہ بھی سچ کہ آج اگر چیئرمین نیب فارغ ہوجاتے ہیں تو پھر احتساب بھول جائیں، کیوں، اس لئے جہاں پانامہ جے آئی ٹی ارکان سپریم کورٹ پہنچ جائیں کہ ہماری جانوں کو خطرہ، تحفظ فراہم کیا، جہاں منی لانڈرنگ جے آئی ٹی ارکان گواہوں سمیت سپریم کورٹ سے درخواست کر چکے ہوں کہ ہمیں اور ہمارے اہل خانہ کو تحفظ فراہم کیا جائے، جہاں پولیس بڑوں کی ذاتی ملازم، جہاں ایف آئی اے کے ہاتھ پاؤں پھول چکے، جہاں ملکی ادارے زمین بوس ہو چکے اور جہاں حکومت میں موجود 80 فیصد وزراء، بیوروکریٹ احتساب کے مخالف اور نیب کے پرکاٹنے کے حامی، وہاں چیئرمین نیب کا اس موقع پر چلے جانا ایسے ہی جیسے احتساب گاڑی کے چاروں پہیوں سے ہوا نکال لینا۔
اب چونکہ آڈیو، وڈیو ریکارڈنگ چل چکی، الزامات لگ چکے، چیئرمین نیب الزامات مسترد کر چکے، تحقیق، تفتیش، انکوائری ضروری، پارلیمنٹ کی پارلیمانی کمیٹی، سپریم جوڈیشل کونسل، فرانزک آڈٹ، کچھ بھی، یہ پتا چلنا ضروری کہ الزامات میں کتنی صداقت، خاتون کسی نے پلانٹ تو نہیں کی، خاتون کے پیچھے کون، آڈیو، وڈیو ریکارڈنگ چلوانے والے کون، اصل مقصد کیا، باقی وہی، بلاشبہ برا وقت کسی پر آسکتا، کمزور لمحوں میں بھول چوک کسی سے بھی ممکن لیکن جب بھی اس معاملے پر نظر دوڑاؤں تو بے اختیار منیر نیازی یاد آجائیں:
کُجھ انج وی راہواں اوکھیاں سَن
کُجھ گَل وچ غم دا طوق وی سی
کُجھ شہر دے لوک وی ظالم سَن
کُجھ سانوں مرن دا شوق وی سی