Wednesday, 30 October 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Main Khush Ke Mere Shahzaday Ko Shahzadi Mil Gae

Main Khush Ke Mere Shahzaday Ko Shahzadi Mil Gae

مجھے بس اتنا یاد کہ لوہے کی ڈارک براؤن جالیوں والا دروازہ کھولا‘ اندر قدم رکھا اور سامنے دیکھا۔ پھر اس کے بعد اچانک کیا ہو گیا‘ کتنی دیر میں وہیں کھڑا رہا‘ کس نے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مجھے دروازے سے ہٹنے کو کہا‘ کب چند قدم چل کر میں ان کے قریب آیا‘ کیسے ان سے ہاتھ ملایا اور ایک خالی پڑی کرسی پر کیسے جا بیٹھا‘ مجھے پتا تب چلا جب انہوں نے مجھ سے پوچھا ’’آپ کافی لیں گے یا چائے‘‘ میں نے ہڑبڑا کر پہلے خالی خالی نظروں سے انہیں دیکھا اور پھر کچھ سوچے سمجھے بنا ’’چائے‘‘ کہہ کر دوبارہ ٹکٹکی باندھ کر انہیں دیکھنا شروع کر دیا‘ لیکن دوستو یہ ہوش و ہواس کا جاتے رہنا‘ یہ دل کا تیز تیز دھڑکنا اور یہ ماؤف ہوتا دماغ‘ یہ سب تو ہونا ہی تھا‘ ذرا سوچئے اگر آپ دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوں اور سامنے دلیپ کمار اور سائرہ بانو بیٹھے ملیں تو آ پ پر کیا بیتے گی‘ یقیناً جو کچھ میرے ساتھ ہوا‘ وہی کچھ آپ کے ساتھ بھی ہو گا‘ بات آگے بڑھانے سے پہلے یہ بتاتا چلوں کہ یہ 23 مارچ 1998 کی ڈھلتی سہ پہر‘ اسلام آباد کا سندھ ہاؤس‘ حکومت پاکستان کی دعوت پر ’’نشانِ امتیاز‘‘ لینے آئے دلیپ کمار اور سائرہ بانو‘ اور ہم 8 دس صحافی ایک مشترکہ انٹرویو کرنے ان کے پاس پہنچے ہوئے۔

جب دلیپ کمار اور سائرہ بانو فطری اپنائیت سے ہمارا استقبال کر چکے‘ جب تعارف اور رسمی علیک سلیک ہو چکی‘ جب ہم کریم کلر کے سفاری سوٹ پہنے دلیپ کمار اور میرون رنگ کی ساڑھی میں ملبوس سائرہ بانو کو ایوارڈ ملنے پر مبارکباد دے چکے اور جب چائے کا کہہ کر چہرے پر بچوں جیسی خوشی سجائے دلیپ کمار یہ بتا چکے کہ ’’وہ اپنا آبائی گھر دیکھنے پشاور بھی جائیں گے‘‘ تب سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا‘ ہم باری باری سوال کرتے جا رہے تھے جبکہ دلیپ کمار اور سائرہ بانو انتہائی خوشگوار موڈ میں جواب دے رہے تھے‘ مجھے یاد کہ جب میر ی باری آئی تو میں نے دلیپ صاحب سے پوچھا ’’آپ فلموں میں تو رومانس کے بادشاہ‘ کیا حقیقی زندگی میں بھی اتنے ہی رومانٹک اور آپ نے پہلی مرتبہ سائرہ بانو سے اظہارِ محبت کیسے کیا‘‘ اس سے پہلے کہ ایک زور دار قہقہہ مارنے والے دلیپ کمار جواب دیتے‘ سائرہ بانو بولیں ’’یہ رومانٹک تو ہیں مگر اتنے نہیں جتنے فلموں میں‘‘ دلیپ صاحب دوبارہ ہنسے‘ اُنہوں نے ماتھے پر آئے بالوں کو اپنے مخصوص اسٹائل میں ہاتھ سے پیچھے کیا اور سائرہ بانو کی طر ف دیکھ کر بولے ’’پہلی بات تو یہ کہ سائرہ ٹھیک کہہ رہیں‘ میں حقیقی زندگی میں فلموں جتنا رومانٹک ہرگز نہیں‘ جہاں تک ان سے اظہارِ محبت کا تعلق تو یہی یاد آرہا کہ ایک شام میں انہیں ان کے گھر سے لیکر ساحلِ سمندر پر آیا‘ چہل قدمی اور اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے کرتے اچانک ان کا ہاتھ پکڑ کر کہا ’’سائرہ تم اس قسم کی لڑکی تو ہو نہیں کہ کسی رشتے کے بغیر جس کے اردگرد منڈلایا جا سکے یا کسی تعلق کے بنا جس کیساتھ صرف گھوما پھرا جائے‘ لہٰذا تمہارے اردگرد منڈلانے اور ہمیشہ تمہارے ساتھ گھومنے پھرنے کیلئے میں تم سے شادی کرنا چاہوں گا‘ کیا تم میری بیوی بننا پسند کرو گی‘‘ جیسے ہی دلیپ صاحب نے بات مکمل کی تو میں نے سائرہ بانو سے پوچھ لیا ’’پھر آپ نے کیا جواب دیا‘‘ وہ مسکرا کر بولیں ’’میں اگر پاگل ہوتی تو بھی دلیپ کمار کو ’’ناں‘‘ نہ کرتی‘ مجھے تو میرے خوابوں کی تعبیر مل رہی تھی لہٰذا ایک لمحہ ضائع کئے بنا میں نے ہاں کر دی‘‘۔

اُس دوپہر دو ڈھائی گھنٹے کی بیٹھک کے دوران مختلف سوالوں کے جواب میں دلیپ کمار نے بتایا کہ ’’وہ 11 دسمبر 1922 کی ایک سرد رات کو پشاور میں پھلوں کے تاجر محمد سرور اور نواب خاندان کی عائشہ بی بی کے گھر پیدا ہوئے‘ یہ رات سب رشتہ داروں کو اس لئے بھی یاد کہ اسی رات قصہ خوانی بازار کے ایک سنار کی ورکشاپ میں لگی آگ نے کئی سونے کی دکانیں جلا ڈالیں‘ 5 سال کی عمر میں مجھے دیکھ کر ایک فقیر نے میرے گھر والوں سے کہا ’’یہ کوئی معمولی بچہ نہیں‘ یہ بڑا ہو کر بہت زیادہ شہرت اور کامیابیاں سمیٹے گا‘‘ مجھے اسکول کے زمانے سے ہی پتنگ بازی بہت پسند تھی‘ میں کالج کے دور میں فٹ بال کا بہت اچھا کھلاڑی اور دو سو میٹر دوڑ کا چیمپئن رہا‘ دلیپ صاحب نے کہا کہ ’’ہمارا خاندان 1930 کے وسط میں پشاور سے بمبئی شفٹ ہوا‘ آغا جی (والد) مجھے بیورو کریٹ یا سیاستدان بنانا چاہتے تھے لیکن جب ایک روز ماں سے لڑ جھگڑ کر میں نے گھر چھوڑا تو پھر حالات نے مجھ جیسے انتہائی شرمیلے انسان کو اداکار بنا دیا‘ بمبئی ٹاکیز کی مالک دیویکا رانی نے مجھے پہلی فلم دی اور انہوں نے ہی میرا فلمی نام دلیپ کمار رکھا‘ فلموں میں آنے سے پہلے میں نے ایک ریسٹورنٹ میں کام کیا اور سینڈوچز کا اسٹال بھی لگایا‘‘ مدھو بالا کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اس روز دلیپ کمار کا کہنا تھا کہ ’’بلاشبہ ہم ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے اور ہماری شادی کی بات چیت بھی چل رہی تھی مگر جب میں نے مدھو بالا کے والد عطاء اللہ خان کی غیر مناسب شرطیں ماننے سے انکار کر دیا تو پھر ہماری راہیں جدا ہو گئیں‘ اُنہوں نے کہا کہ میں آپ کو ایک مزے کی بات بتاؤں کہ مغلِ اعظم ابھی آدھی ہی بنی تھی کہ میری اور مدھو بالا کی بول چال بند ہو گئی اور وہ رومانٹک مکالمے اور سین جنہوں نے ایک عرصے تک ایک زمانے کی نیندیں اڑائے رکھیں‘ ان کو فلماتے ہوئے میری اور مدھو بالا کی آپس میں سلام دعا تک ختم ہو چکی تھی‘‘ ایک سوال کے جواب میں دلیپ کمار نے بتایا کہ ’’سائرہ سے شادی کے بعد مدھو بالا کے اصرار پر میں اس سے ملنے گیا تو انتہائی کمزور اور بیمار مدھو مجھے دیکھتے ہی مسکرا کر بولی ’’میں بہت خوش کہ میرے شہزادے کو شہزادی مل گئی‘ اس روز اپنے ذاتی معاملات کے حوالے سے پریشان مدھو بالا سے یہ میری آخری ملاقات ثابت ہوئی کیونکہ چند ماہ بعد وہ 23 فروری 1969 کو انتقال کر گئی۔

صاحبو! مطالعے کے شوقین اور ہمیشہ ایک وقت میں ایک فلم میں کام کرنے والے 95 سال کے ہو چکے دلیپ کمار کبھی کامنی کوشل‘ وجتنی مالا‘ مینا کماری‘ نرگس‘ نمی اور مدھو بالا سمیت سینکڑوں ہزاروں نہیں لاکھوں دلوں کی دھڑکن تھے اور انہوں نے ایک شادی شدہ خاتون کے ٹریپ میں آکر چند روز کیلئے دوسری شادی بھی کی مگر سائرہ بانو جن کی فطری سادگی اور نرم دلی انہیں بہت پسند‘ جو انہیں پیار سے ’’چیکو‘‘ کہیں اور 11 اکتوبر 1966 کو شادی سے پہلے جو روزانہ رات کو سونے سے پہلے دعا مانگا کرتیں کہ اللہ مجھے اپنی ماں جتنی بڑی اداکارہ اور مسز دلیپ کمار بنا دے‘ وہ آج بھی ان سے پہلے دن جتنی محبت اور ہر گزرتے روز پہلے سے زیادہ خدمت کر رہیں‘ یہاں یہ بھی سنتے جائیے کہ وہ دلیپ کمار جن کے بارے میں شبانہ اعظمی کہے کہ ’’دلیپ جیسا کوئی دوسرا ہو ہی نہیں سکتا‘‘ امیتابھ بچن کہیں ’’جب بھی بھارتی سینما کی تاریخ لکھی جائے گی تو ایسے کہ ’’دلیپ کمار سے پہلے اور دلیپ کمار کے بعد‘‘ دھرمیندر بولیں ’’دلیپ جیسا اب کوئی اور نہیں آئے گا‘‘ ہیما مالنی کے خیال میں ’’دلیپ کمار بھارتی فلم انڈسٹری کا کوہ نور ہیرا‘‘ اور بقول جیا بچن ’’میری زندگی کا ایک ہی پچھتاوا کہ میں دلیپ کمار کے ساتھ کوئی فلم نہ کر سکی‘‘ یہی دلیپ کمار ناکام ہو کر فلم انڈسٹری چھوڑ چکے ہوتے اگر نور جہاں کے ساتھ یہ ’’جگنو‘‘ میں ہیرو نہ آتے اور یہ فلم ہٹ نہ ہوتی‘ جگنو میں دلیپ کمار کو کام دینے کی سفارش میڈم نے بھی کی‘ اس لئے وہ میڈم کے احسان مند‘ نور جہاں کے ذکر پر یاد آیا کہ ایک بار ملکہ ترنم سے پوچھا گیا ’’ایک دنیا کو آپ کو چاہتی رہی‘ کبھی آپ کو بھی کسی سے محبت ہوئی‘‘ یہ بولیں ’’مجھے صرف دو بندوں سے محبت ہوئی‘ ایک اعجاز درانی جس سے میں نے شادی کر لی اور دوسرے دلیپ کمار جن سے میں نے دوستی کر لی‘‘ میڈم سے ہی ایک مرتبہ جب یہ سوال ہوا کہ ایک زمانہ آپ کو خوبصورت کہے لیکن آپ کس خاتون کی خوبصورتی کی معترف‘‘ تو کہنے لگیں ’’ایک تو اندرا گاندھی کی خوبصورتی نے مجھے بہت متاثر کیا اور دوسرا ایک مرتبہ میں باری اسٹوڈیو میں داخل ہو رہی تھی کہ میں نے ایک عورت کو پیچھے سے دیکھا‘ کمال کی خوبصورت‘ جو عورت پیچھے سے اتنی خوبصورت‘ وہ سامنے سے کتنی پیاری ہو گی‘ یہ سوچ کر میں نے گاڑی سے اتر کر تقریباً بھاگتے ہوئے قریب آکر دیکھا تو وہ ادکارہ مینا شوری تھی‘ وہی مینا شوری جو جب ایک نواب کی بیگم تھیں تو نوٹوں پر چلا کرتیں اور جنہوں نے دوسری شادی اداکار اسد بخاری سے کی‘ دوستو بات کہاں سے کہاں نکل گئی‘ بات ہو رہی تھی دلیپ کمار کی‘ آج کل زیادہ بول اور چل پھر نہ سکنے والے اور یاداشت کے پیچیدہ مسائل سے دوچار دلیپ کمار کے حوالے سے جب بھی سوشل میڈیا پر ایسی ویسی خبریں پڑھنے کو ملیں تو جہاں ان سے اپنی ملاقات اور اس ملاقات کی باتیں یاد آجائیں وہاں بے اختیار دل سے یہی دعا نکلے کہ ’’اللہ انہیں صحت عطا کرے اور ان کے چاہنے والے کم ازکم ان کی زندگی کا سو سالہ جشن تو ضرور منائیں‘‘۔