وہی بارشیں، وہی سیلاب، وہی بے قابو پانی کے ریلے، وہی تباہی، وہی گرتے مکان، وہی بہتے مویشی، وہی مرتے لوگ، وہی ڈھیٹ، شرم پروف خود ساختہ رہنماؤں کی آنیاں جانیاں، سالہا سال سے یہی ہو رہا، یہی دیکھ رہے، یہی بھگت رہے، ایک نالہ ہر سال کروڑوں، اربوں کا نقصان کر جائے، ایک نہر، ایک دریا، ایک سیلابی رستہ ہر سال سینکڑوں جانیں نگل جائے، کوئی مستقل حل نہیں، ہر سال بے حسوں کی اداکاریاں، ہر سال شعبدے بازیاں، دو چار ہفتے شور شرابہ، پھر اللہ اللہ خیر صّلا، ابھی کل ہی کراچی میں تباہی مچاتے کوڑے زدہ غلیظ پانی میں پینٹ اوپر کئے کراچی کے بلدیاتی ادارے کے سربراہ کو دیکھا، مزدوروں، دکانداروں، لوئر مڈل کلاسیوں والی تحریک اربوں، کھربوں ٹھکانے لگا گئی، 30 سال اسی تحریک نے کراچی پر راج کیا، ان کی نسلیں سنور گئیں، ویٹر ہوٹلوں کے مالک بنے، ریڑھیوں والے بزنس ٹائیکون ہوئے، جن کے پاس گھر نہ گھاٹ، وہ محلات کے مکین ہوئے لیکن کراچی یتیم، بے آسرا، تباہ ہو گیا، اوپر سے رہی سہی کسر بھٹو کے وارثوں نے نکال دی، دو دن پہلے سندھ حکومت کی اعلیٰشخصیات کو ابلتے گٹروں سے ذرا ہٹ کر کھڑے دیکھا، باتیں کروا لو، بھٹو کے نعرے لگوا لو، اومنی گروپ کو فائدے دلوا لو، تباہ و برباد کر دیا سندھ کو، کراچی پانی میں ڈوبا ہوا، تھر پانی پانی کر رہا، آصف زرداری نیب حراست میں رُل رہا، بھٹو کا نواسہ ضیاء کی آل اولاد سے مطلبی پینگیں بڑھا رہا، نسل در نسل بھوکے ننگے، مجبور، غلام سندھی سسک سسک مر رہے۔
ابھی کل ہی ریاست مدینہ پنجاب کے موجودہ قائد کو بارشی پانی میں شرم سے ڈوبی لاہوری سڑکوں پر کمال سکون سے سرکاری لینڈ کروزر چلاتے دیکھا، کیمرہ ساتھ ساتھ، شوٹنگ جاری، کہیں پانی کے ریلے دیکھ کر موجودہ قائد محترم کا ذہانت، متانت سے عاری چہرے پر جعلی فکر مندیاں سجائے علامہ اقبال بن کر کھڑے ہو جانا، کہیں پانی میں گھری خواتین کو گاڑی میں بٹھا نے کے ناٹک، انہی سڑکوں پر کل یہی کچھ پنجاب کے سابق قائد محترم کر رہے تھے، ہاں البتہ گوالمنڈی انقلابی کے مفاہمتی بھائی کے اسکرپٹ رائٹر، ہدایتکار، پروڈیوسر، شاطر، گھاگ تھے، ایک عام سے سین میں ایسی رنگ بازیاں بھرتے، دنیا عش عش کر اٹھتی، موجودہ قائد پنجاب کی ٹیم کمزور، لہٰذا زیادہ سے زیادہ یہی کچھ کر سکتے تھے، جو کیا، گاڑی نکالی، سڑکوں پر تشریف لائے، پانی کو دیدار بخشا، سرکاری گاڑی میں سواریاں بٹھائیں، یہ جا، وہ جا۔
لکھ کر رکھ لیں، اگر پنجاب کے سابق قائد کی چوتھی مرتبہ وزارت اعلیٰ لاٹری نکل آئے، بابا جانی کے بعد بیٹا جانی کا چانس لگ جائے یا بیٹے کا بیٹا جانی بھی وزیراعلیٰ بن جائے تو بھی بارشوں، سیلابوں میں انیس، بیس کے فرق سے یہی کچھ ہو رہا ہوگا، مستقل حل کسی کو نکالنا نہیں، بس یہ ویژن لیس مخلوق تھکی تھکی اداکاریوں میں لگی رہے گی، پچھلے 15سال سے جب جب سیلاب تشریف لایا تب تب سابق قائد پنجاب کی ایک ہی فلم چلی، سر پر ہیٹ، خاکی وردی، لانگ شوز، بیورو کریسی کے ساتھ گندے پانی میں گھستے چلے جانا، آن کیمروں میں عوامی دکھ، درد میں ڈوبی تسلیاں، غصے بھری انگلی کے اشارے، ڈائیلاگ بازی، جھٹ سے عوام، کیمروں کے سامنے کسی غریب موٹر سائیکل سوار کے پیچھے بیٹھ جانا، لٹے پٹے بابے، بابیوں کو بے اختیار سینے سے لگا لینا، گھر بنا کر دینے کے وعدے، راشن پہنچانے کے دعوے، مہینہ دو مہینہ یہ فلم چلتی، پھر ہیٹ، وردی، لانگ شوز سنبھال کر رکھ دیئے جاتے، جونہی اگلے سال سیلاب تشریف لاتا، وہی ہیٹ، لانگ شوز، خاکی وردی، وہی سیلابی پانی، وہی قائد پنجاب، کل سابق قائد پنجاب یہ کر رہے تھے، آج موجودہ قائد پنجاب یہ کر رہے، آگے کوئی اور قائد پنجاب یہ کر رہا ہوگا، لوگ مکانوں میں دب کر، بجلی کے کھمبوں، ننگی تاروں سے لٹک کر، سیلابی ریلوں میں بہہ کر مرتے رہے، مرتے رہیں گے۔
پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین کے شہر شہر محل دیکھ لیں، سابق حکمرانوں کے نگر نگر دولت خانے دیکھ لیں، دونوں دھڑوں کے غلاموں کے عیش کدے دیکھ لیں اور گٹرو گٹر ہوئی عوام دیکھ لیں، چلو انہیں چھوڑیں، آج تبدیلی سرکار کے ہر کرتے دھرتے کو دیکھ لیں، جو جتنے جو گا، جس کا جتنا داؤ لگا ہوا، اس کی اتنی ہی موجیں لگی ہوئیں، ایک عمران، باقی سب لنڈے کا سامان، سنا جا رہا، کے پی کے چند وزیروں سمیت اپنوں کو نوازنے کیلئے فی کلو تمباکو پر 3سو روپے ٹیکس کم کر کے 10 روپے فی کلو کر دیا گیا، ملک بھر میں ٹیکس ٹیکس ہورہی، سب سے بڑا مسئلہ ٹیکس نیٹ بڑھانا، ٹیکس وصولی لیکن اپنوں کو ایسی رعاتیں کہ فی کلو تمباکو پر 3 سو کے بجائے صرف 10 روپے فی کلو ٹیکس، سنا جارہا، یہ جو 33 فیصد چینی کی قیمتیں بڑھیں، اسکا فائدہ بلاشبہ نواب شاہ اور لاہور کے سیاسی گھرانوں کو بھی، مگر سب سے زیادہ پی ٹی آئی جنوبی پنجاب کے ایک رہنما کو، کیونکہ ان کی چینی پیداوار سب سے زیادہ، موصوف کی شوگر ملوں کی سالانہ پیداوار 65 ہزار ٹن، سوچئے، ایک سال میں 30 روپے فی کلو چینی کی قیمت بڑھ جائے، آپ کی پیداوار ہو سالانہ 65 ہزار ٹن، منافع کہاں سے کہاں جا پہنچے گا، اوپر سے گنے، چینی پر حکومتی سبسڈیاں، شوگر مافیا کی گنے کے بھگاس سے بجلی بنانا، اس بجلی سے اسٹیل، لوہے اور شوگر پلانٹ چلانا، یہ سب منافع الگ، اسی طرح خیبر پختونخوا، پنجاب، وفاق، جس کا جہاں جگاڑ لگا ہوا، وہیں جگاڑ لگائی بیٹھا، ایک عمران خان کیا کیا کرے، کس کس کو روکے، کس کس کو ٹوکے، کس کس کو رکھے، کس کس کو نکالے، یہاں تو آوے کا آواہی بگڑا ہوا۔
ویسے بھی وہاں کوئی کیا کر سکتا ہے، جہاں قانون جعلی، نظام جعلی، جمہورے جعلی، تاریخ جعلی، نصاب جعلی، جعلی خوراکیں، جعلی دوائیاں، جہاں جھوٹ منافقت، حسد، غیبت، چغلی، ملاوٹ، اخیر ہو چکی، جہاں پولیو، ایڈز پھل پھول رہے، جہاں کرپشن، کمیشن، دو نمبر دھندے، دن دگنی رات چوگنی ترقی، جہاں صرف بڑے ہی کرپٹ نہیں، کچھ بے وقوفوں کو چھوڑ کر چھوٹے، بڑے سب کرپٹ، جہاں اوپر حکمرانوں کی صورت میں عذاب، نیچے مہنگائی، بے روزگاری، لاقانونیت اور سیلاب، اوپر کھا کھا بدہضمیاں ہو چکیں، نیچے خالی پیٹوں میں دوڑتے چوہے بھی بھوک سے مر رہے، اوپر ستیاناس، نیچے سوا ستیاناس، اوپر مکار، نیچے لُٹے پُٹے فنکار، اوپر انت مچی ہوئی، نیچے مَت مَری ہوئی، اوپر گاڈ فادرز، نیچے جیرے بلیڈ، اوپر مداری، نیچے بے کاری، اوپر نیب زدہ، نیچے سب مال عیب زدہ، قصہ مختصر، اوپر سے نیچے، نیچے سے اوپر، درمیان میں چند بے عقلوں کو چھوڑ کر وہی معصوم جس کا داؤ نہیں لگا اور وہی شریف جسے موقع نہیں ملا۔