سابقہ کالم میں کچھ مسائل کا ذکر کیا تھا، آج 18ویں ترمیم کے مزید مسائل کا ذکر کرنا ہے لیکن اس دوران بلی تھیلے سے باہر آگئی۔ پشتو میں ایک محاورہ ہے کہ "گھر میں دانے نہیں ہیں اور ماں باہر مستی سے گانے گا رہی ہے"۔
صوبہ خیبر پختونخوا عرصے سے فریاد کر رہا ہے کہ بجلی کے خالص منافع کا بقایا ادا کیا جائے تاکہ ہم اخراجات پورے کرسکیں اسی طرح باقی صوبے بھی چیخ رہے ہیں کہ اوپر سے فواد چوہدری صاحب کا بیان آگیا کہ "صوبے اپنے NFCایوارڈ کے حصے سے دفاعی اخراجات کے لیے رقم دیں "۔
موجودہ کورونا بحران میں کم آمدنی کی وجہ سے ضرورت اس امر کی ہے، کہ دیگر غیر پیداواری اخراجات میں کمی کرکے صحت اور تعلیم پر توجہ دی جائے، اس بیان سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ 18ویں ترمیم کی یہ شق حکمرانوں کو گراں گزرتی ہے کہ " اس ترمیم کی منظوری کے بعد NFCایوارڈ میں متعین صوبوں کا حصہ، زیادہ ہوسکتا ہے لیکن کم نہیں ہو سکتا"۔ اب اس ترمیم کے دوسرے مسائل۔
دنیا میں جہاں بھی وفاقی حکومت ہوتی ہے، وہاں پر پارلیمنٹ کے دو ایوان ہوتے ہیں، ایک عوام کا نمایندہ اور دوسرا صوبوں یا ریاستوں کا نمایندہ۔ ہماری قومی اسمبلی میں پنجاب 58فی صد ہے، باقی تینوں صوبے ملا کر 42فی صد ہیں، آبادی کے اس تناسب کے ساتھ وہاں کون سا دوسرے صوبے کا اپنے حق میں قانون سازی کر سکتا ہے؟ ان حالات میں سینیٹ ہی چھوٹے صوبوں کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے، ہماراسینیٹ بے اختیاراور ایک نمائشی ادارہ بنایا گیا ہے، عجیب بات تو یہ ہے کہ صوبوں کی نمایندہ ایوان میں فاٹا(مرکز)کو 8نشستیں (جو خوش قسمتی سے ختم ہوجائیں گی)اور اسلام آباد کو 4نشستیں دی گئی تھیں، یہ بارہ نشستیں مرکز کو کس کھاتے میں دی گئی تھیں، آخر یہ کس کی نمایندگی کرتے ہیں؟ ۔
اب چار نشستیں اقلیتوں کی بھی ہوں گی، خواتین کی نشستیں بھی الگ سے ہیں جو صوبوں کی نمایندگی کو متاثر کرتی ہیں، یہ سینیٹ صوبوں کی نمایندہ نہیں بلکہ ایک ایمپلائمنٹ ایکسچینج ہے جہاں پارٹیاں اپنے بے روزگار لوگوں کو بھرتی کرتی ہیں۔ اقلیتوں، خواتین اور ٹیکنوکریٹس کی الگ الگ نشستوں کا سینیٹ میں کیا کام؟ یہ تو صوبوں کے حقوق کے تحفظ کا ایوان ہے، خواتین اوراقلیتوں کے حقوق کے لیے صوبائی اور قومی اسمبلی میں نشستیں موجود ہیں، سیاسی پارٹیوں کو بھی چاہیے کہ ایوان بالا میں ان لوگوں کو بھیجیں جو صحیح طور پر صوبے کی نمایندگی کرسکیں، ان میں ٹیکنوکریٹ، سابقہ بیوروکریٹ، سیاسی شخصیات، وکلا، طبی اور معاشی ماہرین، قابل خواتین، صحافی اور دانشور سب ہونے چائیے اس کے لیے خواتین، اقلیتوں اور ٹیکنوکریٹ کی الگ الگ تشخیص غلط ہے؟
اگر سینیٹ کے ادارے کی اصلاح مطلوب ہو تو پھر اس ایوان کے بنیادی اہمیت کو دیکھتے ہوئے سنجیدہ ترامیم کی طرف توجہ دینی چاہیے، کچھ لوگ اتنے پیارے ہوتے ہیں کہ ان کو اپنے صوبے سے اٹھاکر دوسرے صوبے میں ٹکٹ دی جاتی ہے، صوبے سے تعلق نہ رکھنے والے کو پارٹیوں کی طرف سے ٹکٹ دینا کیا معنی رکھتا ہے؟ کیا یہ صوبائی نمایندگی کے ساتھ مذاق نہیں ہے؟
کیا یہ سیاسی رشوت نہیں ہے، کیااس طرح عوام حقیقی نمایندگی سے محروم نہیں کردیے جاتے، اس ایوان کا انتخاب براہ راست ووٹ سے ہو نا چا ہیے تاکہ ہارس ٹریڈنگ کی رو ا یت ختم ہو۔ چیف الیکشن کمشنر، وفاقی محتسب، آڈیٹر جنرل، سفیروں، کارپوریشنوں کے چیئرمینوں، بینکوں، دیگر مرکزی کارپوریشنوں اور اداروں کے سربراہوں اور کابینہ کی تقر ری کے لیے سینیٹ کی منظور ی لا ز می قر ار دی جائے، قائد ایوان (وزیراعظم) پراعتماد اور عدم اعتماد دونوں مواقع پر سینیٹ کو قو می اسمبلی کے بر ا بر وو ٹ کا حق د یا جا ئے، بجٹ اور ما لیا تی بلوں کی منظور ی، سفیروں کی تقرری اور حکومتی اخراجات اور قرضوں پر بھی سینیٹ کی منظوری ضروری ہے۔
عوام کے ووٹوں سے براہ راست منتخب اور اختیارات کا حامل سینیٹ ہی اعتماد اور عزت کے قابل ادارہ سمجھا جائے گاورنہ کچھ بھی ہوجائے عوام کی نظروں میں سینیٹ لایعنی ادارہ رہے گا، جس کے ممبران، میرٹ کے بجائے دولت کے بل پر منتخب ہوتے ہیں۔
صوبوں کوبہت سی چیزیں دینے کے دعوے کیے جاتے ہیں، یہ ٹھیک ہے کہ اس ترمیم کے ذریعے صوبوں کو پاپولیشن دے دی، آرکیویز دے دی، لاٹری دے دی لیکن بجلی بدستور مرکز کے پاس رہے گی، بلکہ صوبے اپنی پیدا کردہ بجلی بھی مرکز کی مرضی سے خرچ کریں گے، بجلی کیوں صوبوں کو نہیں دی گئی؟ ۔ بجلی پیدا کرنے کے بڑے منصوبے مثلاً تربیلہ، منگلا، ورسک وغیرہ صوبوں سے لے کر مرکز کو دے دیے گئے، صرف 20فی صد کام ہوا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ بقایا 80فی صد کام بھی ہو۔ بجلی کا مسئلہ ہے KEکامسئلہ ہے، بجلی کے مسائل اور پیداوار صوبے کر رہے ہیں، ون یونٹ سے قبل بجلی صوبوں کے پاس تھی۔
18ویں ترمیم اگر صوبائی خود مختاری کے لیے کی گئی ہے، پیسے تو وفاق نے لے لیے ہیں، کیاآپ نے صوبوں کو ٹیکس جمع کرنے اور ان کو خرچ کرنے کا حق دیا ہے؟ ۔ کیا آپ نے صوبوں کے قدرتی وسائل پر ان کو اختیار دیاہے؟ کیا آپ نے قومیتوں کے کلچرل اور زبانوں کے حقوق کے لیے کام کیا؟ اگر نہیں کیے ہیں تو پھر یہ ترمیم صوبوں کے حقوق کے لیے ناکافی ہے، ہمیں ایک اور ترمیم کے لیے جانا پڑے گا۔ قدرتی وسائل پر اختیار، پیسوں کا حق تو مرکزکے پاس ہے، تنخواہیں صوبے کہاں سے دیں گے، قدرتی وسائل کی آمدنی پر کافی لے دے کے بعد بڑی مشکل سے یہ فیصلہ ہوا کہ چلو جس صوبے میں قدرتی وسائل پیدا ہوں وہ صوبہ آدھی آمدنی لے۔
صوبہ پختونخوا ایک عرصے سے افغان مہاجرین، دہشت گردی اور سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار ہے، جنگ عظیم دوم کے بعد تباہ شدہ یورپ کی بحالی کے لیے جس طرح "مارشل پلان" بنایا گیا تھا اور اربوں ڈالر امداد دی گئی تھی، اسی طرح اس صوبے کو بھی خصوصی امدادی پیکج دیا جاتا اورکیری لوگر بل کی رقم میں سے بھی زیادہ حصہ دیا جاتا، اس کے بجائے حالت یہ ہے کہ اس صوبے کے مرکز کے ذمے بجلی کے رائلٹی کے واجب الادا رقم بھی مرکز دینے سے انکاری ہے۔
اب تو نئے پاکستان کی حکومت متفقہ قاضی فارمولے سے بھی منکر ہے، جب یہ صوبہ اتنے سالوں سے اپنے واجب الادا حقوق حاصل نہ کرسکا تو اوپر سے جو وزارتیں صوبے کے حوالے کی گئی ہیں، ان وزارتوں کے اخراجات کہاں سے پورے کیے جائیں گے، جتنے بھی مالی آمدن کے ذرایع ہیں وہ تو مرکز کے پاس ہیں، واپڈا کی آمدنی ہو یا ٹیکسوں کی آمدنی، اب تو مزید وزارتوں کا بوجھ بھی صوبے پر آگیا تھا۔ ان تلخ حقائق کو سامنے لانے کے بجائے صوبائی حکومت وزارتوں کی منتقلی کو کارنامہ قرار دے کر جشن منا رہی تھی۔
صرف صوبے کے نام کی تبدیلی سے مسئلہ حل نہیں ہوا، زندگی اور حکومتیں نام کی تبدیلی سے نہیں بلکہ وسائل سے چلتی ہیں، بچے کو نام کے علاوہ روٹی اور تعلیم بھی چاہیے، مرکز نے توآمدن کے پرانے ذرایع اپنے پاس رکھ لیے ہیں، کیا صوبائی حکومت نئے بجلی گھر بنائے گی اور اس کی آمدنی سے عوام کی خدمت کرے گی؟ تیل اور گیس کے نئے ذخیرے دریافت کرکے اس کی آمدن سے مزے کرے گی، معاف کیجیے، ڈیم، بجلی گھر اور نئے معدنی ذخائر اتنے جلدی نہیں بنتے۔"نہ نو من تیل ہوگا اور نہ رادھا ناچے گی"۔
اب 18ویں ترمیم کے علاوہ مزید ترمیم کی ضرورت ہے جس میں صوبوں کو معاشی خودمختاری مل سکے اور صوبوں سے یونین کونسل تک اختیارات کی منتقلی ہو سکے، کیونکہ اختیارات کا نچلی سطح تک پہنچنے کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ مرکز سے صوبوں اور صوبوں سے ضلعوں و یونین کونسلوں تک اختیارات کی تقسیم ہو۔ موجودہ حالات میں صوبوں نے بلدیاتی نظام کو مفلوج کردیا ہے، جس کی وجہ سے مسائل کے حل میں مشکلات ہیں، چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے بھی ممبران کے پیچھے بھاگنا پڑتا ہے جو خود بھی کورونا کے خوف سے چھپ گئے ہیں۔