ہم پہلے بھی ملٹی نیشنل کمپنیوں اور ان ممالک کا ذکر کر چکے ہیں جو دنیا بھر میں اسلحہ بھیج کر اربوں کھربوں ڈالر کماتے ہیں، آج ان ممالک کا جائزہ لیں گے جو یہ اسلحہ خریدتے اور اپنے غریب عوام کا پیٹ کاٹ کر اربوں ڈالر ان کمپنیوں کو دیتے ہیں۔ SIPRI نہ صرف ان ممالک کا تفصیلی جائزہ لیتی ہے، جو اسلحہ بناکر بھیجتے ہیں بلکہ خریدنے والے ممالک کے اسلحہ خریدنے کی وجوہات پر بھی نظر رکھتی ہے۔
SIPRI کے سینئر ریسریچرسائمن ٹی ویز مین کے مطابق "ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ریاستوں انڈیا اور پاکستان ایک دوسرے پر درآمدشدہ بڑے ہتھیار استعمال کر سکتے ہیں، جس طرح سابقہ جنگوں میں استعمال کرتے رہے ہیں۔ سائمن کا کہنا ہے کہ دنیا کے ہتھیار بنانے والے بڑے ممالک ان دونوں ملکوں کے قیام کے بعد سے ان کو ہتھیارفروخت کر رہے ہیں اور یہ دونوں ممالک ہتھیاروں کی بڑی مارکیٹ بن گئے ہیں۔
("کھایا پیا کچھ نہیں۔ گلاس توڑا بارہ آنے " کے مصداق نہ کچھ جیتے نہ ہارے بس اسلحے پر غریب عوام کے پیسے خرچ کرتے ہیں )۔ انڈیا دنیا میں اسلحے کا دوسرا بڑا درآمد کنندہ ہے، جب کہ پاکستان کا 11 واں نمبر ہے، پاکستان کی معاشی صورت حال اور سائز کو دیکھتے ہوئے یہ بھی بہت زیادہ ہے۔
اس عرصے میں مشرق وسطی کے ممالک میں اسلحہ کی درآمد میں 61% اضافہ ہوا ہے، یہ دنیا بھر کے اسلحے کی تجارت کا 35% ہے، سعودی عرب دنیا میں اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے، اس کے بڑے اسلحے کی درآمد میں 130% اضافہ ہوا ہے، یہ غیر معمولی اضافہ دنیا کے اسلحے کی درآمدات کا 12% ہے۔ سعودی عرب امریکا سے 73% اور برطانیہ سے 13% اسلحہ درآمد کرتا ہے، دونوں ممالک زیادہ اسلحہ سعودی عرب کو سپلائی کرتے ہیں۔ UAE (متحدہ عرب امارات) دنیا میں اسلحے کا آٹھواں بڑا درآمد کنندہ ہے۔
آرمینیا اور آذر بائی جان کا، نگورنو کاراباغ کے مسئلے پر تنازعہ چل رہا ہے، آج کل ان کے درمیان تیز لڑائی جاری ہے، طاقت کے مظاہرے کے لیے دونوں ممالک بڑے پیمانے پر اسلحہ کی خریداری کر رہے ہیں، یہ دونوں ایک دوسرے کے ملکوں کے اندر حملہ کر کے تباہی پھیلانے کے لیے روسی میزائل بھی خرید رہے ہیں، آرمینیا پچھلے پانچ سال سے اپنے کل اسلحے کا % 94 روس سے خریدتا ہے، جس میں SU-30 جنگی طیارے بھی شامل ہیں۔ آذر بائی جان اپنے اسلحے کا 31% روس سے اور 60% اسرائیل سے درآمد کرتا ہے، اس دوران آرمینیا کے اسلحے کی درآمد میں 415% اضافہ ہوا ہے، آذر بائی جان کی خریداری آرمینیا سے 3.3 گنا زیادہ ہے۔ یوکرین میں روسی قوم پرستوں کے خلاف لڑائی جاری ہے، اس کے باوجود وہ بہت کم اسلحہ خریدتا ہے کیونکہ اس کی اپنی اسلحے کی صنعت کافی مضبوط ہے۔
ترکی ایک طرف کردوں سے لڑ رہا ہے اور دوسری طرف شام اور لیبیا کی خانہ جنگیوں میں بھی دلچسپی رکھتا ہے لیکن اسلحے کی صنعت مضبوط ہے اس لیے بہت کم اسلحہ خریدتا ہے، پچھلے سال روس سے S-400 ائر ڈیفنس سسٹم خریدنے کی وجہ سے امریکا نے اس کو 100 عدد ایڈوانس F-35 جہازوں کی فروخت روک دی۔ کرنل قذافی کی موت کے بعد لیبیا مسلسل خانہ جنگی کا شکار ہے، ایک طرف بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ (GNA)کی حکومت اور دوسری طرف خلیفہ افطار کی زیر قیادت لیبین نیشنل آرمی(LNA) کے درمیان 2014ء سے خانہ جنگی جاری ہے، اس خانہ جنگی میں مسلم اور دیگر ممالک فریقین کی حمایت کے علاوہ ان کو اسلحہ بھی سپلائی کر رہے ہیں، حالانکہ اقوام متحدہ نے لیبیا کو اسلحہ کی ترسیل پر پابندی لگائی ہے۔
اسلحے کی تجارت ایک منافع بخش کاروبار ہے، اس تجارت میں اضافہ بہت زیادہ اور کمی بہت کم ہوتی ہے، غریب ملکوں کے حکمران ہمیشہ اسلحے کی خریداری میں دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ اس میں عالمی کمپنیاں زیادہ کمیشن دیتی ہیں اور یہ کمیشن بیرونی ملکوں کے بینکوں میں رکھنے کی سہولت بھی دیتی ہیں۔
اسلحے کے عالمی سطح پر کاروبار کے بارے میں اس ساری تفصیل میں تین امور کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے، اسلحہ کے خریدار سب تیسری دنیا کے غریب ممالک ہیں، جن کو لڑنے جھگڑنے کا شوق ہے، مزہ تو تب ہو جب اپنا اسلحہ بنا کر لڑائی کی جائے، یہ کیا عقلمندی ہے کہ فوجی اور سول افسران اور سیاستدان کمیشن کے لیے غریب عوام کا پیسہ ان عیاشیوں پر خرچ کریں اور عوام کی تعلیم، صحت اور روزگار کے مسائل کی طرف توجہ نہ دی جائے۔
اسلحہ بنانے والے ممالک خود نہیں لڑتے، دوسری جنگ عظیم کی تباہی کے بعد ان ملکوں نے فیصلہ کیا ہے کہ جنگ تباہی لاتی ہے اور انسان کی ترقی صرف امن سے وابستہ ہے، اس لیے وہ خود جنگ سے دور رہتے ہیں اور غریب ملکوں کے لیے ہتھیار بنا کر اور ان کے اختلافات کو ہوا دیکر اپنا اسلحہ بھیجتے ہیں۔
یورپ اور امریکی براعظم کے ممالک آپس کے اختلافات کے باوجود لڑائی سے دور رہتے ہیں، اسلحہ بنانے والے ممالک میں کوئی مسلمان ملک شامل نہیں ہے، ازمنہ وسطی کا زمانہ اچھا تھا کم از کم مسلمان جنگوں میں اپنے تیر کمان اور تلوار کے علاوہ اپنے گھوڑے پر سواری کرتے تھے، اب جب کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی وجہ سے نئے نئے ہتھیار بن رہے ہیں لیکن مسلمان چونکہ نئے علوم اور سائنس میں پیچھے ہیں، تو ان کے اختلافات اور جنگوں کی وجہ سے ترقی یافتہ ملک ان کو اسلحہ بھیج کر مالدار ہو رہے ہیں اور ان دفاعی اخراجات کی وجہ سے غریب ملکوں کے عوام مزید بدحالی کا شکار ہو رہے ہیں۔