"خیبرپختونخوا جمہوری اتحاد" کے زیر انتظام عظیم انقلابی، کاکاجی کی زندگی پر ایک سیمینار آج بروز اتوار 26جنوری کو پشاور میں ہو رہا ہے۔
قومی وطن پارٹی، مزدور کسان پارٹی، عوامی ورکرز پارٹی، نیشنل پارٹی پختونخوا اور اولسی تحریک پر مشتمل ترقی پسند اور قوم پرست پارٹیوں کا یہ اتحاد، کنوینر سکندر خان شیرپائو کے زیرقیادت خیبر پختونخوا کے مسائل پر کافی متحرک ہے۔
بدقسمتی سے جو تاریخ ہمارے بچوں کو پڑھائی جاتی ہے، اس میں چند مخصوص لوگوں کا یا زیادہ تر ہندوستان کے افراد کا ذکر ہوتا ہے۔ ان لوگوں کے کارناموں کو اجاگر کرنا، جو مغلوں اور انگریزی سامراج کے بھی غدار تھے اور ہمارے حکمرانوں کو بھی ان کا ذکر پسند نہیں بہت ضروری ہے، اس سرزمین نے پیر روخان سے لے کر خوشحال خان خٹک، عمراخان جندول، حاجی صاحب ترنگزئی، فقیر ایپی، مولانا عبدالرحیم پوپلزئی، خوشحال خان کا کاجی اور عظیم باچا خان سمیت بہت سے انقلابی اور آزادی پسند رہنماء پیدا کیے، ان انقلابی رہنمائوں نے اپنی جدوجہد اور محنت سے خدائی خدمتگار، کسان تحریک اور اس جیسی دوسری سامراج دشمن اور انقلابی تحریکوں کی راہ ہموار کی، ان رہنمائوں میں کاکاجی صنوبر حسین مومند (1897 تا 3 جنوری 1963) کو استاد کا درجہ حاصل ہے، ان کا اپنا ایک شعر ان کی زندگی کی تفسیر ہے وہ کہتے ہیں کہ۔۔
؎چہ یے سر چرے خزاں وتہ ٹیٹ نہ شو۔ زکہ نوم پرے ادے ایخے صنوبر دے۔
(میرا سر ہر قسم کے طوفان میں صنوبر کی درخت کی طرح اونچا رہے۔ اسی لیے ماں نے میرا نام صنوبر رکھا ہے)۔
کاکاجی صنوبر حسین مومند برصغیر کے جنگ آزادی کے ایک عظیم ہیرو تھے، ایک نڈر اور اپنے سیاسی نظریے سے مخلص سیاستدان، نڈر صحافی اور بہترین شاعر، زندگی کا بڑا حصہ برطانوی سامراج کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے گزارا، وہ طبقاتی اونچ نیچ اور رنگ ونسل کے دیوتائوں کے مخالف تھے، ایک عظیم سیاستدان کے علاوہ وہ پشتو زبان کے ایک بہترین شاعر بھی تھے، ان کو فارسی، اردو اور انگریزی زبانوں پر بھی عبور حاصل تھا، وہ 1897 میں پشاور کے قریب ایک چھوٹے گائوں کگہ ولہ میں پیدا ہوئے، انھوں نے میٹرک کے بعد تعلیم کا شعبہ اختیار کیا لیکن سرکار کی نوکری میں دل نہیں لگا اور عوامی انقلاب کے لیے عملی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔
ان کا زیادہ وقت علاقے میں کسانوں اور مزدوروں کو منظم کرنے میں صرف ہو تا تھا، انھوں نے سیاست کی ابتداء کانگریس اور خدائی خدمتگار تحریک کے پلیٹ فارم سے کی، ان کو عدم تشدد کے فلسفے سے اختلاف تھا اور انقلابی طریقوں سے ملک کو آزاد کرانا چا ہتے تھے، اس لیے پہلے سبھاش چندر بوس کے فارورڈ بلاک میں اور بعد میں اپنے نظریات کی بناء پر انقلابی نوجوانوں کی تنظیم "انجمن نوجوانان سرحد " میں شامل ہوئے، بعد میں یہ تنظیم ہندوستان کے نوجوانوں کی انقلابی تنظیم "نوجوان بھارت سبھا " کے ساتھ منسلک ہو گئی، مشہور عالم دین مولانا عبد الرحیم پوپلزئی اس تنظیم کے لیڈر تھے، جنھوں نے ایک عظیم انقلابی اور سامراج دشمن لیڈر کی شہرت پائی تھی۔ کاکاجی انگریز سامراج سے سخت نفرت کرتے تھے اور ان کے حواریوں خوانین، اربابوں اور جاگیرداروں کے خلاف جدوجہد کو اپنی سیاست کا مقصد گردانتے تھے، ابتداء میں وہ سیاست میں انتہا پسندی کے قائل تھے لیکن بعد میں اپنے مطالعے، مشاہدے اور تجربے کی بناء پر اعتدال پسند ہو گئے تھے۔
1926میں انھوں نے اپنے گائوں میں "انجمن زمینداران" کے نام سے ایک تنظیم بنائی جس میں مقامی کسانوں اور غریبوں نے انتہائی دلچسپی لی، آج کے مقابلے میں اس وقت سیاست کرنا اتنا آسان نہیں تھا کیونکہ اس وقت نہ تو سفر کی سولتیں موجود تھیں اور نہ ہی مواصلات اور رابطوں کا یہ سسٹم موجود تھا، حکومت ان کی گرفتاری کی کوششیں کر رہی تھیں، کاکاجی کچھ عرصہ انڈر گرائونڈ رہ کر کام کرتے رہے لیکن جب کام کرنا مشکل ہو گیا، تو ان کے ساتھیوں نے مشورہ دیا کہ وہ قبائلی علاقے میں مفرور ہو جائے، کاکاجی نے یہ مشورہ تسلیم کیا، وہ جنگ آزادی کے ہیرو حاجی صاحب ترنگزئی کے پاس غازی آباد چلے گئے، جو پہلے سے قبائلی علاقوں میں انگریزی سامراج کے خلاف جدوجہد کر رہے تھے۔
کاکاجی نے ان کا ساتھ دیا اور 18سال تک وہاں رہے، وہ چونکہ بنیادی طور پر ایک ادیب اور دانشور تھے اور صحافیانہ صلاحیتیں ان میں موجود تھیں اور ان کو ذرایع ابلاغ کی اہمیت کا اندازہ تھا، اسی لیے انھوں نے "شعلہ " کے نام سے ایک مجلہ جاری کیا، اس کو وہ ہاتھ سے بنائے گئے پریس میں چھاپتے تھے، اس رسالے میں سب تحریریں کاکاجی کی ہوتی تھیں، خبریں ’مضمون اور تبصرے لکھ کر چھاپتے تھے، اس طریقے سے وہ عوام میں سیاسی شعور پیدا کرنے، ان کو آزادی کی اہمیت سے آگاہ کر نے کے علاوہ ان کو جدوجہد کے لیے بھی تیار کرتے تھے، اس طرح ایک سچے انقلابی کی حیثیت سے اپنی ذمے داریاں پوری کرتے رہے، قبائلی علاقوں میں انھوں نے کافی کام کیا۔
کاکاجی پشتو، اردو اور فارسی کے بڑے عالم اور ادیب تھے، انگریزی ادب کا مطالعہ بھی کیا تھا، تخلیقی ادب کے ساتھ ساتھ عمر خیام کی رباعیوں کے ترجمے کے علاوہ ایران کے انقلابی شاعر لاہوتی انقلابی کی نظموں کے پشتو ترجمہ، عالمی شہرت یافتہ مصری ادیب ڈاکٹر طہٰ حسین اور شاہ ولی اللہ کی کتابوں کے ترجموں کے علاوہ مشہور صحابی ابوذر غفاری کے حالات زندگی بھی قلم بند کیے، اپنے دو شہید ساتھیوں صاحبزادہ اسلم اور حافظ عبدالستار کی تحریک آزادی میں جدوجہد اور کردار پر بھی کتاب لکھی اور چھاپی، کاکاجی قیام پاکستان کے بعد جب پشاور واپس آئے تو انھوں نے اپنے انقلابی ساتھی شہید صاحبزادہ اسلم خان کے نام پر مجلہ "اسلم" کا اجراء کیا، اس رسالے پر بھی کاکاجی کے پہلے رسالے "سیلاب " کی طرح حکومت نے پابندی لگا دی۔
کاکاجی خیبر پختونخوا میں ترقی پسند ادب کے بانیوں میں سے تھے، انھوں نے یہاں پر انجمن ترقی پسند مصنفین کے قیام میں بھی حصہ لیا اور 1954میں اس کے صدر کی حیثیت سے گرفتار بھی ہوئے کیونکہ حکومت نے پورے ملک میں انجمن پر پابندی لگا دی تھی، ان کے ساتھ انجمن کے صوبائی سیکریٹری فارغ بخاری کو بھی گرفتار کیا گیا۔ انھوں نے مشہور زمانہ ادبی اور ثقافتی تنظیم " اولسی ادبی جرگہ" کی بنیاد رکھی جس میں امیر حمزہ شنواری اور دوست محمد کامل ایڈووکیٹ صاحب نے بھی ان کا ساتھ دیا، ان تینوں عالموں اور ادیبوں کی سربراہی میں جرگہ نے لکھنے والے ادیبوں کی فکری رہنمائی میں اہم کردار ادا کیا، اس انجمن نے پشتو شاعری اور ادب کو ایک نئی جہت د ی، کاکا جی کی جادوئی شخصیت نے ہر طبقہ فکر اور ہر زبان کے شاعروں اور ادیبوں کو ان کی طرف مائل کیا، ان کے حلقہ ارادت میں نسل، مذہب، ذات، رنگ اور سیاسی نظریے سے بالاتر ہر قسم لوگ شامل تھے۔
سماجی و سیاسی شخصیت کے علاوہ وہ ایک بہترین ادیب اور اصول پسند فرد تھے، ان کے حلقہ ارادت میں بڑے بڑے ادیب اور سیاستدان شامل تھے، اجمل خٹک، قلندر مہمند، فارغ بخاری اور افضل بنگش وغیرہ اکثر اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ انھوں نے کا کا جی سے بہت کچھ سیکھا۔ بابائے غزل امیر حمزہ شنواری نے کاکاجی کے بارے میں لکھا ہے کہ " ان کی خواہش تھی کہ استحصالی اور سامراجی قوتیں شکست کھا جائیں اور ایک ایسا نظام نافذ ہو، جس میں مزدور اور کسان کو بھی انسان سمجھا جائے، وہ نہ کبھی کسی ظالم کے آگے جھکے اور نہ کسی ظالم شخصیت یا نظام سے متاثر ہوئے، وہ زندگی بھر ایک چٹان کی مانند ظلم اور استحصال پر مبنی نظام کے خلاف کھڑے رہے اور کوئی بھی جبر اور زیادتی ان کو اپنے راستے سے ہٹانے میں کامیاب نہ ہو سکی"۔
انقلابی قوم پرست شاعر میر مہدی شاہ باچہ نے ان کے متعلق کہا کہ "وہ ایک عظیم انسان اور پکے انقلابی تھے، ان کے الفاظ میں ہمیشہ محبت اور کشش ہوتی تھی، ان کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی، ان کا لہجہ اور باتیں اتنی دلچسپ ہوتی تھیں کہ انسان چاہتا کہ اسے سنتا رہے"۔ پشتو کے عظیم انقلابی شاعر اجمل خٹک ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ "کاکاجی ایک زندہ انسان تھے اور اس وقت تک زندہ رہیں گے جب تک دنیا قائم رہے گی، کیونکہ ان جیسے لوگ کبھی نہیں مرتے، ایسے لوگ لوگوں کے ذہنوں اور دلوں میں زندہ رہتے ہیں، وہ نہ صرف ایک ادبی شخصیت تھے بلکہ وہ ایک سیاسی شخصیت اور مصلح بھی تھے"۔
قیام پاکستان کے بعد، بیماری اور ضعیف العمری کے باوجود 1956میں پھر گرفتار کر کے لاہور کے شاہی قلعے کے اذیت خانے میں پہنچائے گئے جہاں انھیں دل کی بیماری اور سانس کی تکلیف پیدا ہوئی، اس کے باوجود حکومت ان سے خوف زدہ تھی، اس وقت ان کو رہا کیا گیا جب کہ ان کے بچنے کی امید نہیں تھی، رہائی کے کچھ عرصے کے بعد یہ عظیم انقلابی استاد، سیاست دان، ادیب، شاعر اور دانشور 3 جنوری 1963کو فوت ہوئے اور اپنے گائوں کگہ ولہ میں دفن ہوئے، آج پختون قوم میں مذہبی انتہا پسندی اور دہشتگردی کے خلاف جو مزاحمت پائی جاتی ہے اس میں کاکاجی کی دیے ہوئے سیاسی شعور کا بہت بڑا حصہ ہے، جب تک ظلم پر استوار طبقاتی معاشرہ اور سامراجی نظام موجود ہے کاکا جی کے افکار ہماری رہنمائی کرتے رہیں گے۔ ان سے سماج کے ٹھیکیدار ہمیشہ ڈرتے رہے، بقول احمد ندیم قاسمی صاحب
یہ ارتقاء کا چلن ہے کہ ہر زمانے میں
پرانے لوگ، نئے آدمی سے ڈرتے تھے