ملک مشتاق خان ہمارے گاؤں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور انتہائی محنتی سوشل ورکر ہیں، محکمہ تعلیم میں اعلیٰ عہدوں پر خدمات سرانجام دینے کے بعد کچھ عرصہ قبل ریٹائر ہوئے ہیں، گاؤں کے سماجی اور علاقائی مسائل پر کالم بھی لکھتے ہیں اور افسران بالا سے خط و کتابت بھی جاری رہتی ہے، اسپیکر قومی اسمبلی جناب اسد قیصر کے قریبی رشتہ دار ہیں اور اس حوالے سے تحریک انصاف کے بھی حامی ہیں۔
بجلی کے مسئلے پر ان کو خاص دلچسپی ہے، گرڈ اسٹیشن کا عملہ اور محکمہ بجلی کے افسران ان سے ڈرتے ہیں کیونکہ وہ بے جا لوڈ شیڈنگ یا دوسرے مسائل پر مرکزی وزیر تک بذریعہ فون یا فیکس پہنچ جاتے ہیں، آج کل اپنے جذبات کا اظہار فیس بک پر کرتے رہتے ہیں۔
کیونکہ نئے پاکستان میں کوئی سننے والا نہیں ہے، بجلی کی صورت حال کے بارے میں ان کے چند دلچسپ پوسٹ۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ گندم اور چینی کی کمیابی اور مہنگائی ذخیرہ اندوزوں کی کارستانی، مگر کیا گیس اور بجلی میں بھی ان کا کردار ہے؟ مرغز فیڈر پر معمولی ہوا اور بارش سے بجلی غائب، یونٹ کم اور بل زیادہ، ارے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی؟
بجلی کے صارفین بلوں میں FPA کا رونا رو رہے ہیں، جو بجلی کی قیمتوں اور ٹیکسوں کا دگنا بنتا ہے، مثال کے طور پر میرے نومبر 2019ء کے بل میں خرچ شدہ یونٹس کی قیمت 1122 روپے اور ٹیکسوں سمیت 1469 روپے بن گئے، جب کہ FPA کے 2852 روپے ملا کر کل بل 4321 روپے ہو گیا۔ افسوس ہے کہ حکومت عوام کے معاشی قتل عام میں مصروف ہے اور تمام ادارے خاموشی سے نظارا کر رہے ہیں، ہم نے تو پی ٹی آئی کو اس لیے ووٹ دیے تھے کہ اقتدار میں آ کر عوام کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرے گی"۔ یہ تو پی ٹی آئی کے حامی لیکن سچ بولنے والے ملک مشتاق کے خیالات ہیں۔
حکومت آٹے اور چینی کے بحران سے نمٹنے میں ناکام تو نظر آتی ہی ہے لیکن IMF کے حکم کے مطابق عوام پر بوجھ ڈالنے سے باز بھی نہیں آتی، ویسے تو جب سے یہ حکومت آئی ہے، خاموشی سے ہر ماہ بجلی کی قیمت اور فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کے نام پر بل بڑھائے جا رہے ہیں لیکن اب تو یہ اضافہ ناقابل برداشت ہو گیا ہے۔
پچھلے دو ماہ میں حکومت نے بجلی کے بلوں میں عوام پر فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کے نام پر جو بم گرایا، اس کی وجہ سے یہ چارجز بل کی رقم سے بھی کئی گنا ہو گئے ہیں، یوں بلوں میں کئی گنا اضافہ ہو گیا۔ ہمارے محترم کالم نویس مزمل سہروردی نے بھی اپنے کالم میں اس ظلم کا ذکر کیا ہے، انھوں نے لکھا ہے کہ "اس ضمن میں سنی سنائی بات نہیں کر رہا بلکہ بات اپنے گھر کے بل سے شروع کرتا ہوں، اس ماہ گھر میں شور تھا کہ بجلی کا بل زیادہ آیا ہے، سب اکھٹے ہو کر اس بات کا جائزہ لینے لگے کہ بل کیوں زیادہ آیا ہے؟ ۔
حالانکہ ہر ماہ بجلی کے نرخوں میں اضافہ معمول بن گیا ہے لیکن موجودہ بل بہت زیادہ آیا ہے، میں نے غور کیا تو اس ماہ ہم نے بجلی کے 700 یونٹ استعمال کیے ہیں، اس کا بل 32465 روپے آیا ہے، اس طرح ایک یونٹ مبلغ 46 روپے کا چارج ہوا ہے، بجلی کی قیمت اس بل میں صرف 14076 روپے ہی ہے، یعنی بجلی کی قیمت 20 روپیہ فی یونٹ چارج ہوا ہے، یہ قیمت بھی بہت زیادہ ہے لیکن ظلم اس زیادتی پر ختم نہیں ہوا بلکہ اس کے ساتھ 13434 فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کے نام پر بل میں ڈالے گئے ہیں، اس طرح ایک یونٹ کے 19 روپے سے زیادہ فیول ایڈجسٹمنٹ چارج کیے ہیں، بات یہاں ختم نہیں ہوئی بلکہ اس پر دیگر ٹیکسز اور چارجز کے ضمن میں 4958 روپے ڈالے گئے ہیں، اس طرح یہ چارجز بھی سات روپے فی یونٹ بنتے ہیں، اگر بجلی کی قیمت اس طرح بڑھتی رہی تو گرمیوں میں بھی بجلی کے استعمال سے اجتناب کرنا ہو گا بلکہ ہاتھ کے پنکھے استعمال کرنا ہو ں گے"۔
حالانکہ جب بجلی کے پنکھے بنانے والے یہ شکایت لے کر چوہدری شجاعت کے پاس آئے کہ حکومت نے ان پنکھوں پر بھی ٹیکس لگا دیا ہے جب کہ یہ عام لوگوں کے استعمال کی چیز ہے، اس پر انھوں نے کہا کہ "میں حکومت کو تجویز دونگا کہ وہ ہاتھ کے پنکھوں پر بھی ٹیکس لگا دے، تا کہ مسئلہ ہی ختم ہو جائے"۔ حکومت اس سے قبل گیس کی قیمت میں بھی 300 فی صد اضافے کے بعد دوبارہ اضافے کی سوچ رہی ہے، اس طرح حکومت نے ہر ماہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرنے کی باری لگائی ہوئی ہے، ہر ماہ خبر آ جاتی ہے کہ بجلی کے بلوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز میں اضافے کی تجویز آئی ہے اور یہ تو ہوتا آیا ہے کہ جب تجویز آتی ہے تو فوراً منظور ہو جاتی ہے، یہ حکومت نے بجلی کے نرخوں میں اضافے کا ایک اور چور دروازہ ڈھونڈ لیا ہے، اب تو بجلی مہنگی کرنے کے لیے اسمبلی کا تکلف بھی نہیں ہوتا۔ خیبر پختونخوا کے ساتھ تو انتہائی ظلم یہ ہے کہ ہائیڈل بجلی ایک یا دو روپے یونٹ میں بنتی ہے اور ملک بھر کے تیل اور گیس کے ذریعے پیدا ہونے والی مہنگی بجلی کے ساتھ ملا کر اس کو فیول ایڈجسٹمنٹ کا نام دے دیا گیا ہے، یہ مسئلہ اٹھارویں ترمیم میں بھی حل نہ ہو سکا، حالانکہ یہاں کی بجلی کی کھپت کم اور پیداوار زیادہ ہے، جو کم نرخ پر حکومت لے کر مہنگی بیچتی ہے۔
دوسری طرف واپڈا اور پیسکو اور بجلی کی کمپنیوں کی عیاشیاں بھی جاری ہیں، یہ لطیفہ بہرحال ایک حقیقت نظر آتا ہے کہ آ سمانی حکم کے مطابق واپڈا کے حاضر سروس یا ریٹائرڈ ملازم کے گھر سے چالیس گھر شمال، چالیس گھر جنوب، چالیس گھر مشرق اور چالیس گھر مغرب والے بجلی مفت استعمال کریں گے، کیونکہ ان کو واپڈا ملازم اپنے گھر کی مفت بجلی سے دے گا۔
ایک اخباری خبر کے مطابق۔"بجلی تقسیم کار کمپنیوں کے ملازمین کو گزشتہ مالی سال کے دوران مفت فراہم کی جانے والی بجلی کی تفصیلات سامنے آگئی، مقررہ حد سے زیادہ بجلی استعمال کی گئی ہے، جس کی مالیت ایک ارب 91 کروڑ روپے ہے، جو ملازمین سے وصول کیے گئے ہیں۔ ذرایع کے مطابق گزشتہ ایک سال ایک لاکھ 98 ہزار ملازمین کو 39 کروڑ سے زائد مفت یونٹس فراہم کیے گئے، اس وقت ملک میں 16 ہزار591 افسران اور ایک لاکھ 81 ہزار ملازمین کو مفت بجلی فراہم کی جا رہی ہے، جس کی مالیت 5 ارب 26 کروڑ سے زائد ہے، دستاویز کے مطابق گریڈ 21/22 کے افسر کو ماہانہ 1300 یونٹس مفت بجلی فراہم کی جاتی ہے، جب کہ گریڈ 20 کے افسر کو ماہانہ 1100 یونٹس مفت بجلی فراہم کی جا رہی ہے۔
دستاویز کے مطابق ریٹائرڈ ملازمین اور بیوہ کو 50 فی صد کم نرخ پر بجلی فراہم کی جا رہی ہے، اس کے باوجود مقرر کردہ حد سے زیادہ بجلی استعمال کرنے پر ملازمین اور افسران سے ایک ارب 91 کروڑ روپے وصول کیے گئے"۔ یہ تو واپڈا کی سینیٹ میں دیے گئے اعداد و شمار ہیں، اب مسئلہ یہ ہے کہ آیا بجلی کے محکموں کے ملازمین واقعی مقررہ حد کے اندر بجلی استعمال کرتے ہیں کیونکہ اکثر کے گھروں میں میٹر نہیں ہوتا اور اگر ہوتا ہے بھی تو یقین ہے کہ واپڈا والوں کے میٹر لازمی خراب ہوں گے، تو زائد بجلی کا تعین کون کرے گا؟ ۔
لوڈ شیڈنگ اور بجلی کی صورت حال پر بات کرتے ہوئے واپڈا کے چیئرمین جنرل (ر) مزمل حسین نے کہا کہ " لوڈ شیڈنگ پر بات کرنے سے پہلے اس کا پس منظر جاننا ضروری ہے، میری رائے میں بجلی سے زیادہ پانی کا مسئلہ سنگین ہے، بجلی کی زیادہ سے زیادہ طلب 24000 ہزار میگاواٹ اور پیداوار 19/20 ہزار ہوتی ہے، کسی ایک وقت میں 4 سے 5 ہزار میگاواٹ کی کمی ہوتی ہے لیکن یہ کمی کیسے ہوئی؟ اس کی بنیاد یہ ہے کہ قیام پاکستان کے وقت بدقسمتی سے ہائیڈرو انرجی کو سامنے نہیں رکھا گیا، نہ ہی آبادی کا خیال رکھا گیا، اس دوران ہندوستان نے کشمیر پرقبضے کی بدولت فیروز پور، مادھو پور ڈیموں پر بھی قبضہ کر لیا، بارہ سال بعد سندھ طاس معاہدہ ہوا۔
60 سے 70کی دہائی کے دوران بجلی پانی سے پیدا ہوتی تھی، آبادی بڑھنے کے ساتھ طلب میں اضافہ ہوا، جس سے پیداوار انرجی مکس تھرمل کی سمت چلی گئی، 1976 کے بعد پاکستان میں کوئی بڑا ڈیم نہیں بنایا گیا، اور 90 کے عشرے میں ہم نے IPPs پر انحصار کیا، جن کا دار و مدار تیل پر ہوتا ہے، تیل باہر سے آتا ہے اور بہت مہنگا ہے، اسی لیے ملک آج گردشی قرضوں اور بجلی کے مسائل سے دوچار ہے، آج تک پچھلے 70 سال میں پانی سے صرف 7000 میگاواٹ بجلی پیدا کر رہے ہیں باقی بجلی تھرمل ہے، اس لیے ہماری ترجیح بھاشا اور مہمند ڈیم ہونے چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی سزا خیبر پختونخوا کے عوام کو کیوں دی جا رہی ہے اگر خیبر پختونخوا میں بجلی سستی پیدا ہو رہی ہے تو FPA کے نام پر یہ بجلی مہنگی کیوں دی جا رہی ہے؟ ۔ تحریک انصاف والے اور خاص کر اسپیکر صاحب کا کہنا ہے کہ تاریخ میں پہلی بار پختون بڑے عہدوں پر براجمان ہیں۔ کاش وہ خیبر پختونخوا کے یہ مسائل اقتدار کے ایوانوں میں اٹھاکر حل کرے۔