جمعہ25جون کو پیرس میں FATFکا اجلاس ہوا، اس میں پاکستان کو GREY LISTمیں مزید ایک سال تک رکھنے کا فیصلہ ہوا۔ اس اجلاس نے نہ صرف باہمی نگرانی کے مزید چھ بڑے اقدامات اور 27میں سے ایک نکتے پر پھر سے پاکستان کو باندھ لیا، جو بہت ہی سخت شرط ہے، وہ یہ کہ جن تنظیموں اور افراد کو اقوام متحدہ نے دہشت گرد قرار دیا ہے، ان کے اور ان کے اثاثوں کے خلاف موثر ترین، نتیجہ خیز اور ناقابل تنسیخ تادیبی اقدامات کیے جائیں۔
پاکستان نے ان تنظیموں پر پابندیاں تو لگادیں لیکن ایف اے ٹی ایف نے ان اقدامات کو قابل اعتماد نہیں سمجھا، اب مزید ایک برس پاکستان کو دیا گیا، جوہر ٹاؤن لاہور دھماکے کو ایک وارننگ سمجھنا چاہیے۔ یہ سب ہماری پرانی پالیسیوں کا شاخسانہ ہے، جو قوم کو نہ جانے کب تک بھگتنا پڑے گا۔
المیہ یہ ہے کہ پاکستانFATFکے اجلاس میں سامراجی ممالک سے یہ سوال بھی نہیں پوچھ سکتا کہ "جناب سوشلزم کے خلاف مذہبی جن کو بوتل سے نکالنے کے بعد یہ تنظیمیں آپ کی مدد سے وجود میں آئیں، آپ نے اس وقت ان کے ارکان کو مجاہدین کا خطاب دے کر سوویت یونین سے لڑانے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کر دیے، اب جب آپ کا کام ہوگیا تو ہمیں سزا کیوں دے رہے ہیں؟ FATF میں شامل طاقتور ملکوں ہمارے پالیسی سازوں "ذہانت وفطانت" کا علم ہے۔ اس لیے ان کا رویہ سخت ہے اور پاکستان سوال بھی نہیں کر سکتا۔
چند دن قبل مسجد میں عصر کی نماز کے بعد ایک باریش صاحب کھڑے ہوگئے اور اپنا تعارف ایک کالعدم تنظیم کے کارکن کی حیثیت سے کرایا اور نمازیوں سے چندے کی اپیل کی۔ میں سوچ رہا تھا کہ آج جب پورا پاکستان اس بات پر متفق ہے کہ ملک کو انتہا پسندی اور پراکسی وار کی غلط پالیسیوں سے باہر لانا ضروری ہے، وزیر اعظم بار بار اعلان کر رہے ہیں کہ ہم کسی کے خلاف بھی پاکستان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے تو یہ گراس روٹ لیول پر انتظامیہ کا سخت کنٹرول کیوں نہیں ہے؟
نہیں جناب! اس طرح کام نہیں چلے گا، مسئلے کو بنیاد سے ختم کرنا ہوگا، انتہاپسندی کا خاتمہ دنیا سے زیادہ پاکستان کے مفاد میں ہے، پراکسی یا کرائے کے قاتل کبھی بھی کوئی فتح حاصل نہیں کر سکتے۔ یہ صحیح ہے کہ آج پاکستان جن مسائل اور بحرانوں سے دو چار ہے وہ اس کے اپنے پیدا کردہ نہیں ہیں بلکہ اس کے دوستوں اور دشمنوں نے بھی ان میں اپنا حصہ بقدر جثہ ڈالا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ تزویراتی گہرائی کے حصول اور اپنے ہمسایوں سے حساب برابر کرنے کی حکمت عملی کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔
ان حالات کے پیدا کرنے میں ہمارے دوستوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے، خاص کر امریکیوں کی سربراہی میں سامراجی کیمپ اور ان کے اتحادی عرب ممالک نے سوویت یونین کی شکست و ریخت کو یقینی بنانے کی خاطر خطے میں شدت پسندوں کے گروہ کے گروہ پالے، ان پر مالی وسائل کی بارش کی گئی، جدید جنگی ٹیکنالوجی فراہم کی گئی۔ عرب افغانوں کے نام سے ہمارے قبائلی علاقوں میں بستیاں بسائی گئیں۔ ان کی مقامی لوگوں سے رشتہ داریاں کی گئیں تاکہ یہ لوگ مستقل طور پر یہاں آباد ہوکر سوویت یونین کے خلاف بھرپور جنگ کریں۔
1981میں مصری صدر انور سادات کے قتل کے بعد ہزاروں انتہاپسندوں کو حراست میں لیا گیا اور انھیں سخت اذیتیں دی گئیں، سرکار کے عتاب سے بچنے کی خاطر نوجوانوں کی بڑی تعداد نے افغانستان کا رخ کیا، ایمن الظواہری اور بہت سے ملزموں کو افغان جہاد میں حصہ لینے کے لیے جیلوں سے رہا کیا گیا۔ یہ مجاہدین جب پشاور پہنچ جاتے تو انھیں کچھ دن آرام کے بعد افغانستان کے اندر قائم کیمپوں میں پہنچادیا جاتاجہاں انھیں گوریلا جنگ کے ماہرین حربی تربیت دیتے اس طرح یہ عالمی جہاد بن گیا۔
امریکیوں نے بھی عالمی جہادی نیٹ ورک قائم کرانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ امریکی یونیورسٹیوں نے ایسی کتابیں شایع کیں جن میں بچوں کو کمیونسٹوں کو قتل کرنے کی ترغیب دی جاتی۔ ایک کتاب میں ایک افغان بچہ ایک روسی فوجی کی آنکھیں نکالتے اور ٹانگیں کاٹتے ہوئے دکھایا گیا ہے، طالبان کے دور میں بھی اسکولوں اور مدارس میں ایسی کتابیں پڑھائی جاتی رہی ہیں۔ امریکی ویزہ قونصلر کی خدمات سرانجام دینے والے مائیکل اسپرنگ مین نے ایک امریکی اخبار کو بتایا کہ افغان باشندوں کو بلا روک ٹوک امریکی ویزے جاری کیے جاتے تھے، امریکا میں گوریلا جنگ کی تربیت دے کر انھیں واپس افغانستان روانہ کردیا جاتا۔
سوویت افواج کے افغانستان سے انخلاء کا آغاز ہوا تو امریکی رویے میں سرد مہری آنا شروع ہو گئی، گرم جوشی لا تعلقی میں بدل گئی۔ امریکی اپنا بوریا بستر سمیٹ کر واپس چلے گئے، ہزاروں عرب مجاہدین کے لیے واپسی کے دروازے بند ہو چکے تھے، جنھوں نے واپس گھروں کو لوٹنے کی جسارت کی، انھیں عرب حکومتوں نے نہ صرف حراست میں لیا بلکہ عقوبت خانوں میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔
9/11کے بعد ایک بار پھر میدان سجا، اب کی بار کھیل یوں ہوا کہ یہی سابق مجاہدین تازہ دم کمک کے ساتھ امریکا اور پاکستان کے ساتھ معرکہ آرائی فرمانے لگے، یہ وہ جن ہے جس کو بوتل میں بند کرنے کی ذمے داری صرف پاکستان کی نہیں بلکہ امریکا سمیت عرب ممالک کی بھی ہے، اب ان کے بھرپور تعاون کے بغیر اس عفریت پر قابو پانا ممکن نظر نہیں آتا، شدت پسندی کے مقابلے کے لیے پاکستان کو علاقائی حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی، جس میں تمام ممالک اور ملکی ادارے ایک صفحے پر ہوں۔ اب وقت آگیا ہے کہ پراکسی جنگوں کا فلسفہ ہمیشہ کے لیے دفن کردیا جائے۔ بس بہت ہوچکا؟