خان صاحب کی بے شمار تقریروں میں تین چار باتوں کی بار بار تکرار ہوتی ہے، جن کا تجزیہ کرنا ضروری ہے۔ ٭۔ ریاست مدینہ بنائیں گے٭۔ NROنہیں دوں گا ٭۔ میں کشمیر کا سفیر ہوں ٭۔ دونوں ایٹمی ملک آمنے سامنے ہیں٭۔ میں یوٹرن لیتے لیتے وزیر اعظم بن گیا اور میرے مخالفین جیلوں میں پڑے ہیں۔ سب سے پہلے ریاست مدینہ کا تجزیہ کرتے ہیں۔
مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ ریاست مدینہ دنیا کی بہترین ریاست تھی کیونکہ اس کے سربراہ اللہ تعالی کے آخری نبی حضرت محمدﷺ تھے، جن کے مخالفین بھی ان کو صادق اور امین سمجھتے تھے۔ یہ ریاست رسول اللہ نے مکہ سے ہجرت کے بعدمدینہ میں قائم کی تھی، ہر مسلمان ریاست مدینہ کو سیاسی، معاشی، سماجی اورامن کے لحاظ سے ایک مکمل ریاست سمجھتا ہے لیکن عمران خان واضح طور پر اس ریاست کے خد و خال بیان نہیں کر رہے۔ کیا ایک منصفانہ ریاست ان کے ذہن میں کیا ہے، کیا وہ ملک کی سیاسی اور جوڈیشل نظام کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں، جو عوام کی ضروریات کا خیال رکھ سکے۔
دنیا میں اب بھی ایسی ریاستیں موجود ہیں، جو ریاست مدینہ کی بہت سی خصوصیات کی حامل ہیں، ان ریاستوں کی طرح بننے کے لیے صرف چند اچھے اقدامات کی ضرورت ہے۔ موجودہ حکومت کو تقریباً ایک سال ہو گیا ہے، محاورے کے بقول تو بچے کے پاؤں پالنے میں پہچانے جاتے ہیں لیکن اس حکومت کے ابتدائی دن سے ایسے ہیں کہ ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ یہ کمپنی چلنے والی نہیں ہے، لیکن ان کے پیچھے جو قوتیں ہیں، ان کی خدمت میں کچھ گزارشات پیش کرنا شاید غلط نہ ہوگا:
شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات
ریاست مدینہ کی ماڈرن شکل ایک "ویلفیئر اسٹیٹ" یا فلاحی ریاست ہو سکتی ہے، اس میں عوام کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے، عوام کی جان و مال کا تحفظ، تعلیم، صحت، روزگار، معیشت، حقوق، حصول انصاف اور دوسرے مسائل کے حل کو اولیت حاصل ہوتی ہے، ایسی ریاست میںقومی مفاد کا تعین، عوامی حقوق کی بنیاد پرہوتا ہے۔ کہ عوام کو پینے کا صاف پانی ملے، اگر ہیضہ، ملیریا، ڈینگی یا ٹی بی پھیل رہا ہے، تو اس کی روک تھام کے لیے وسائل مختص کرنا، قومی مفاد کا سب سے بڑا تقاضا ہے، اگر بچوں کو تعلیم کی سہولت میسر نہیں تو انہیں تعلیم دلانا ریاست کا اولین فریضہ ہے، روزگار عوام کا بنیادی حق ہے اگر اس کے مواقعے موجود نہیں تو پھر قومی مفاد خطرے میں ہے، اگر عوام کو جان ومال کا تحفظ حاصل نہیںتو یہ ریاست کے قومی مفاد کے خلاف ہے اور ضروری ہے کہ ساری توجہ اس طرف صرف کی جائے۔
ویلفیئر اسٹیٹ میں ریاست کا دفاع یا اس کی جغرافیائی سلامتی کو نظر انداز نہیں کیا جاتا لیکن ترجیح اور تقدم بہر حال عوام کو حاصل ہوتی ہے، ریاست کے دیگر فرائض میں بڑی جاگیرداریوں کا خاتمہ، ٹیکس کی آمدنی کو عوام پر خرچ کرنا، نظام انصاف کو بہتر اور شفاف بنانا، ہر شعبے میں میرٹ لاگو کرنا، ملک میں یکساں نظام تعلیم نافذ کرنا جو ہنر مند افراد پیدا کرے، ہمسایوں کے ساتھ امن کا قیام، حکومت اور فیصلہ سازی کا حق منتخب نمائندوں کو دینا اور ہر ادارے کو اپنے آئینی دائرے کے اندر کام کرنے پر مائل کرنا، سویلین منتخب افراد کی حکومت نہ کہ اداروں کی۔ اگران اصلاحات پر عمل کیا جاسکے تویہ ایک انقلاب سے کم نہیں ہوگا اور یہی ریاست مدینہ کی ماڈرن شکل ہوسکتی ہے۔
فلاحی ریاست کے مقابلے میں "سیکیورٹی اسٹیٹ" کے تصور میں مرکزیت ریاست کو حاصل ہوتی ہے، اس کا مفہوم یہ ہے کہ ریاست کا دفاع، اس کی حفاظت، اس کے مفادات ہر چیز پر مقدم ہیں، اس تصور میں عوام کی حیثیت ضمنی ہے، اگر ریاست تقاضا کرے تو عوام کو قربان کیا جا سکتا ہے، اگر ریاست کا مفاد تقاضہ کرے کہ اس کے پاس ایٹمی قوت ہو، تو عوام کا پیٹ کاٹ کر یہ قوت حاصل کی جائے، اگر ریاست کے مفاد میں یہ سمجھا جائے کہ ہمسایہ ملک میں کسی"سٹرٹیجک گہرائی" کو تلاش کیا جائے تو خواہ نتائج کچھ بھی ہوں، ایسا کرنا چائیے پھر اس بات کی پرواہ نہیں کی جانی چائیے کہ لوگ ہزاروں کی تعداد میں مرتے ہیںاور خوف کی فضاء میں جیتے ہیں، کیونکہ ریاست کے مفاد کے لیے چند ہزار افراد کا مرجانا زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔
سیکیورٹی اسٹیٹ کے تصور میں یہ کوئی انہونی بات نہیں، بدقسمتی سے قیام پاکستان کے ساتھ ہی حکمرانوں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ، پاکستان ایک سیکیورٹی اسٹیٹ ہوگا، اس کے لیے جواز کشمیر اور ہندوستان کے ساتھ دشمنی کو بنایا گیا، نتیجہ یہ کہ عوام کے مسائل حل ہونے کے لیے وسائل نہیں بچے، ابھی تک برصغیر میں ہتھیاروں اور میزائلوں کی دوڑ جاری ہے، اگر ہندوستان کا میزائل 300کلومیٹر تک مار کرتا ہے تو ہمارے لیے لازم ہے کہ ہم اپنا 400کلومیٹر تک مار کرنے والا میزائل بنا لیں، ورنہ ناک کٹ جائے گی۔
حالانکہ یہ ایٹم بم، اسلحہ اور میزائل امریکہ کو ویت نام میں شکست اورآج افغانستان میں ہزیمت اور سوویت یونین کو انہدام سے نہ بچا سکے۔ آج ضرورت ہے کہ اس ملک کے اہل سیا ست متحد ہوجائیںاور اس بات کا اعلان کریںکہ وہ پاکستان کو اب ایک ویلفیئر اسٹیٹ بنائیں گے، پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کے بعد اب ضروری ہو گیا ہے کہ وسائل کا رخ ریاست کی بجائے عوام کی طرف کیا جائے، کیونکہ اب پاکستان محفوظ ترین ملک بن گیا ہے۔
جنگ عظیم دوم کے خاتمے کے بعد، فاتح اور مفتوح ممالک دونوں تباہی کا شکار تھے، مایوسی کا شکار عوام، ہر طرف تباہ شدہ عمارتوں کے کھنڈرات کو دیکھ رہے تھے، ان ممالک کو دیوانگی کے اس مظاہرے کے بعد، سسٹم کی بحالی کا مرحلہ درپیش تھا۔ جرمنی، جاپان سمیت بہت سے یورپی اور ایشیائی ممالک نے ان کھنڈرات پر اپنی عظیم ترقی کی بنیاد رکھی، اس ترقی کا فارمولہ بڑا سادہ تھا کہ ان ممالک نے جنگی جنون (Warfare) کی پالیسی کو ترک کر کے سماجی بہبود (Welfare) کی پالیسی اختیار کی، قومی تعمیر نو پر توجہ دی، اس کے لیے انھوں نے تجارت اور بہترین سفارت کاری کا استعمال کیا، کفایت شعاری کو سرکاری پالیسی کا حصہ بنایا گیا، غیرترقیاتی اخراجات، میں کمی کرکے وسائل کا رخ، مادی اور انسانی وسائل کی ترقی کے منصوبوں کی طرف موڑا گیا۔
جن سے آمدنی اور ترقی میں اضافہ ہوا۔ برآمدات کو مدد فراہم کی گئی اور سامان تعیش کی درآمد پر زیادہ ٹیکس لگایا گیا، کرپشن اور دیگر خرابیوں کے خلاف سخت ادارے بنائے، ان فلاحی منصوبوں کی وجہ سے آج ہم ان ممالک میں ترقی دیکھ رہے ہیں۔
ہر وقت دنیا کے سامنے ایک تماشہ بنے رہنے کی بجائے ہمیں قومی یکجہتی اور متحد ہونے کا مظاہرہ کرنا چائیے۔ موجودہ کشمیر کی صورت حال میں تو یہ مظاہرہ اور بھی لازمی ہے، پالیسیوں میں تبدیلی کی ضرورت کے ساتھ ساتھ سیاسی ہم آہنگی اور معاشی توانائی کے حصول پر خصوصی توجہ دینی ہو گی۔ قومی اتحاد اور یکجہتی کے بغیر کوئی بھی بڑا قدم نہیں اٹھایا جا سکتا، یہ بحران سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد سب سے بڑا چیلنج ہے، اس وقت اپوزیشن رہنماؤں کا جیل میں ہونا اچھا تاثر نہیں دے رہا، بلکہ داخلی کمزوری میں اضافہ کر رہی ہے، انتقامی سیاست کا یہ وقت نہیں ہے۔ بھٹو صاحب شملہ معاہدہ کرنے کے لیے حزب اختلاف کے آشیر باد سے گئے تھے، کیا ہی اچھا ہو کہ عمران خان بھی جنرل اسمبلی جائیں تو حزب اختلاف ان کو رخصت کرے، اس سے ان کی آواز میں وزن پیدا ہو جائے گا، سیاسی صورت حال بہتر ہونے سے معاشی صورت حال بھی بہتر ہوگی۔
اب تک مہنگائی کا کوئی توڑ سامنے نہیں آیا، معیشت کی بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی، نوکر شاہی کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیںآئی، لوگوں کے مسائل بڑھ رہے ہیںاور حل کرنے والا کوئی نہیں ہے، کامیاب اصول حکمرانی کا ثبوت معاشی خوشحالی ہوتا ہے اگر عوام معاشی طور پر خوشحال ہوں تو حکمران کامیاب ہے۔ عمران خان کی حکومت کا ہنی مون پیریڈ ختم ہو چکااب ان کا کچھ دکھانے کا وقت ہے، پہلے ان کی غلطیوں پر شخصی مقبولیت کی وجہ سے پردہ پڑ جاتا تھامگر اب ان کی غلطیوں سے دھواں اٹھے گا، اگر معاشی اور انتظامی مسائل ٹھیک نہیں ہوئے تو پھر ان کے زوال کا سفر شروع ہوگا، ایسے میں پھر دوست بھی ساتھ چھوڑ دیتے ہیں، اس لیے سب کچھ چھوڑ کر گڈ گورننس پر توجہ دی جائے۔