Monday, 18 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Imran Khan Ka Bayaniya

Imran Khan Ka Bayaniya

جب سے ہمارے خان صاحب حکومت میں آئے ہیں، انھوں نے شاید صرف تقریریں ہی کی ہیں، ان میں کوئی نئی بات تو نہیں ہوتی لیکن تین چار باتوں کی بار بار تکرار ہوتی ہے، آج ذرا ان تقریروں کا تجزیہ کرتے ہیں۔

٭۔ ریاست مدینہ بنائیں گے۔ اس پر سابقہ کالم میں تفصیلی بحث ہو چکی ہے، جس میں کہا تھا کہ اگر ملک کو سیکیورٹی ریاست کے بجائے ایک فلاحی ریاست بنایا جائے، ہمسایوں کے ساتھ پرامن تعلقات بنائے جائیں اور عوامی فلاح و بہبود کو اولیت دی جائے تو مدنی ریاست ہوگی۔

٭۔ NROنہیں دوںگا!۔ افواہیں گرم ہیں کہ نواز شریف اور حقیقی حکمرانوں میں کچھ کچھ ہو رہا ہے، شاید خان صاحب ان کو سنا رہے ہیں کیونکہ ہر دوسرے دن وہ یہ بات تسلسل سے کر رہے ہیں۔ احتساب کا پول تو چیف جسٹس صاحب نے عدالتی سال کے موقعہ پر اپنے خطاب میں کھول دیا، احتساب کے نام پر عوام اور مخالفین کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے، اس کو سیاسی انجینئرنگ کا نام دیا، ان کا کہنا تھا کہ "یک طرفہ اور مبنی بر انتقام احتساب کے بارے میں عام تاثر ہی سیاسی انجینئرنگ کا ہے، یہ تاثر نظام عدل اور ریاستی اداروں کی غیرجانبداری کے لیے زہر قاتل ہے، اس تاثر کو ختم کرنا اور اسے قانون اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنا ہو گا، ورنہ احتساب کا عمل ہمیشہ کے لیے اپنی اہمیت کھو دے گا"۔ عجیب احتساب ہے کہ صرف حزب اختلاف کے خلاف ہو رہا ہے۔

٭۔ خان صاحب کہتے ہیں کہ میں کشمیر کا سفیر ہوں۔ ہمارا حال تو یہ ہے کہ کسی بھی ملک اور خاص کر کسی اسلامی ملک نے کشمیر پر پاکستان کے موقف کی تائید نہیں کی، اگر کسی نے کچھ کہا تو صرف کشمیر میں پابندیوں اور انسانی حقوق کی بات کی۔ پارلیمنٹ سے صدارتی خطاب کے دوران، حزب اختلاف کے اسیر ممبران کو نہ لاکر جس سیاسی عدم برداشت کا مظاہرہ کیا گیا، اس سے دنیا کو کشمیریوں کے بارے میں ہماری سنجیدگی کا پیغام مل گیا، عمران خان کی طرف سے حزب اختلاف سے نفرت کا جو اظہار کیا جا رہا ہے، اس کی توقع تو فلموں میں ولن، مصطفی قریشی اور امریش پوری سے بھی نہیں کی جا سکتی۔

کشمیر پر اس سے بھی بدترین مظاہرہ مظفر آباد میں وزیر اعظم کے جلسہ کے دوران نظر آیا، ایسا نظر آتا تھا کہ جیسے کسی خوشی کے تہوار کا جلسہ ہے، ایک مستی اور شادمانی کا سماں تھا، جہاں تک کشمیر پر صدر ٹرمپ کی ثالثی کا سوال ہے تو فرانس میں امریکی صدر اور مودی کی ملاقات نے ثالثی کا بھانڈہ پھو ڑ دیا، مودی نے کورا جواب دے دیا کہ ہمیں کسی ثالثی کی ضرورت نہیں۔ اس کے باوجود صدر ٹرمپ ہیوسٹن میں مودی کے جلوس میں شرکت کریں گے۔

٭۔ "ایٹمی جنگ ہوئی تو دونوں ملک صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے"۔ یہ بھی خان صاحب کا محبوب نعرہ ہے۔ دنیا نے 1945 میں ناگاساکی اور ہیروشیما میں ایٹم بموں کی تباہی دیکھی ہے، اب کوئی بھی آیندہ اس کو استعمال کرنے کی جرات نہیں کرے گا، اس ہتھیار کو صرف Deterrent کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے تاکہ دوسرا ملک حملہ نہ کرے۔

امریکا اور روس دونوں دنیا کے جوہری ہتھیاروں کے 80 فی صد سے زیادہ کے مالک ہیں۔ ویتنام میں امریکا اور افغانستان میں روسیوں کو بدترین شکست کا سامنا تھا، کیوبا میں میزائلوں کے بحران میں دونوں ملک آمنے سامنے تھے، پاکستان اور ہندوستان کارگل اور دوسری جنگوں میں خطرناک حد تک چلے گئے تھے لیکن کسی نے ایٹمی اسلحے کے استعمال کا نہیں سوچا، یہ اتنا تباہ کن ہے کہ یہ استعمال بھی نہیں ہو گا اور نہ عالمی برادری یہ کرنے دے گی۔

شیخ رشید اپنی ریلوے کے نظام کو تو ٹھیک نہیں کر سکے لیکن جہاد کی باتیں کر رہے ہیں، یہ صاحب پاؤ اور آدھ پاؤ کے ایٹم بموں سے لے کر مظفر آباد میں بھارت کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی غیر ذمے دارانہ اور اشتعال انگیز بڑھکیں مارکر دنیا کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟۔ دنیا تو پہلے سے پاکستانی ایٹمی اسلحے کے دہشتگردوں کے ہاتھ لگنے کی اندیشوں کی وجہ سے پریشان ہے، اب ان ایٹمی دھمکیوں کے بعد کشمیر تو نہیں ملے گا لیکن امکانات ہیں کہ دنیا کہیں پاکستان کی ایٹمی پروگرام کے پیچھے نہ پڑ جائے۔ ٭۔ میں یوٹرن لیتے لیتے وزیر اعظم بن گیا۔

میرے مخالفین جیلوں میں پڑے ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ نیب آزاد ادارہ اور حکومت کا کوئی واسطہ نہیں اور کبھی سارا کریڈٹ خود لیتے ہیں۔ معاشی صورت حال بھی خراب ہے، وزارت خزانہ کی رپورٹ کے مطابق 10 بڑے ادارے بھاری خسارے میں ہیں، جن میں ریلوے، پی آئی اے، سٹیل مل وغیرہ شامل ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان ہر معاملے کا نوٹس لیتے ہیں مثلاًخیبر پختونخوا میں پولیو وائرس پھیل جانے کا نوٹس لیا، روٹی اور نان کی قیمت بڑھنے کا نوٹس لیا، زرتاج گل کی بہن کو سفارش پر نوکری دیے جانے کا نوٹس لیا، روپے کی قدر میں کمی کا نوٹس لیا، ہائی وے چیک پوسٹوں پر بھتہ لیے جانے کا نوٹس لیا، فواد چوہدری کی ایک صحافی کو مارنے کا نوٹس لیا، گیس اور بجلی کے بلوں میں اوور بلنگ کا نوٹس لیا، میانوالی میں پانی کی قلت کا نوٹس لیا، ٹرانسپورٹروں کو ہراساں کرنے کا نوٹس لیا، پتوکی میں تہرے قتل کی واردات کا نوٹس لیا۔

انھوں نے آخری نوٹس اس وقت لیا جب صدر عارف علوی نے بڑے صنعت کاروں کو 300 ارب روپے معاف کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ اب تو شاید ان کے پاس نیا نوٹس لینے کی گنجائش نہیں ہے لیکن ایک بات ضروری ہے کہ وہ ایک نوٹس اس بات کا لیں کہ انھوں نے اب تک کتنے نوٹس لیے ہیں اور ان تمام نوٹسوں کا کیا ہو؟۔ تحریک انصاف کے انتخابی منشور میں لکھا ہے کہ "ہر آنے والی حکومت نے پولیس اصلاحات کو نظر انداز کیا ہے تاکہ پولیس فورس کو سیاسی آلہ کار کے طور استعمال کر سکے"۔ یہ حکمران جماعت کے لیے مضحکہ خیز اور ہزیمت آمیز بن چکی ہے، کیونکہ اصلاحات کے بجائے پولیس مزید بگڑ گئی ہے۔

ملک پر عمران کا بیانیہ پچھلے کئی سال سے چھایا ہوا تھا، جس کے مطابق "پاکستان میں غربت، مہنگائی، بیروزگاری، پسماندگی، ٹیکس چوری، قوم کے سروں پر قرضوں کا بوجھ، خارجہ پالیسی کی ناکامی اور جرائم میں اضافے، جیسے مسائل کی بنیادی وجہ کرپشن ہے اورکرپشن کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قوم کا لیڈر کرپٹ ہے اگر لیڈر صادق اور امین ہو گا تو اس کے نیچے کرپشن غائب ہو جائے گی۔

کرپشن ختم ہوتے ہی ملک میں بیروزگاری کا مسئلہ حل ہو جائے گا، معیشت سدھر جائے گی، مہنگائی ختم ہو جائے گی، حکومت کو اندرونی اور بیرونی قرضے لینے کی ضرورت نہیں رہے گی کیونکہ ٹیکس دہندگان شوق سے ٹیکس ادا کریں گے، جس سے حکومت کا خزانہ بھر جائے گا۔ چونکہ حکومت ایک "صادق اور امین"کے ہاتھوں میں ہو گی تو دنیا میں ملک کی عزت ہو گی۔

کرپشن اور منی لانڈرنگ کے خاتمے کے ساتھ ہی سرمایہ دار اور صنعت کار اپنی تجوریوں کے منہ کھول کر مارکیٹ میں سرمایہ کاری کریں گے، باہر سے سے بھی غیر ملکی سرمایہ کاروں کی قطار لگی ہو گی جو نئے پاکستان میں صنعتیں اور کارخانے لگانے کے لیے بیتاب ہوں گے۔ اس نئے دور کے ساتھ ہی روزمرہ استعمال اور اشیائے خور و نوش کی قیمتیں دھڑام سے نیچے آ جائیں گی اور کوئی بیروزگار نہیں رہے گا اور ہر کسی کے سر پر چھت ہو گی کیونکہ نئے پاکستان میں ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر دیے جائیں گے، بیرون ملک محنت کرنے والے لاکھوں پاکستانی اربوں ڈالر ملک میں بھیجیں گے۔ وائے ناکامی کہ ان میں کوئی بھی وعدہ اور ارادہ پورا نہیں ہوا اور معیشت بہتری کے بجائے ابتری کی طرف جا رہی ہے۔

ہر وقت دنیا کے سامنے ایک تماشہ بنے رہنے کے بجائے ہمیں قومی یک جہتی اور متحد ہونے کا مظاہرہ کرنا چائیے، موجودہ کشمیر کی صورت حال میں تو یہ مظاہرہ اور بھی لازمی ہے، پالیسیوں میں تبدیلی کی ضرورت کے ساتھ ساتھ سیاسی ہم آہنگی اور معاشی توانائی کے حصول پر خصوصی توجہ دینی ہو گی، قومی اتحاد اور یکجہتی کے بغیر کوئی بھی بڑا قدم نہیں اٹھایا جا سکتا۔

یہ بحران سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے، اس وقت اپوزیشن رہنماؤں کا جیل میں ہونا اچھا تاثر نہیں دے رہا، انتقامی سیاست کا یہ وقت نہیں ہے۔ بھٹو صاحب شملہ معاہدہ کرنے کے لیے حزب اختلاف کے آشیر باد سے گئے تھے، کیا ہی اچھا ہو کہ عمران خان بھی جنرل اسمبلی جائیں تو حزب اختلاف ان کو رخصت کرے، اس سے ان کی آواز میں وزن پیدا ہو جائے گا، سیاسی صورت حال بہتر ہونے سے معاشی صورت حال بھی بہتر ہوگی۔ ورنہ کوئی بھی ان پر اعتماد نہیں کرے گا اور نہ ہی ان کی باتوں کو اہمیت دے گا۔