70کی دہائی میں فلسطین کا مسئلہ بہت تیز تھا، میں پاکستان اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا صوبائی جنرل سیکریٹری تھااور کسی مسئلے پر ہم نے فلسطین کے حق میں جلوس نکالا تھا، ہم سے الگ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے بھی جلوس نکالا تھا، ہم دونوں جلوس آگے پیچھے چل رہے تھے۔
ورکرز پارٹی کے موجودہ صوبائی صدر کامریڈ حیدر زمان کی آواز بہت تیز تھی اس لیے نعرے لگانے کی ڈیوٹی ان کی تھی، پاکستان اسٹوڈنٹس فیڈریشن زیادہ انقلابی تنظیم تھی، اس لیے حیدر زمان نعرہ لگاتے کہ "جارج حباش یا حبیب"۔ ہم لڑکے جواب دیتے "فتح فتح تل ابیب"۔ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے لڑکے نعرے لگا رہے تھے کہ" یاسر، یاسر یا حبیب۔ فتح فتح تل ابیب"۔
مسئلہ بھی اس لیے تیز تھا کہ اس زمانے میں فلسطین کے تمام شہری بلا تفریق مذہب ایک ہی مقصد یعنی، ایک جمہوری اور روشن فکر فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے لڑرہے تھے، فلسطین کی آزادی کی جدوجہد میں ہر مذہب کی مختلف تنظیمیں بر سر پیکار تھیں۔
ان میں یاسر عرفات کی FATAHاور جارج حباش کی PFLPسب سے اہم تھیں، FATAHکی قیادت زیادہ تر مسلمانوں پر مشتمل تھی، PFPL(پاپولر فرنٹ فار لبریشن آف فلسطین)کی قیادت اور اس کے ممبران میں عیسائیوں کی اکثریت تھی، جارج حباش اور لیلی خالد باوجود یہ کہ عیسائی تھے لیکن ان کی فلسطین کی آزادی کے لیے کارنامے تاریخی حیثیت رکھتے ہیں، ان کے علاوہ دیگر تنظیمیں بھی تھیں، جن میں الصاعقہ اور DFLP (ڈیمو کریٹک فرنٹ فار لبریشن آف فلسطین)یہ تمام تنظیمیں 1964میں متحد ہوکر PLO(تنظیم برائے آزادی فلسطین)بن گئیں اور فتح کے یاسرعرفات اس تنظیم کے سربراہ بن گئے، یہ تمام فلسطینی اس جنگ کو قومی آزادی کی بنیاد پر لڑ رہے تھے۔ اسلامی انتہا پسند تنظیم حماس کے قیام کے بعد فلسطینیوں کے درمیان اتفاق ختم ہو گیا، فلسطینی اسرائیل کے بجائے آپس میں زیادہ لڑ رہے ہیں۔
فتح اصل میں PLOکی باقیات ہے اور ایک جمہوری اور سیکولر تحریک ہے، یاسر عرفات کی موت کے بعد اس کی قیادت محمود عباس کر رہے ہیں، یہ فلسطین کے صدر بھی ہیں، حماس ایک انتہا پسند اسلامی تحریک ہے، یہ اپنے آپ کو اسلامی مزاحمتی تحریک کہتی ہے۔ بعض مبصرین کی رائے میں اپنے قیام کے ابتدائی دور میں حماس کی سعودی عرب مالی مدد کرتا رہا ہے، یہ الزام سچ نہ بھی ہو تو بھی حماس اور فتح کی لڑائی کا سب سے زیادہ فائدہ اسرائیل اور اس کے آقا امریکا کو پہنچا ہے اور دشمن نے اس کا پورا فائدہ اٹھایا۔
2006 میں رملہ میں فتح اور حماس کے درمیان لڑائی میں بہت سے فلسطینی مارے گئے، 2007میں غزہ کی لڑائی میں دونوں طرف سے 118فلسطینی مارے گئے، صدر محمود عباس نے ہنگامی حالات کا اعلان کیا اور حماس کے وزیر اعظم اسماعیل ہانیہ کی حکومت کو برطرف کردیا، 2008میں غزہ کی پٹی میں ان دونوں گروپوں کے درمیان لڑائی میں مزید فلسطینی مارے گئے، 2009 میں حماس اور فتح کے درمیان قل قیلے کے علاقے میں سخت جھڑپیں ہوئیں، گزشتہ چند برسوں کے دوران اسرائیلیوں کے بجائے فلسطینی اپنوں کے ہاتھوں زیادہ مارے گئے ہیں۔
ایک رائے کے مطابق صدر جمال ناصر کے زمانے میں PLO کو عرب شیوخ اور بادشاہتوں کے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کیا جاتا تھا، عرب ممالک کی حکومتوں کو وہ دور یاد ہے اور یہ نہیں چاہتیں کہ فلسطینی دوبارہ متحد ہوکر ان کے لیے خطرہ بنیں۔ غزہ میں حماس کے خلاف اسرائیلی ناکہ بندی کی فتح بھی خاموش حمایت کرتی ہے، مصر اس کی حمایت کرتا ہے، اردن بھی سکون کا سانس لے رہاہے اور شام بھی غزہ کے خلاف کارروائی پرلاتعلق رہتا ہے۔
اسلامی ملکوں کا حال بھی ٹھیک نہیں، اسلامی ممالک کی تنظیم (OIC)کے ممبروں کی تعداد 57ہے، ان میں البانیہ، آذر بائی جان، بینن، برکینا فاسو، کیمرون، کومورو، کوڈ ڈی آور، مصر، گیبون، گمبیا، گیانا، اردن، قازقستان، مراکش، موزمبیق، نائیجر، نائیجیریا، قطر، سنیگال، سیری لون، اومان، سری نام، تاجکستان، ٹوگو، تیونس، ترکی، متحدہ عرب امارات، بحرین، ترکمانستان، یوگنڈا اور ازبکستان کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہیں۔ ایران اور عراق کی جنگ میں تقریباً20 لاکھ مسلمان ایک دوسرے کے ہاتھوں مارے گئے۔
سوڈان میں 30لاکھ مسلمان خانہ جنگی میں ایک دوسرے کے ہاتھوں مارے گئے، دارفر کے موجودہ عرب اور مقامی مسلمانوں کی لڑائی میں 3لاکھ سے زیادہ مسلمان مارے گئے، عراق نے کویت پر حملہ کیا اور شام نے لبنان پر حملہ کیا، پاکستان میں دہشت گردی کے ہاتھوں لاکھوں مسلمان اپنے مسلم بھائیوں کے ہاتھوں مارے گئے، افغانستان میں اب بھی قتل عام جاری ہے، ان حالات میں مسلمان غزہ کے فلسطینیوں کے لیے سوائے جلوس نکالنے کے اور کیا کرسکتے ہیں اور وہ بھی صرف پاکستان میں۔
کشمیر کا مسئلہ پاکستان کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے لیکن پاکستان آج تک OICیا کسی دوسری اسلامی یا عالمی تنظیم سے اس مسئلے پر قرارداد منظور نہ کرا سکے اور فلسطین کے مسئلے پر قرار دادوں اور اسرائیل کی شکست میں کامیا ب ہو گیا؟ شاید پوری دنیا میں فلسطین کے حق میں جو جلوس نکلے تھے ان کو بھی پاکستان نے منظم کیا تھا؟
ہماری چند رہنماء اس طرح کے مواقعے پر اپنی سیاست چمکانا نہیں بھولتے۔ ایک افسوس ناک بات یہ ہے کہ فلسطین کی تحریک آزادی جو پہلے قومی بنیادوں پر ہر مذہب کے فلسطینی باشندوں پر مشتمل تھی جس کا ذکر ہو چکا ہے، اب ان سب کو نکال کر صرف مسلمانوں کی تحریک بنادیا گیا ہے اوراب صورت حال یہ ہے کہ خود فلسطین کے مسلمان دو گروہوں میں تقسیم ہیں، فلسطین لبریشن آرگنائزیشن، الفتح (PLO)اور حماس کے حامیوں میں تحریک تقسیم ہو گئی ہے۔