Monday, 18 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Jamaat Islami Ka Kirdar

Jamaat Islami Ka Kirdar

جماعت اسلامی اس ملک کی اہم سیاسی پارٹی ہے، موجودہ صورت حال میں اس کے کردار پر کافی بحث ہو رہی ہے، 8دسمبر2020کو PDMکے سربراہی اجلاس کے بعد، اتحاد کے سربراہ مولانا فضل رحمان نے اتحاد کے آیندہ لائحہ عمل کا تفصیلی اعلان کیا، اس میں جلسوں، اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اور استعفوں سمیت حکومت مخالف تحریک کی بہت سی تفصیلات شامل تھیں۔

اس تحریک کے اہداف بڑے واضح ہیں، یعنی نا اہل حکومت سے چھٹکارا اور فری اور فیئر الیکشن، انھی دنوں PDMکے بعض قائدین نے اتحادوں کی پرانی حلیف جماعت اسلامی کو اپنی تحریک میں شامل ہونے کی ایک بار پھر دعوت دی، لیکن جماعت نے انکار کردیا اور کہا کہ ہم اکیلے ہی حکومت کے خلاف تحریک چلائیں گے، حالانکہ کمزور اور طاقتور کے درمیان لڑائی میں غیر جانبدار رہنا بذات خود طاقتور کی حمایت ہوتی ہے، حزب اختلاف اور حکومت کے درمیان لڑائی میں حکومت ہی طاقتور فریق ہے۔ آج کل PDMکی صورت حال کے باوجود جماعت کا کردار اہم ہے۔

حکومت پر جو تنقید عام طور پر PDMکے رہنماء کرتے ہیں تقریباً وہی تنقید جماعت اسلامی کے امیر محترم سراج الحق بھی کرتے ہیں، بلکہ بعض اوقات جماعت کی تنقید تیز محسوس ہوتی ہے، فرق یہ ہے کہ PDMحکومت سے نجات کا باقاعدہ روڈ میپ دے رہی تھی لیکن جماعت کے پاس سوائے جلسوں کے اور کوئی پروگرام نہیں ہے۔

دوسرے PDMملک کے عوام کی اکثریت کی نمایندگی کرتی ہے، جب کہ جماعت صرف اپنے ارکان کی نمایندگی کرتی ہے۔ جب سراج الحق صاحب سے پوچھا جاتا ہے کہ PDMکے اتحاد میں شمولیت کیوں نہیں کرتے تو جواب ہوتا ہے کہ، PDMمحض چہروں کی تبدیلی جب کہ ہم نظام کی تبدیلی چاہتے ہیں، جماعت اسلامی کے ہمدردوں کی طرف سے ایک سوال یہ بھی آتا ہے کہ اگر جماعت حکومت نہیں گرانا چاہتی اور مڈٹرم انتخابات کا انعقاد بھی نہیں چاہتی تو پھر جلسے کیوں کر رہی ہے۔؟ آخر نظام بدلنے کا کیا مطلب ہے، کیا 1973کے آئین کو ختم کرکے کوئی اور نظام لانا ہوگا؟

محترم مولانا مودودیؒ اسلامی نظام کے لیے جمہوریت کو لازمی سمجھتے تھے، 1960کی دہائی سے لے کر 1979میں اپنے انتقال سے پہلے تک بانی جماعت نے بحالی جمہوریت کے لیے جن اتحادوں میں شمولیت کی ان میں لبرل، سوشلسٹ اور قوم پرست سبھی شامل تھے۔ جس طرح 1969کی تحریک کا مقصد ایوب خان کی آمریت سے نجات اور بالغ رائے دہی اور پارلیمانی نظام کی بحالی تھا، اسی طرح 1977کی تحریک کا مقصد بھٹو کی انتخابی دھاندلی کے خلاف احتجاج اور نئے انتخابات کا انعقاد تھا۔

ان اتحادوں میں مولانا مفتی محمود، نوابزادہ نصراللہ خان، میاں طفیل، پروفیسر غفور، بیگم نسیم ولی خان اور کئی قوم پرست رہنماء شامل تھے، بحالی جمہوریت کی اکثر تحریکوں میں جماعت کی شمولیت کسی نظام کی تبدیلی کے لیے نہیں جمہوریت کی حفاظت اور صاف، شفاف انتخابات کے لیے تھی، بلکہ 1977کی تحریک کی کامیابی کے بعد سب پارٹیاں الگ ہو گئیں اور صرف جماعت ہی جنرل ضیاء حکومت کا حصہ بنی۔

جماعت کے ہمدردوں کو اس وقت مایوسی ہوتی ہے، جب اتنی جمہوریت پسند، دیانتدار اور غیر وراثتی جمہوری اور اسلامی پارٹی کو عوامی پذیرائی اور انتخابی کامیابی نہیں ملتی، جماعت کو اپنی اندرونی جمہوریت اور ڈسپلن کے باوجود ناکامیوں کا تجزیہ کرنا چاہیے اور اس کا کوئی حقیقت پسندانہ جواب تلاش کرنا چاہیے، صرف اس بات پر عوام مطمئن نہیں ہیں کہ جماعت میں وراثت کے بجائے جمہوریت ہے، کبھی جماعت کا ووٹ بینک چھ سات فی صد تھا اب وہ ایک فی صد سے بھی کم ہے، یہ کیوں ہوا ہے، ایک وجہ تو جماعت کا عام آدمی کے مسائل کے بجائے دیگر مسائل میں دلچسپی ہوتی ہے۔

حیرانی کی بات ہے کہ جماعت اسلامی اور سراج الحق صاحب نے بھی 2018کے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیا تھا، جماعت اس حکومت کو نااہل، آمریت پسنداور یو ٹرن ماسٹر کہتی ہے، اس حکومت کوکشمیر کا سودا کرنے کا ذمے دار بھی قرار دیتی ہے، اس پس منظر میں جماعت کے ہمدرد یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جماعت اپنی قوت کو صاف شفاف انتخابات کے انعقاد کی کل جماعتی تحریک کے پلڑے میں کیوں شامل نہیں کر رہی۔ اگر جماعت کو فری اینڈ فیئر الیکشن میں کامیابی ملتی ہے تو وہ یقینا اپنے منشور پر عمل کر سکتی ہے۔

دوسرا طریقہ انقلاب کا ہے جو جماعت کے منشور میں شامل نہیں اور نہ ہی عملاً ایسا ممکن ہے۔ اگر اسلامی نظام کے قیام کا ذریعہ اور راستہ صاف شفاف جمہوری انتخاب کے علاوہ کوئی اور نہیں تو پھر اس جمہوری راستے کو محفوظ بنانے کے لیے متحدہ قوتوں کا ساتھ کیوں نہ دیا جائے اگر جماعت کا موقف تسلیم کیا جائے کہ وہ اپنے جھنڈے تلے اور اپنے انتخابی نشان پر انتخاب لڑتی ہے تو اس تنہا پرواز سے وہ کتنی نشستیں حاصل کرلے گی؟ پھر بھی اگر تحریک کامیاب ہوتی ہے اور صاف شفاف انتخابات کا موقع ملتا ہے تو کس نے جماعت کو روکا ہے کہ وہ اپنے نشان اور نام پر انتخاب میں حصہ نہیں لے سکتی، وہ تحریک کی کامیابی کے بعد الگ الیکشن میں حصہ لے۔

22مارچ کو بلاول صاحب نے منصورہ میں جماعت اسلامی کے رہنماؤں سے ملاقات کی اور گیلانی صاحب کو قائد حزب اختلاف بنانے کے لیے ووٹ اور مدد مانگی۔ اخباری اطلاعات کے مطابق، اس موقعہ پر محترم سراج الحق نے بلاول بھٹو کو کہا کہ کوشش کریں کہ PDMمتحد رہے تاکہ حکومت پر دباؤ بر قرار رہے، پھر اچانک جماعت کے ممبر سینیٹ مشتاق احمد خان نے گیلانی کی تجویز کنندہ کے طور پر دستخط کیے اور ان کو لیڈر آف اپوزیشن کا ووٹ بھی دیا، جماعت کا PDM کے بارے میں بہت سخت موقف رہا ہے بلکہ وہ حزب اختلاف کی تمام پارٹیوں اور لیڈ روں کو کرپٹ سمجھتی رہی ہے تو گیلانی صاحب کو ووٹ ڈالناکیسے درست قرار دیا جاسکتا ہے۔

یہ بہانہ کہ جمہوریت کے تسلسل کے لیے ووٹ دیا تھا تو یہ کیسے معلوم ہوا کہ جمہوریت کا تسلسل گیلانی صاحب کے قائد حزب اختلاف بننے سے مشروط ہے؟ ایک اور امر سارے معاملے کو مشکوک بناتا ہے کہ اچانک باپ(BAP) کے ممبر بھی حزب اختلاف میں شامل ہوگئے اور جماعت نے بھی اسی طرف ووٹ دیا، اس سارے معاملے میں دال میں کچھ کالا لگتا ہے، اس وجہ سے جماعت پر تنقید ہوئی تو 28مارچ کو جماعت کی طرف سے اخبارات میں بیان آیا کہ " جماعت اسلامی نے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے عہدہ پر پیپلز پارٹی کی حمایت جمہوریت کے تسلسل اور اکثریتی ارکان کے نمایندہ کے حق میں فیصلہ کیا، جس پر تنقید کوئی معنی نہیں رکھتی، ہم نے کوشش کی کہ حرب اختلاف متفقہ امیدوار لائے لیکن جب ناکام ہوئے تو مجبورً اکثریت اراکین کے ساتھ گیلانی کو ووٹ دیا۔ جماعت نے ایک اہم بات کی ہے کہ "ہم اس ملک اورنظام میں رہتے ہوئے سیاست کر رہے ہیں، اس لیے دنیا سے کٹ کر نہیں رہ سکتے"۔ جناب یہی بات پوری قوم اور جمہوری حلقے کہہ رہے ہیں کہ اکیلے پرواز سے صرف توانائی ضایع ہوگی۔

امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق نے کہا ہے کہ عوام PTIاور PDMکو جتنا جلدی ایک سمجھ لیں اتنا ہی اچھا ہوگا، یہ عجیب امر ہے کہ حکومت میں تحریک انصاف ہے لیکنPDM کے قیام کے بعد جماعت کے امیر کا رویہ اور بیانات حکومت کے خلاف کم اور حزب اختلاف کے خلاف زیادہ ہوتے ہیں، انھوں نے سب سے زیادہ پاناما کی کرپشن پر زور دیا تھا، پاناما میں بہت سے پاکستانی سرمایہ داروں کا نام تھا، نواز شریف کی نا اہلی کے فیصلے کے بعد وہ باقی سیکڑوں سرمایہ داروں کے خلاف خاموش ہوگئے، شاید ان کا مقصد بھی صرف نواز شریف کو راستے سے ہٹانا تھا، اس طرح وہ بھی دانستہ یا غیر دانستہ طور پر غیر جمہوری قوتوں کے لیے سازگار حالات پیدا کر گئے۔

اکیلے پرواز اور نظام بدلنے کی باتوں یا "ہمارے سوا سب کرپٹ ہیں " کے نعروں سے کوئی انقلاب نہیں آتا، یہ کیا بات ہوئی کہ ایک دن جن سیاسی پارٹیوں کو کرپٹ کہاجائے اور دوسرے دن ان کو ووٹ بھی دیا جائے، اس سے تو اچھا ہے کہ جماعت اسلامی، حزب اختلاف کی پارٹیوں کا ساتھ دے، شاید کوئی کامیاب تحریک شروع کی جا سکے۔ عام تاثر یہ ہے کہ اگر جماعتPDM کا حصہ ہوتی توشاید موجودہ صورت حال پیش نہ آتی۔