جمعرات 18مارچ کو اسلام آباد میں سیکیورٹی ڈائیلاگ کانفرنس میں چیف آف آرمی اسٹاف نے "دو اہم باتیں کی ہیں "ایک اپنے گھر کو درست کرنے کی" اور دوسری ہندوستان کے متعلق انھوں نے کہا ہے کہ "ہمیں ماضی کو دفن کرکے آگے بڑھنا چاہیے"۔
دہشت گردی نے ملک کو جو نقصان پہنچایا، وہ اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ آج پاکستان ایٹمی قوت ہے لیکن معاشی حالات یہ ہے کہ ہم نے اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے کاسہ گدائی اٹھا رکھا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کو ایک فلاحی ریاست بنایا جائے تاکہ معاشی پالیسیوں کا رخ عوام کی طرف ہوجائے، سوشل سیکٹر نظر انداز کرنے کی پالیسی اب تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
جس کی وجہ سے بار بار جمہوریت پٹر ی سے اتر جاتی ہے اور پھر کہا جاتا ہے کہ جمہوری نظام اچھا نہیں ہے، اس کی وجہ سے ہے کہ جمہوری قوتوں کو کام کرنے کا موقع نہیں ملتا اور لے پالک قسم کی سیاسی جماعتیں اور سیاسی قیادت پروان چڑھتی ہے۔
ایک منصوبے کے تحت افغانستان میں برپا ہونے والے انقلاب کے خلاف جہاد کے نام پر جو گروہ منظم وہ پاکستان کے لیے مصیبت بن گئے اور اب تک مصیبت بنے ہوئے ہیں۔ بڑی مشکلوں سے 18ویں ترمیم منظور ہونے کے بعد صوبوں کو کچھ حقوق ملنے کی توقع تھی لیکن موجودہ حکومت اس ترمیم کی مخالفت کر رہی ہے، جس سے صوبوں میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔
ریاست کے بیانیہ کے مطابق مذہبی انتہا پسندی، پرتشدد فرقہ پرستی اور دہشت گردی کی وجہ سے معاشرے اور ریاست کو خطرات درپیش ہیں، جو روشن خیالی، انسانی ترقی، برابری، انصاف، لبرل جمہوری اقدار، قانون کی حکمرانی، سائنسی علوم، انسانی اقدار، اقلیتوں کے حقوق کے انکاری ہیں، سرد جنگ کے دوران طاقتور قوتوں نے جو پالیسی مرتب کی، اس میں اس ملک کے عوام کا کوئی عمل دخل نہیں۔
پاکستان کا بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم آج تک یہ فیصلہ نہ کرسکے کہ ملک کیسے چلانا ہے؟ نظام کون سا لانا ہے، جمہوریت اور آمریت کے درمیان ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں، اس ملک میں آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو غدار کہہ کر کھڈے لائن لگا دیا گیا جب کہ مفت خور، محنت کیے بغیر سرکاری عہدوں اور ہندوؤں اور سکھوں کی چھوڑی ہوئی زمینوں اور حویلیوں کے جعلی کلیمز کے ذریعے بغیرکوئی کاروبار یا محنت کیے بغیر امیر ہونے والے طبقے اور قیام پاکستان کی مخالفت کرنے والے اس ملک کے مامے اور بابے بن گئے۔
جعلی دانشور بانی پاکستان کے منہ میں اپنی مرضی کی باتیں ڈال کر ان کو نافذ کرنے کی باتیں کرتے ہیں، عوام ہمیشہ انتخابات میں انتہا پسنداور رجعت پسند پارٹیوں کو رد کر کے جمہوری اور لبرل پارٹیوں کو ووٹ دیتے ہیں، لیکن رجعت پسند آج بھی پاکستان کو اپنی مرضی کے تاریک راہوں پر چلانا چاہتے ہیں، قائد اعظم نے گیارہ اگست 1947کو دستور ساز اسمبلی سے اپنے خطاب میں پاکستان کی ریاستی پالیسی کی تشریح کردی تھی، انھوں نے فرمایا کہ "پاکستان لبرل، روادار، تحمل اور برداشت کے رویوں کا حامل ہوگا، ریاست کی بنیاد شہریت، نہ کہ مذہب پر ہوگی۔
اس میں مذہب یقینی طور پر موجود ہوگا لیکن ایک ذاتی ایشوکے طور پر، اس سے ریاست کو کوئی سروکار نہیں ہوگا "۔ اگر بعض دوستوں کا یہ اعتراض مان لیا جائے کہ پاکستان کو ایک لبرل ملک نہیں ہونا چاہیے تو پھر یہاں ایک سوال کیا جا سکتا ہے کہ اگر پاکستان ایک لبرل اور جمہوری ملک نہ ہو تو پھر اس کو کیسا ملک ہونا چاہیے؟ کیا یہاں طالبان یا داعش قسم کی حکومت ہونی چاہیے یا سعودی اور دیگر عرب ممالک کی طرح بادشاہتیں یا ایران کی طرح کا نظام؟ ہم آج بھی بحیثیت قوم کالی رات میں ایک کالی بلی ڈھونڈ رہے ہیں جو وہاں موجود ہی نہیں، اس تلاش میں دیواروں، دروازوں، میز اور کرسی سے ٹکرا ٹکرا کر لہولہان ہوگئے۔
تعلیم کے نام پر اس قوم کے مستقبل کو تقسیم کیا جا رہا ہے، انتہا پسندی کی نرسیاں کام کر رہی ہیں، یکساں اور سائنسی بنیادوں پر نظام تعلیم کو فروغ دینا ہوگا، زرعی اصلاحات اور لیبر اصلاحات پر عمل درآمد ضروری ہے، صحت اور دیگر سہولیات عوام کوفراہم کرنا، خارجہ پالیسی ٹھیک کرنا، خاص کر ہندوستان اور افغانستان کے ساتھ، پراکسی جنگوں کاخاتمہ، دہشت گردی کے خلاف سنجیدہ جنگ، یعنی اس ملک کی سمت کو ٹھیک کرنے کے لیے ایک نیا بیانیہ اور نیاعمرانی معاہدہ، از حد ضروری ہیں، اپنی مرضی کی حکومتوں کے بجائے عوامی مرضی کی حکومتوں کو قائم کرنا ہوگا۔ آخر ان تمام امور میں غیر اسلامی بات کیا ہے؟
قائد اعظم سے کسی نے پوچھا کہ برصغیر کی تقسیم کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات کیسے ہوں گے؟ انھوں نے جواب دیا کہ جیسے کہ امریکا اور کینیڈا کے ہیں، کاش آج قائد زندہ ہوتے اور ان دونوں ہمسایوں کو ہر وقت لڑتے دیکھتے، یہ دونوں ملک اب اچھے ہمسائے بھی نہیں رہے، قوموں کے درمیان تنازعات بھی ہوتے ہیں۔
جنگیں بھی ہوتی ہیں لیکن ایسے نہیں ہوتا کہ 74سال سے ایک دوسرے کے ساتھ بات بھی نہ کریں۔ امریکا اور سوویت یونین سرد جنگ کے گرم ترین ایام میں بھی آپس میں کسی نہ کسی سطح پر تعلق رکھتے تھے اور اسلحے کو کنٹرول کرنے اور پرامن باہمی کے اصولوں پر عمل کرنے کی کو شش کرتے اس کو Detenteکا عمل کہتے تھے، فن لینڈ کے دارالحکومت ہلسنکی میں باقاعدہ ایک دفتر تھا جس میں دونوں ملکوں کے نمایندے مل کر مختلف مسائل پر بات کرتے، آج سب سے زیادہ مخالفت امریکا اور چین میں ہیں لیکن وہ بھی باہم مکالمے کرتے رہتے ہیں۔ چین اور بھارت لڑتے بھی ہیں مذاکرات بھی کرتے ہیں اور تجارت بھی جاری رہتی ہے، ہمارے انداز نرالے ہیں۔
بات چیت بند، آمد و رفت بند، میل جول بند، دونوں ایٹمی طاقتیں، ایک دوسرے کو کئی بار تباہ کرنے کی صلاحیت کے باوجود اسلحے کے دوڑ میں مشغول، دونوں طرف کے دفاعی ماہرین جنھوں نے خود کبھی کسی لڑائی میں حصہ نہیں لیا ہوتا لیکن دن رات ٹی وی پر ایک دوسرے کو فتح کرتے رہتے ہیں، آخر ہمیں عقل کب آئے گی؟ دوسرے ملکوں کی طرح ہمیں بھی تعلقات کی کوئی کھڑ کی کھلی رکھنی چاہیے۔ اس دشمنی کی وجہ سے مودی جیسے انتہا پسند بھارت پر حکومت کر رہے ہیں۔ مصطفے زیدی۔
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز ایک چیز ٹوٹ جاتی ہے