اکبر خان کاکا کے گھر کے کنویں میں ایک جانور گر کر مر گیا، اب مسئلہ یہ تھا کہ کنواں کیسے پاک ہوگا؟ مولوی صاحب سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ اپنے گھر کے کنویں سے چالیس بوقے پانی نکال دیں، انشاء اللہ کنواں پاک ہو جائے گا۔
اکبر خان کاکا نے گھر آکر پانی پاک کرنے کا نسخہ سب کو بتایا، گھر والوں نے کمر باندھی اور باری باری کرکے کنویں سے چالیس کے بجائے پچاس بوقے پانی نکالا، سب نے خدا کا شکر ادا کیا کہ کنواں پاک ہو گیا، دودن کے بعد پانی سے بدبو آنے لگی، کاکا پھر مولوی صاحب کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ آپ کے کہنے پر میں نے کنویں سے چالیس کے بجائے پچاس بوقے پانی نکالا لیکن کنویں سے ابھی تک بدبو آرہی ہے۔
اب کیا کیا جائے؟ مولوی صاحب نے کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے، مولوی صاحب کے پاس حاجی گل محمدبیٹھے ہوئے تھے، انھوں نے اکبر خان کاکا سے پوچھا کہ آپ نے مردہ جانور کو تو کنویں سے نکالا ہوگا، کاکا نے بڑی سادگی سے جواب دیا کہ مولوی صاحب نے تو مجھے مردہ جانور نکالنے کے بارے میں کوئی ہدایت نہیں دی تھی، حاجی صاحب نے کہا کہ عجیب آدمی ہوجب تک مردہ جانور پانی میں پڑا ہے چالیس تو کیا چالیس ہزار بوقے نکالنے سے بھی کنواں صاف نہیں ہوگا، اس لیے سب سے پہلے کنویں سے مردہ جانور نکالو اس کے بعد جیسے مولوی صاحب نے کہا ہے اتنے بوقے پانی نکالو، تب کہیں جاکر کنواں صاف ہوگا"۔ یہ کہانی اس وقت یاد آئی جب کہ حکومت وقت پرانے بیانیے کے ہوتے ہوئے ملک کے حالات ٹھیک کرنا چاہتے ہیں۔
پاکستان کا اصل مسئلہ اس کا سرکاری بیانیہ اور سیکیورٹی ریاست ہے جو حقائق کے بجائے خواہشات پر مبنی ہے، ہر ایک چیز دو عملی پر استوار ہے، کہنے کو تو ملک میں ایک آئینی اور جمہوری نظام ہے، پارلیمنٹ سپریم ہے، حزب اختلاف اور حکومت دونوں سیاسی پارٹیوں کی نمایندگی کر رہی ہیں، سیاسی پارٹیاں بھی موجود ہیں جو جمہوریت کی بنیاد ہوتی ہیں لیکن عملاً کیا صورت حال ہے۔
جن خطوط پر ہماری ریاست استوار ہے ان میں تبدیلی کی گنجائش نہیں ہے، نظریے کے ارتقاء کی یہاں گنجائش ختم کردی گئی ہے، غیر سیاسی قوتیں روز بروز مضبوط ہو رہی ہیں، بلکہ وہ حقیقی(Defecto) حکمران ہیں۔ سیاسی پارٹیاں اپنی کرتوتوں کی وجہ سے نڈھال ہیں، فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں اور یہ پارٹیاں ان پر عمل کرتے ہوئے فخر محسوس کرتی ہیں۔
عمران خان نے کھلے عام جنرل اسمبلی میں وہ باتیں کیں جو کوئی اور کرتا تو تنقید ہوتی لیکن ان کو شاباش دی گئی، ریاست پاکستان کو ایک بیانیے نے جھکڑ رکھا ہے کہ ہمیں ہندوستان سے خطرہ ہے کیونکہ وہ ہمارا دشمن ہے، دنیا میں کوئی ملک بھی کسی ملک کا نام لے کر اس کو دشمن نہیں کہتا، کیونکہ دشمنیاں اور دوستیاں وقت اور حالات کے مطابق بدلتی رہتی ہیں۔ یہاں ہم نے ایک مستقل دشمن پال رکھا ہے اور اس سوچ نے پوری ریاستی نظام کو جھکڑ کر رکھا ہے، ریاست کا اور کوئی کام نہیں صرف دن رات ہندوستان جیسے دشمن کو نیچا دکھانا ہے، کھیل کا میچ ہو یا اقوام متحدہ میں کوئی بحث ہمارا کام انڈیا کو شکست دینا ہے۔
سرد جنگ کی انتہاء پر بھی امریکا یا سوویت یونین نے کبھی کھلے عام ایک دوسرے کو دشمن نہیں کہا، چین نے بھی کبھی امریکا کو دشمن نہیں کہا بلکہ نظریاتی کشمکش اور تجارتی اختلافات کا ذکر ہوتا تھا، آپس میں تعلقات اور مذاکرات کی بنیاد "Detente"یعنی پرامن بقائے باہمی تھی۔ سیاست میں نام لے کر دشمنی کی روایت صرف ہمارے ہاں پائی جاتی ہے، حالانکہ ہندوستان اور دوسرے پڑوسیوں سے دوستی کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہوتا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ پڑوسیوں کے ساتھ پرامن حالات کے بغیر ترقی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، دشمنی تو بڑی کر رہے ہیں لیکن آج تک نظام تعلیم میں کوئی تبدیلی نہ لا سکے۔
انگریزی اسکول، سرکاری ٹاٹ اسکول اور دینی مدارس، تینوں مل کر ایک عجیب قوم کی تشکیل کر رہے ہیں، جو ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں، بس اس بات کی خوشی ہے کہ انگریزی بابو بھی خوش اور مولوی صاحب بھی خوش، قوم جائے بھاڑ میں۔ تعلیم اور صحت کے شعبے کبھی ہماری ترجیح نہیں رہے کیونکہ سارے وسائل کا رخ دشمن کو زیر کرنے پر رہا ہے، بھٹو، بینظیر اور نواز شریف سب اسی دشمنی کے بیانیے کے پرستار نکلے، عمران خان بھی اسی سوچ کا شکار ہیں، اس لیے یہ مشکل ہے کہ پاکستان میں نئی سوچ پیدا ہو۔
نئی سوچ تو کیا ہماری تو تعلیم کی بنیاد ہی جھوٹ پر تھی بلکہ اب بھی ہے۔ پہلے ایک واقعہ کہ بچپن میں تاریخ کی کتابوں میں پڑھ کر ہماری ہمدردیاں سکندر اعظم کے ساتھ ہوگئیں اور ہمیں راجہ پورس ایک غدار اور ہندو نظر آیا، بہت بعد میں معلوم ہوا کہ سکندر اعظم مسلمان نہیں بلکہ یونان کا الیگزینڈر تھا اور خواہ مخوا اس کو مسلمانوں جیسا نام دے کر ہماری ہمدردیاں اس کے ساتھ کردیں گئیں، حالانکہ ہمارا ہم وطن اور بہادر تو پورس تھا جس نے سکندر کو واپس جانے پر مجبور کیا، یہ غلطیاں اب بھی ہو رہی ہیں۔ یعنی گاندھی اور نہرو چونکہ ہندو تھے تو مکار اور عیار تھے۔ گاندھی میں کوئی بھی خوبی نہیں تھی وہ صرف اپنی عیارانہ چالوں کی مدد سے مسلمانوں کو دھوکا دے رہا تھا۔
یہ کسی نے نہیں بتایا کہ گاندھی صرف ایک مکار شخص نہیں بلکہ ایک بیرسٹر تھا اور جنوبی افریقہ کے سیاہ فاموں کی سفید فام اقلیت کے خلاف آزادی کی لڑائی کا اہم کردار تھا، یہ بات بھی بعد میں جاکر معلوم ہوئی کہ گاندھی جی نے متحدہ ہندوستان کے خزانے سے پاکستان کو پورا حصہ دینے کے لیے بھوک ہڑتال کی تھی اور اس پاکستان دوستی کے پاداش میں RSS کے انتہا پسند گاڈسے نے انھیں قتل کردیا، یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ گاندھی جی کے قتل پر پاکستان میں قائد اعظم نے بطور گورنر جنرل سرکاری سطح پر سوگ اور تعطیل کا اعلان کیا تھا۔
سیکولرازم کے بارے میں ہمیں بتایا گیا کہ یہ لادینیت کا دوسرا نام ہے، جو بھی شخص سیکولر ہوتا ہے وہ اصل میں لادین ہوتا ہے، اس طرح ایک لبرل شخص وہ ہوتا ہے جو شرابی ہوتا ہے اور کلبوں اور قحبہ خانوں کی ترویج چاہتا ہے۔ ہماری پسماندگی کی وجہ یہ ہے کہ "ہنود اور یہود" ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہتے ہیں۔
عجیب بات ہے کہ پچھلے دو مہینے سے ہماری قوم کے خیالات تبدیل ہو رہے ہیں، جس دن سے بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو اپنا حصہ بنایا ہے، اس دن سے ہمیں گاندھی جی کی تعلیمات اچھی لگنے لگی ہیں، ہم مسلسل ہندوستان کو طعنے دے رہے ہیں کہ یہ گاندھی کا ہندوستان نہیں ہے، جہاں کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، گاندھی جی تو اہنسہ اور عدم تشدد کے حامی تھے۔ ہم گاندھی جی کے قاتل کو بھی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں کہ وہ آر ایس ایس کا کارکن تھا، جس کا مودی بھی ممبر ہے۔ ہم سیکولرازم کو بھی اچھا سمجھنے لگے ہیں، اب ہم ہندوستان کو طعنے دے رہے ہیں کہ کہاں گیا تمہارا سیکولرازم کیوں کہ بی جے پی سرکار مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں پر ظلم ڈھا رہی ہے، اب ہم سوال کر رہے ہیں سیکولر ہندوستان میں آر ایس ایس کے غنڈے کیسے دندناتے پھر رہے ہیں۔
جب سے کشمیر میں انٹرنیٹ بند ہوا ہے اور میڈیا پر پابندیاں لگی ہیں تو اس دن سے ہم میڈیا کے آزادی کے چمپئن بن گئے ہیں اور دنیا بھر میں کشمیر کے اندر میڈیا پر پابندی کا واویلا کر رہے ہیں، ہمیں اچانک آزاد عدلیہ کی اہمیت کا ادراک بھی ہو گیا ہے، ہم ہندوستانی سپریم کورٹ سے امید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ مودی سرکار کے کشمیر میں کیے گئے اقدامات کو کالعدم قراردے، بنیادی انسانی حقوق کی اہمیت کا اندازہ بھی ہمیں گزشتہ دو ماہ میں ہوا کہ انسانوں کے ساتھ رنگ، نسل، عقیدے، یا مذہب کی بنیاد پر فرق نہیں کرنا چائیے۔
ریاست کی ذمے داری ہے کہ بلا تفریق اپنے شہریوں کو تمام بنیادی حقوق کی فراہمی یقینی بنائے، مودی حکومت کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالی کر رہی ہے۔ اب ہمیں سمجھ آئی ہے کہ جمہوریت، سیکولرازم، لبرل ازم، فیڈرل ازم، آزاد میڈیا، عدالتیں اور بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی ایک اچھی ریاست کی ذمے داری ہے، یہ تمام تصورات ہمیں اچھے لگنے لگے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ یہ تمام اصول صرف ہندوستان میں ہونے چائیے یا پاکستان بھی ایک ریاست کے طور پر ان کو اپنائے۔ اصل میں دوغلی پالیسی ہی وہ مردہ جانور ہے جو ابھی تک کنویں میں پڑا ہے، پہلے اس کو نکالنا ہوگا، پھر کنواں چالیس بوقوں سے صاف ہوگا۔